"SUC" (space) message & send to 7575

قیام جیسی کوئی حالتِ سفر ہے مری

ٹرین آگے کی طرف اور سرسبز مناظر پیچھے کی طرف بھاگے جارہے تھے۔ کچھ دیر پہلے کہیں ٹپ ٹپ اور کہیں موسلادھار شکل میں ہونے والی بارش مناظر کو مزید دلکش کرگئی تھی۔ پانی کے قطرے کھڑکیوں کے شفاف شیشوں پرگول‘ مخروطی آب دار موتیوں کی طرح ٹپکتے‘ لرزتے‘ جھلملاتے‘ رکتے‘ پھسلتے سفر کر رہے تھے۔ دور ایک بڑی جھیل کا سرمئی نیلگوں اُفق کہیں درختوں کے بیچ جھمکتا اور کہیں چھپ جاتا تھا۔ ٹورونٹو سے اوٹاوا جانے والی وایا (VIA) ریل سروس کی آرام دہ کوچ میں کہیں کہیں مسافر موجود تھے۔ ندیم عثمانی کی اضافی مہمان نوازی نے ٹرین کی بکنگ بھی کروا دی تھی اور مجھے وقت پر ریلوے سٹیشن بھی پہنچا دیا تھا۔ اور میں اس پیارے ہم نشین کی کمی محسوس کر رہا تھا۔ یہ بات الگ کہ ہم مزاج بے تکلف دوست کی ہم نشینی کا اپنا لطف ہے اور اکیلے پن کا اپنا۔ مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا ہے کہ خود سے ملاقات کے لیے سفر بہترین موقع ہوا کرتا ہے۔ سفر‘ تخلیہ اور فراغت۔ خود سے بھرپور ملاقات کے لیے اور کیا چاہیے۔ سو خود کلامی کی لذت وافر تھی۔ زیر لب خود کلامی کی لذت گفتگو کرنے والے سے پوچھنی چاہیے۔ اور خود کلامی شاعر کی ہو تو محفوظ بھی رہ جاتی ہے۔
بہت دنوں میں مرے گھر کی خامشی ٹوٹی
خود اپنے آپ سے اک دن کلام میں نے کیا
میں گزشتہ برس جولائی میں ٹورونٹو سے اوٹاوا اپنے عزیز سیف الرحمن عثمانی کی دعوت پر گیا‘ جنہوں نے میرے لیے کچھ چھٹیاں لی تھیں اور طے کیا تھا کہ ایک دن اوٹاوا رک کر گاڑی میں مونٹریال جائیں گے‘ جو کینیڈا کا دوسرا بڑا شہر اور فرانسیسی اکثریت کے صوبے کیوبک کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہ علاقہ‘ یہ زمین‘ یہ آسمان میرے لیے نئے تھے۔ اور میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایک نووارد کی اجنبی آنکھوں سے اَن دیکھے منظروں کو دیکھنے کا لطف بالکل الگ ہے۔ دوسری بار کے سفر میں وہ تجسس اور تحیر باقی نہیں رہتا جو پہلی بار ہوا کرتا ہے۔ جانتے ہیں ناں! کہ ہر بار محبت الگ ذائقہ دیتی ہے لیکن پہلی محبت فراموش نہیں ہوا کرتی۔ جو فراموش کرتے ہیں وہ احسان فراموش ہوتے ہیں۔
کینیڈا کی سرکاری ریلوے دو ہیں۔ کینیڈین ریلوے اور کینیڈین پیسفک ریلوے۔ یہ دونوں سسٹم مال برداری کا کام کرتے ہیں۔ مسافر برداری کا نہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں‘ اس خلا کو نجی کمپنی وایا ریل کے نظام نے پُر کر رکھا ہے۔ جو آٹھ صوبوں کے شہروں کے بیچ ہفتہ وار 500 ٹرینیں چلاتی ہے اور بلا شبہ بہت آرام دہ اور بر وقت نظام ہے۔ صوبہ کیوبک دیکھنے کا شوق مجھے بہت مدت سے تھا اور اب سبیل یہ نکل آئی تھی کہ سیف بھائی نے از خود یہ پروگرام بنا کر دعوت دے دی تھی۔ ٹرین میں کھڑکی کے خنک شیشے سے رخسار جوڑ کر بیٹھنا مجھے بچپن میں لے جاتا ہے۔ جب ہم بہن بھائیوں کا سال میں ایک دو بار لاہور سے کراچی جانا ہوتا تھا اور اس بات پر لڑائی ہوا کرتی تھی کہ شیشے کے پاس کون بیٹھے گا۔ بالآخر تصفیہ اس پر ہوتا تھا کہ اتنے گھنٹے فلاں اور اتنے گھنٹے فلاں کی باری ہوگی۔ اس زمانے کی عوامی ایکسپریس ہمارے لیے پُر تعیش ترین ٹرین سے کم نہیں ہوا کرتی تھی۔ اور مہینوں پہلے سے اس کے خواب دیکھے جاتے تھے۔ ریل کا سفر حالتِ سفر کا قیام ہوتا ہے۔ دونوں لطف ایک ساتھ۔
قیام جیسی کوئی حالتِ سفر ہے مری
ہوا میں جیسے پرندہ ٹھہر نہیں جاتا
