دونوں باپ بیٹے ہیں اور اچھے بے تکلف دوست بھی۔ اور دونوں ہی کیرم کے کھیل کے شوقین اور ماہر۔ وہی کیرم بورڈ کا کھیل جو ایک زمانے میں ہمارے گھروں کا مقبول مشغلہ تھا اور نہ جانے کیوں اب ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے۔ کینیڈا میں شائقینِ کیرم بورڈ کا ایک کلب ہے جو اس کے مقابلے کرواتا ہے۔ دونوں باپ بیٹے ونڈسر سے ٹورنٹو ان مقابلوں میں حصہ لینے آئے۔ صبح سے شام تک کافی گیمز کھیلیں اور جیتیں۔ شام کو دس دس‘ بارہ بارہ گیمز کھیلنے کے بعد تھکے ہارے گھر آئے۔ کھانے کے بعد کچھ فارغ ہوئے تو باپ کی آنکھیں چمکیں۔ بیٹے کی طرف دیکھا۔ بولے: فارغ تو بیٹھے ہیں‘ ایک گیم نہ ہو جائے؟ بیٹے کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔ وہ بھی یہی تجویز پیش کرنے والا تھا۔ دونوں اٹھے اور کیرم کی کئی گیمیں کھیلنے بیٹھ گئے۔
میرے عزیز بھانجے احمر عثمانی نے اپنے والد سلیم عثمانی کے سامنے یہ قصہ سنایا تو میرا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ کیرم کا ایسا عشق بھی نہ دیکھا نہ سنا۔ میری سگی ماموں زاد بہن عارفہ کے اکلوتے بیٹے احمر کا ذکر میں اپنے سفرنامے ''مسافر‘‘ میں دلی‘ ہندوستان کے سفر میں کر چکا ہوں۔ یہ گھرانہ پنجابی پھاٹک‘ بَلی ماراں‘ پرانی دلی میں رہتا تھا۔ یہ گلی غالب کی حویلی والی گلی قاسم جان کے ساتھ ہے۔ میں جب بھی دلی جاتا تو عارفہ کے گھر جانا ضروری تھا۔ عارفہ کو میری پسند معلوم تھی اور وہ بارہ دری کی مشہور نہاری میرے لیے منگوا کر رکھتی تھیں۔ احمر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے اور اب کینیڈین شہری بھی۔ وہ ڈیٹرائٹ کی امریکی کینیڈین سرحد پر ایک خوبصورت شہر ونڈسر (Windsor) میں رہتا ہے۔ جولائی 2022ء میں جب میں کینیڈا گیا تو عارفہ اور سلیم بھائی بھی ہندوستان سے احمر کے پاس آئے ہوئے تھے۔ ان سے ملنے کا یہ موقع بہت غنیمت تھا کہ اب ہندوستان اور پاکستان کے بیچ سگے اور قریبی رشتے داروں کا ملنا بھی محال ہو چکا ہے۔ احمر اس کیرم کلب کے مقابلوں کے لیے ٹورنٹو آیا تو واپسی پر ساتھ جانا طے ہوا اور اب ہم ونڈسر کے لیے رواں دواں تھے۔
انسان کا جذباتی تعلق اپنی اور اپنے آباؤ اجداد کی مٹی سے بہت دیر تک رہتا ہے۔ انگریز بھی جب امریکہ اور کینیڈا کی نئی بستیاں بسا رہے تھے تو انگلینڈ کی بستیاں ان کے ذہن میں موجود تھیں۔ نئی بستیوں کے نام انہوں نے انگلینڈ کی بستیوں کے ناموں پر رکھے۔ یارک‘ ونڈسر‘ برمنگھم‘ برسٹل حتیٰ کہ لندن بھی۔ کینیڈا کا صوبہ اونٹاریو کافی رقبے پر محیط ہے۔ ٹورنٹو بھی اسی میں ہے اور ونڈسر بھی۔ ونڈسر دریائے ڈیٹرائٹ کے اس پار کینیڈا کا پیارا اور چھوٹا سا شہر ہے‘ دریا کے اس پار امریکی شہر ڈیٹرائٹ ہے۔ دونوں کناروں کو ملاتا ہوا ایک پل ہے۔ آنا جانا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ بہت سے لوگ ملازمت یا کاروبار ڈیٹرائٹ میں کرتے ہیں اور رہائش ونڈسر میں رکھتے ہیں جو نسبتاً سستا پڑتا ہے۔ احمر اور اس کی بیگم کے پیارے بچے‘ سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ احمر کے گھر کے سامنے کھلے پھولوں میں اس کے بچے بھی شامل ہوگئے تو سب پھولوں کی الگ الگ داد مشکل ہوگئی۔ عارفہ سے ملنا ایک مکمل سوغات تھی اور یہ موقع برسوں کے بعد ملا تھا۔ مجھے ونڈسر میں ایک دن گزارنا تھا اور یہ لمحات مشکل سے میسر آئے تھے۔ اگلے دن ہم سب دریائے ڈیٹرائٹ پر پانچ کلو میٹر لمبے واٹر فرنٹ پارک میں گئے۔ اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں کچھ وقت سائے اور دھوپ کی ہم آغوشی میں لہروں کی آواز سنتے‘ بہتے پانی کے کنارے گزارنا ایک بار پھر نصیب ہوا۔ شام سے پہلے واپس پہنچنا تھا کیونکہ ماموں محتشم عثمانی کا میرا ہم عمر بیٹا ندیم عثمانی مجھے ونڈسر لینے آرہا تھا۔ ماموں محتشم عثمانی سگے ماموں تو نہیں تھے لیکن سگوں سے بڑھ کر۔ ہماری امی اور ہم سب بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ پاکستان نیوی میں شامل رہے اور نیوی کے کئی معرکوں میں حصہ لیا۔ میرے لڑکپن کی وہ یادیں ابھی تازہ ہیں جب وہ ہمیں اپنا جنگی جہاز دکھانے لے گئے تھے۔ جزیرہ منوڑہ پر بھی کافی مدت رہائش رکھی۔ ان کے بیٹے جناب انجم عثمانی‘ معروف نثر نگار اور سب رنگ کے مدیر جناب شکیل عادل زادہ کے ہم زلف ہیں۔ ندیم میرا ہم عمر ہے اور اس سے بچپن کی دوستی ہے۔ اب وہ ملٹن‘ ٹورنٹو میں رہائش پذیر ہے۔ ونڈسر سے ملٹن لگ بھگ 325کلومیٹر ہے یعنی ساڑھے تین‘ چار گھنٹوں کا سفر۔ ہم شام کو روانہ ہوکر رات کو ملٹن پہنچے جہاں سارہ بھابھی اور ندیم کے محبت بھرے بچے ہمارے منتظر تھے۔
زمانہ بہت گزر جائے‘ پلوں کے نیچے سے ہی نہیں اوپر سے بھی پانی گزرنے لگے‘ آپ کے بچے آپ کے قد سے اوپر نکل جائیں‘ شہر کیا‘ ملک ہی بدل جائیں‘ اور ملاقاتوں میں پندرہ بیس سال کے شگاف پڑنے لگیں‘ تو بچپن کی ہم مزاجی اور بے تکلفی بھی مشکوک سی ہونے لگتی ہے۔ لیکن ندیم آیا تو لگتا ہی نہیں تھا کہ اس سے بارہ پندرہ سال کے بعد ملاقات ہورہی ہے۔ وہی محبت‘ ہم مزاجی‘ بے تکلفی اور چھیڑ چھاڑ۔ ہم وہیں سے جڑ گئے جہاں سے ڈور ٹوٹی تھی اور شاید دوستی کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے۔ خنک رات میں کھانے سے فارغ ہوکر ندیم کے گھر کے عقب میں خوبصورت ڈیک پر بیٹھے تو برسوں کا فاصلہ منٹوں میں طے ہونے لگا۔ صحت‘ کاروبار‘ مسائل‘ مشاغل‘ دلچسپیاں‘ لوگوں کے احوال‘ آئندہ کے ارادے‘ اس ملاقات کو بھرپور گزارنے کے منصوبے‘ آئندہ ملاقاتوں کی تجاویز‘ سب کچھ ایک ایک کرکے زنبیل سے نکالتے گئے اور سگریٹوں کے ساتھ کشید کرتے گئے۔ اچھی بلکہ قابلِ تعریف بات یہ تھی کہ اس نے بھی سگریٹ نوشی ترک نہیں کی تھی۔ ندیم عثمانی اندر سے اب بھی شرارتی اور کھلنڈرا ہے اور میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے۔ وہ جوانی ہی میں نہیں‘ آج بھی اپنی شگفتہ مزاجی‘ جملے بازی‘ خوبصورت شخصیت کی وجہ سے ہر دلعزیز ہے۔ ایک زمانے میں ماڈلنگ سے بھی شغف کرتا رہا۔ ماشاء اللہ اب بہت دین دار ہے اور دونوں میاں بیوی ان معاملات میں بھی قابلِ رشک ہیں۔ کسی کی مہمان نوازی میں بھرپور محبت اور خلوص شامل ہو جائے تو ان ذائقوں کی مثال ملنی مشکل ہو جاتی ہے۔ ندیم اور سارہ بھابھی نے جس طرح یہ ذائقے میرے لیے اکٹھے کیے‘ اس نے مجھے شرمندہ بھی کردیا اور دل بھی موہ لیا۔ اللہ انہیں ہمیشہ شاداب رکھے۔
ملٹن بھی نئی متمدن بستیوں کی طرح خوب صورت اور سرسبز بستی ہے۔ میں جولائی میں یہاں آیا تھا جب موسم قدرے گرم اور درخت اور سبزہ اپنی بہار پر تھا۔ سبز کا وہ رنگ بھی موجود تھا جسے چچا غالب نے سیہ مست کہا ہے۔ اس تصویر کا اپنا رنگ ہے۔ لیکن میں نے کینیڈا کی خزاں کے جو رنگ تصویروں اور فلموں میں دیکھ رکھے ہیں اور جس کے رنگ میں امریکہ سمیت کافی ممالک میں دیکھ چکا ہوں‘ وہ اس موسم میں نہیں تھے۔ ندیم کے گھر کے باہر آگے سبزہ زار میں ایک گھنا چھتنار کھڑا ہے‘ یاد نہیں میپل کا ہے یا کوئی اور پیڑ ہے۔ ایک بار ندیم نے خزاں میں گلابی‘ آتشی‘ زرد اور عنابی پتوں سے لدے اس پیڑ کی تصویر مجھے بھیجی تھی۔ دل کے اندر تک اتر جانے والی یہ تصویر میرے حافظے میں بھی محفوظ تھی۔ اب جولائی میں یہ پیڑ گہرا سبز اور گھنا تھا۔ یہ رنگ اس کے لباسوں میں ایک الگ لباس تھا۔ میں تاد یر اسے تکتا تھا اور مزید دیکھنے میں وقت کی کمی آڑے آتی تھی۔
ندیم عثمانی! اب اس تحریر کے ذریعے میں تمہیں اور سب گھر والوں کو تو سلام بھیجتا ہی ہوں لیکن اس پیڑ کو بھی میرا سلام کہنا اور کہنا کہ زرد رتوں کے اترتے موسم میں ایک گلابی پتہ لاہور بھیجنا۔ سفید لباس اوڑھنے سے پہلے میرا انتظار کرنا۔ تم ہر لباس میں بادشاہ لگتے ہو لیکن تمہیں شاہانہ آتشی لباس میں دیکھنا میری شدید خواہش ہے۔ کیا تم بھی اسی طرح شاخیں پھیلا کر ملوگے؟