کس دردکے ساتھ‘کس دکھ کے ساتھ پیغمبر نے اپنی قوم سے یہ جملہ کہا ہوگا۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ۔ ہر ایک کے چہرے دیکھ کر ۔ہر ایک کی باتیں سن کر ۔حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ معروف ہے ۔ اس واقعے میں وہ بار بار اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہیں ۔ اے میری قوم! اے میری قوم !اسی میں یہ دکھ بھرا جملہ بھی آتا ہے ۔ الیس منکم رجل الر شید ۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ہے ۔
وہ معاملات اور تھے۔ بگڑی ہوئی ‘الجھی ہوئی اور مسخ شدہ نفسانی خواہشات کے مسائل ۔اس وقت ہماری قوم جس دور سے گزر رہی ہے وہ بگڑی ہوئی ‘الجھی ہوئی ‘ مسخ شدہ اناؤں کی جنگ اور ٹکراؤ کے خوفناک مسائل ہیں۔ ہر طرف دیکھنے ‘ہر طرف سے اَناکے ڈسے ہوئے لوگوں کی باتیں سننے کے بعد یہی جملہ ذہن میں آتا ہے ۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ہے؟
ایک خوفناک جنگ جاری ہے۔اس گورکھ دھندے کو سمجھنا بھی مشکل ہے ۔کسی کو سمجھانا تو دور کی بات ۔کسی کے کس حکم اور کس فیصلے کے محرکات کیا ہیں اور پس پردہ اصل بات کیا ہے ؟کس نے آئین پر عمل کا اورکس نے آئین شکنی کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟ کون درست اور کون غلط ہے ؟یہ معاملات اتنے پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ ایک جملے میں کسی کو اچھا اور کسی کو برا کہا بھی نہیں جاسکتا۔پھر یہ کہ ہر ایک نے اپنے عمل کا اخلاقی اور قانونی جواز تراش لیا ہے ۔اسے تراشے بغیر بات بنتی بھی کب ہے ؛چنانچہ ہر ایک یہی راگ الاپ رہا ہے کہ میرا فلاں مخالف ملک اور آئین دشمن ہے اور میں ہوں کہ ان کی حفاظت میں لگا ہوا ہوں۔ان تمام پیچیدگیوں اور گورکھ دھندوں میں بھی ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ اناؤں کی خوفناک جنگ ہے ‘جس میں ہر کوئی زخمی ہے ۔ ہر کسی کا خون رِس رہا ہے اور وہ اس عالم میں بھی اس کوشش میں ہے کہ مخالف کو اس سے بھی زیادہ زخم لگا سکے۔
اس بات کو ایک طرف رکھ دیں کہ درست کون ہے اور غلط کون۔کرپٹ کون ہے اور شفاف دامن کون۔صرف اس نکتے پر غور کریں کہ کون سب سے زیادہ انانیت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے تو عمران خان صاحب یہ مقابلہ جیت لیں گے۔میں کئی بار پہلے بھی بہت خیر خواہی سے لکھ چکا ہوں کہ خود رائی ‘خود پسندی اور جذبۂ انتقام نے خان صاحب کی بے شمار غیر معمولی خصوصیات کو برباد کیا ہے۔خان صاحب اور ان کے حواری اس صفت پر جتنے بھی قربان جائیں کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں ‘جھکتے نہیں اور غلط لوگوں سے مفاہمت نہیں کرتے‘یہ بہت بڑا سوال ہے کہ اس صفت میں بہادری کتنے فیصد ہے اور خود پرستی کتنے فیصد۔کتنی بار لکھا جائے اور خان صاحب کو کیسے یہ بتایا جائے کہ خود رائی ‘ خود پرستی اور جذبہ ٔ انتقام کسی بڑے سیاسی قائد کے لیے موت کا درجہ رکھتے ہیں ۔مزاج میں لچک نہ ہونا کسی ملک کے بڑے مدبر رہنما کی قابلِ تعریف خوبی نہیں ‘ بہت بڑی خامی ہے ۔
لیکن بات عمران خان صاحب سے شروع ہوکر انہیں پر ختم نہیں ہو سکتی۔ جتنی بڑی سیاسی جماعتیں اور جتنے بڑے سیاسی رہنما ہیں‘ اقتدار میں ہیں ‘لیکن اس ابتری کی ایک ذمہ داری بھی خود اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے بڑامذاق کیا ہوگا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا کئی عشرے راج رہا لیکن مسائل کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے۔کیا اسے کوئی تسلیم کرسکتا ہے کہ وفاق میں تین تین بار اقتدار سنبھالنے اور وزارت عظمیٰ کے راج سنگھاسن پر بیٹھنے والی جماعتیں کسی ایک مسئلے کی بھی ذمہ دار نہیں ۔ سب خرابی کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے جو صرف پونے چار سال اقتدار میں رہی ہے۔ کیا یہ کھلی حقیقت نہیں کہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن ) ایک دوسرے پر ماضی میں وہ الزامات لگاتی رہی ہیں ۔ وہ مقدمات بناتی رہی ہیں جن میں کسی ایک کا اب تک تصفیہ نہیں ہوا کہ سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا ۔مقدمہ اور الزام درست تھے یا غلط ؟ پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا مال نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعویدار ایک دوسرے کو اب جس احترام سے مخاطب کرتے ہیں اور جس طرح شیر و شکر ہوکر بیٹھتے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘اپنا کوئی کارنامہ اس کے سوا بتا سکتی ہے کہ وہ ہر دور میں اقتدار میں کسی نہ کسی طریقے سے شریک ہوتی رہی ہے ؟مولانا فضل الرحمن کو سخت غصہ ہے کہ ان کے بہت سے انتخابی حلقے پی ٹی آئی نے چھین لیے ہیں ‘لیکن کیا وہ اپنے دور ِاقتدار کا کوئی ایک کارنامہ بھی بیان کرنے کے قابل ہیں ؟وہ جو پرویز مشرف کے سہولت کار بنے رہے اور اسمبلیاں دانستہ نہ توڑ کر اسے صدارت کا مزید موقع فراہم کرتے رہے ‘آج کسی منہ سے ایک سیاسی جماعت کو آئین شکن کہتے ہیں ؟کس منہ سے عدالت عظمیٰ کو اصولوں پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ؟سچ یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے ان تمام ادوار میں اور اپنی سیاسی تاریخ میں صرف اور صرف سیاست کی ‘ان کے سیاست میں رہنے کا مقصد صرف سیاست اور صرف اقتدار ہے ۔یہی حال ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کا ہے ۔
جماعت اسلامی ایک زمانے سے سیاسی جد وجہد میں مصروف ہے اور اس کے دامن پر اس طرح کے کرپشن اور مالی فوائد کے چھینٹے بھی نہیں ہیں جیسے دیگر جماعتوں کے لباسوں پر ہیں ‘اسی لیے ان کا احترام میرے دل میں باقی سب سے زیادہ ہے ۔ لیکن ان کے طریقۂ کار پر بھی بے شمار سوالیہ نشان موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت اسلامی کے زعما خود کو اس صورتحال میں واحد حل بتاتے ہیں لیکن کیا وہ واقعی واحد حل بننے کے اہل ہیں ؟یہ فیصلہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی کو اقتدار کبھی نہیں ملا۔فلاحِ عامہ کے بہت قابل تقلید ادارے قائم کرنے کی تعریف اپنی جگہ‘ کراچی کی مئیر شپ کے نمایاں اور قابل قدر کاموں کا اعتراف اپنی جگہ ‘ پورے ملک یا صوبے کی باگ ڈور سنبھالنے میں بہرحال بہت بڑافرق ہے ۔ ایم ایم اے کی شکل میں جب کے پی کے میں جماعت اسلامی کو شریکِ اقتدار کی شکل میں کام کرنے کا موقع ملا تھا‘اس میں سے کچھ برآمد ہوسکا تھا؟ آئندہ انتخابات میں بھی جماعت ایسی پوزیشن میں بہر حال نہیں ہوسکتی کہ وہ وفاق کیا ‘بلا شرکت غیرے کسی صوبے کا ہی اقتدار سنبھال سکتی ہو۔ اس لیے اس سے کوئی امید لگانا بھی خیال خام ہی لگتا ہے ۔
اورموجودہ صورتحال کی ذمہ دار ملک میں صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں ‘ادارے اور ان کے سربراہ بھی ہیں ۔ جتنے ادارے اس جنگ میں کودے ہوئے ہیں اور جتنے فیصلہ ساز اس ٹکراؤ میں شامل ہوچکے ہیں ‘ان میں ایک ایک کو دیکھ لیجیے ‘ان کا ریکارڈ اٹھا لیجیے ۔آپ کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔اس وقت پوری قوم ایک طرف مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ آٹے کی طرح پس رہی ہے ‘دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے‘ہر روز نئے ٹیکس اور نئی اضافہ شدہ قیمتیں بھگت رہی ہے۔دوسری طرف ان فیصلہ سازوں کی ‘جو اس کی تقدیر بدلنے کا اختیار رکھنے ہیں ‘ اناؤں کے ٹکراؤ کی وہ خوفناک جنگ دیکھ رہی ہے جس نے مولا جٹ او رنوری نت کے چھکے چھڑا رکھے ہیں۔ سینیٹ‘ قومی اسمبلی ‘ الیکشن کمیشن‘عدالت عالیہ‘عدالت عظمیٰ‘ کون ہے جو اس سے باہر ہے؟کون ہے جس سے کوئی امید لگائی جائے ؟توکیا ایسے میں بہت دکھ ‘بہت درد‘بہت مایوسی کے ساتھ یہ جملہ زبان پر نہیں آئے گا‘کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ہے ؟