ایک رات ٹرین میں گزارنا خواب جیسا تھا اور بہت دفعہ دو تین قریبی گھرانے مل کر یہ سفر کرتے تھے۔ اس رات کے کھانے کے لیے ہماری امی بہت سی چیزیں فرمائش پر بناتی تھیں۔ بھنا قیمہ‘ آملیٹ‘ پراٹھے یا گھی والی روٹیاں؛ شامی کباب‘ اچار تو گویا لازمی تھے۔ جو کچھ بچتا وہ اگلی صبح ناشتے میں نمٹا دیا جاتا تھا۔ ایک ایک سٹیشن پر اتر کر‘ ٹھہر کر اس زمین کی خوشبو محسوس کی جاتی اور تبصرے ہوتے کہ اب اگلا سٹیشن‘ اگلا دریا کون سا آئے گا۔ دریا کے اوپر سے گاڑی گزرتی تو ریل کی آواز بدل جاتی۔ رات کو جنگلوں سے شائیں شائیں کرتی ہوا اور جھکتی شاخوں والے درختوں کے بیچ سے ریل گزرنا‘ عجیب پُراسرار کیفیت تھی جس میں خوف اندھیرے کی طرح ہر طرف ہوتا تھا۔ ریل کسی جنگل میں ٹھہرتی تو درختوں کے پیچھے عجیب عجیب ہیولے نظر آنے لگتے۔ ویران اور سنسان چھوٹے سٹیشنوں کی اپنی خوبصورت تنہائی تھی۔ سٹیشن پر جہاں چند منٹ سے زیادہ گاڑی نہیں ٹھہرتی‘ نلکے سے پانی بھرنا بھی ایک رومانس تھا۔ میں نے بچپن اور لڑکپن میں یہ کیفیتیں جذب کی ہیں۔ یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ میں نے ان سٹیشنوں اور ریل کے رومانس پر شاعری پڑھی اور ایک بار پھر ان منظروں سے گزرا جن سے بہت بار گزرا تھا۔ یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ سفر ریل کے بجائے ہوائی جہاز پر ہونے لگا۔ وہ ٹرینیں‘ وہ دن ہوا ہوگئے لیکن وہ کیفیتیں ہوا نہیں ہوئیں۔ بقول منیر نیازیؔ:
اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا ؍ ماری جو چیخ ریل نے، جنگل دہل گیا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ ؍ ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
آج بھی ریلوے سٹیشن پر ؍ آہنی سبز رنگ جنگلے کے پاس؍ قد آدم عقیق کے پودے ؍ تھام کر سرخ دھاریوں والے ؍ زرد پھولوں کے موہنی گجرے ؍ گوشت اور پوست کے وہ پیکر ہیں (ریلوے سٹیشن ؍ مجید امجد)
''سر! آپ کچھ لیں گے؟‘‘ خوبصورت مسکراہٹ اور شاداب چہرے والی ایک لڑکی کھانے کی چیزوں کی ٹرالی لیے میری سیٹ کے پاس کھڑی تھی۔ اس کی یونیفارم سرخ دھاریوں والے‘ زرد پھولوں جیسی لگنے لگی۔ کافی کی خواہش شدید تر ہوگئی۔ میں نے کافی اور سینڈوچ مانگا اور بٹوہ نکالا۔ کافی اور سینڈوچ گرم اور لذیذ تھے لیکن بعد کا مسئلہ لذیذ تر تھا۔ اس نے کہا کہ ہم کیش نہیں‘ صرف کارڈ لیتے ہیں۔ میرا کارڈ بین الاقوامی تھا‘ سو میں نے پیش کردیا۔ اور اس پر پہلے امریکہ اور کینیڈا میں کئی ادائیگیاں کر چکا تھا لیکن اس بار مشین نے کارڈ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ حسینہ نے کئی بار کوشش کی مگر مشین میرے کارڈ کو ناپسند کرتی تھی۔ (یا ممکن ہے بہت پسند کرتی ہو)۔ جب ہر کوشش ناکام ہوئی تو اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ''سر! یہ کافی ہماری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے‘‘۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس بار یہ مسکراہٹ کیوں زیادہ پیاری لگی اور کافی اور سینڈوچ کا مزہ مزید کیوں بڑھ گیا۔ ایسے میں جی تو چاہتا ہے نا کہ ایک اور مسکراہٹ‘ ایک اور تحفے کا مطالبہ کردیا جائے۔
ٹورونٹو سے اوٹاوا کا راستہ ہریالی کے بیچ کا راستہ ہے۔ دن قدرے گرم تھا اور سرد تر رتوں کے بعد پیڑوں اور سبزے کو کھل کھیلنے کا پورا موقع مل رہا تھا۔ کینیڈا کا سرد ترین حصہ تو ابھی بہت دور تھا لیکن میں بتدریج اسی طرف جارہا تھا۔ لبرا ڈور (Labrador)۔ برف کا تاحد نظر ویرانہ۔ جہاں کوئی بستا نہیں اور کوئی پتی اگتی نہیں۔ وہ زمین جہاں برف اور جھیلوں کی راجدھانی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کہیں اتنی ایک جیسی‘ اتنی زیادہ اور اتنی بڑی جھیلیں نہیں ہیں۔ مجھے برسوں پہلے پڑھا ہوا ہمینڈ اننز (Hammond Innes) کا انگلش ناول The Land God Gave to Cain (وہ زمین جو خدا نے قابیل کو دی تھی) یاد آ گیا۔ وہ بیٹی جس کا پائلٹ باپ ایئر کریش میں اس برفانی صحرا میں کسی جھیل کنارے کہیں کھو گیا تھا اور وہ ایک سگنل‘ ایک موہوم امید کی روشنی میں اسے ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی تھی۔ لاروش کا فرانسیسی نام پہلی بار اسی ناول میں پڑھا تھا۔ پھر جب ناظم آباد کراچی میں اسی نام کا ریسٹورنٹ کھلا تو ہم وہاں بیٹھ کر دونوں چیزوں میں مطابقت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ زندگی میں ناکام کوششوں کی تعداد بہت بڑی ہوتی ہے۔ ہائے میر صاحب! سبحان اللہ!
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں ؍تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں