"SUC" (space) message & send to 7575

اپنے ہی سینے میں پیوست تیر

چار سال کے ایئرفورس عدالتی ٹرائل کے بعد د دن پہلے 21اپریل 2023ء کو بالآخر انڈین ائیر فورس نے اس مؤقف کا اقرار کرلیا جس کا پاکستان نے پہلے دن سے اظہار کیا تھا ۔اب دو تین دن پہلے انڈین ایئر فورس کے سربراہ آر کے ایس بھادوریانے اعلان کیا کہ کورٹ آف انکوائری نے حقائق معلوم کیے اور یہ طے ہوگیا کہ انڈین ہیلی کاپٹر M.117 خود اپنے ہی میزائل کا نشانہ بنا تھا اور یہ بڑی غلطی تھی۔ جن اہل کاروں کی غفلت سے یہ میزائل فائر ہوا انہیں سزا دی گئی ہے۔ گروپ کیپٹن سمن رائے چوہدری کو انڈین ایئر فورس سے فارغ کردیا گیا ہے اور دیگر کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔سمن رائے چوہدری نے چیف آپریشن آفیسر کے طور پر ان اصولوں یعنی SOPsکی خلاف ورزی کرتے ہوئے میزائل فائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
27 فروری کا دن یاد کیجیے ۔ یہ ایک ہنگامہ خیز دن تھا۔ جس کا آغاز ہی گرم خبروں سے ہوا۔ شام ڈھلتے ڈھلتے کافی باتیں صاف ہوچکی تھیں اور ونگ کمانڈر ابھینندن پاکستان کے قبضے میں بھی آچکا تھا۔ اس کا مگ طیارہ میدانوں میں ملبے کی صورت ڈھیر تھا۔ ہندوستان نے بوکھلاہٹ میں اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے ایک پاکستانی ایف 16 گرانے کا دعویٰ کیا لیکن اسے دنیا نے رد کردیا۔آئی ایس پی آر نے اسی دن یہ بتادیا تھا کہ ہندوستان نے اسی دور ان اپنے ہی مقبوضہ علاقے میں اپنا ایک ائیر کرافٹ نشانہ بنایا ہے ۔آئی ایس پی آر کا یہ دعویٰ پہلے بھی ٹھیک بتایا جارہا تھا اور اب تو ثابت بھی ہوگیا ہے ۔
بہت سی یادداشتوں میں شاید فروری 2019 ء کا یہ واقعہ محفوظ نہ ہو یا جزئیات علم میں نہ ہوں ۔اس لیے آئیے ہم فروری 2019 ء کی طرف چلتے ہیں۔ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو انتخابات درپیش ہیں اور دوتہائی سیٹیں جیتنے کے لیے ایک بڑی حمایتی اور جذباتی لہر درکار ہے ۔ ان کا اور بے جی پی کے دیگر رہنماؤں کا لب و لہجہ پاکستان کے لیے جارحانہ ہوچکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔اسی دوران پلوامہ مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ ہوتا ہے اور فوراً ہی اس کا الزام پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے ۔حقیقت یہ تھی کہ یہ حملہ بھارت کا اپنا ہی کیا ہوا تھا‘ اس کا اعتراف مقبوضہ کشمیر کے گورنر نے حال ہی میں کیا ہے ۔اس کے بعد جارحانہ لہجے میں پھنکارتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں دی گئیں اور 26 فروری کو بالاکوٹ پر ہوائی حملہ کر دیا گیا۔دعویٰ کیا گیا کہ دہشت گردوں کا ایک بڑا تربیتی مرکز تباہ کردیا گیا ہے جبکہ ایک کوے اور چند درختوں کے سوا کسی بھی چیز کو کوئی نقصان پہنچا ہی نہیں تھا۔ نہ وہ کوئی تربیتی مرکز تھا۔ یہ قرآن کریم پڑھانے کے ایک مدرسے کی عمارت تھی جو مکمل طور پر محفوظ رہی۔بھارت کی جانب سے یہ اقدام صریح جارحیت تھی اور پاکستان پہلے ہی اعلان کرچکا تھا کہ ایسی کسی بھی صورت میں وہ پورا جواب دے گا۔ایک دن کے بعد پاکستان ایئر فورس نے اس کا جواب دیا اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے اہم اڈوں پر فائر کرکے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا۔ اسی دن ونگ کمانڈر ابھینندن کا مگ طیارہ پاکستان کے اندر گرا لیا گیا۔
یہ تو پس منظر ہوگیا جسے آپ کے ذہن میں تازہ کرنے کے لیے دوبارہ ذکر کیا گیا ہے ۔اب 27 فروری 2019 ء کے دن پر آجائیے ۔دن کے دس اور ساڑھے دس بجے کے درمیان انڈین ایئر فورس ہائی الرٹ پر تھی۔ پاکستان کے طیاروں نے ہندوستان کے اندر فائرنگ کی اور ان کے مقابلے کے لیے آٹھ ہندوستانی طیارے فضا میں بلند ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایئر ڈیفنس زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ساتھ ہائی الرٹ تھا اور تناؤ کی شدید کیفیت تھی۔ہندوستان کو خطرہ تھا کہ پاکستانی طیارے ان کی سرحد کے اندر آئیں گے جو فی الحال 100 کلو میٹر دور مغرب میں نوشہرہ سیکٹر میں تھے ۔عین اسی وقت سری نگر ایئر پورٹ کو اپنی ریڈار سکرینوں پر ایک نیچی پرواز کرتا ہوا طیارہ نظر آیا ۔یہ طیارہ دراصل سری نگر ائیر پورٹ سے اڑنے والاM.I.17 ہیلی کاپٹر تھاجس میں دو پائلٹ اور چار فضائی اہلکار سوار تھے۔اسے ابھی ہوا میں اڑے دس منٹ ہوئے تھے۔ایئر ڈیفنس کے میزائل داغنے والے شعبے میں گروپ کیپٹن سمن رائے چوہدری ٹرمینل ویپن ڈائریکٹرکی ذمے داری سنبھالے ہوئے تھے۔سمن رائے نے اس ہیلی کاپٹر کو اسی افراتفری اور تناؤ میں مار گرانے کا حکم دیا ۔ایئر ڈیفنس کا اسرائیلی میزائل Spyderمہلک میزائل ہے ‘آواز سے چار گنا رفتار سے سفر کرتا ہے اور اس کا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔یہ ایک طرح سے یقینی موت تھی ۔دس بج کر دس منٹ پریہ ہیلی کاپٹر جو محض چند کلو میٹر دور تھا ‘12 سیکنڈز کے اندر مکمل بے خبری میں میزائل کا نشانہ بن کر آگ کا گولہ بنا اور بڈگام کے مقام پرزمین پر آگرا۔ہیلی کاپٹر میں موجود چھ کے چھ افراد ہلاک ہو چکے تھے اور زمین پر موجود ایک دیہاتی مسلمان کفایت غنی بھی اس کی زد میں آکر جاں بحق ہوگیا ۔زمین پر دیگر تین مقامی افراد معجزانہ طور پر بچ نکلے ۔
دنیا کی تمام ہوائی افواج ‘ اس صورتحال کو جانچنے کے لیے کہ سکرین پر نظر آنے والا یہ طیارہ دشمن طیارہ ہے یا دوست طیارہ ‘ کچھ شناختی نظام وضع کرتی ہیں۔اس شناخت میں آنکھ سے دیکھ کر شناخت کرنا۔ریڈیو ٹرانسمیٹر‘کسی علاقے میں پہلے سے طے شدہ داخل ہونے اور باہر نکلنے کے پوائنٹس اور آئی ایف ایف نظام شامل ہے ۔سپر سانک طیاروں اور دور دراز دیکھنے والے ریڈارز میں آئی ایف ایف نظام بہت بنیادی ہے۔اس نظام کو آئی ایف ایف یعنی دوست دشمن کی شناخت(Identification of freind or foe)کہا جاتا ہے ۔ اس کے کئی اصول و ضوابط مقرر ہیں۔کسی بھی طیارے میں آئی ایف ایف سسٹم زمین سے ایک سگنل وصول کرتا ہے اور اپنے ٹرانسپونڈر سے ایک خاص جوابی سگنل بھیجتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دوست طیارہ ہے۔ شروع میں یہ معلوم نہیں تھا کہ مذکورہ بھارتی ہیلی کاپٹر کا آئی ایف ایف سسٹم آن تھا یا نہیں اور اگر آن تھا تو کیا درست کام کر رہا تھا؟ تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ سب کچھ درست تھا۔
ونگ کمانڈر سمن رائے چوہدری پر نو الزامات تھے جن میں سے پانچ درست ثابت ہوئے۔ان میں یہ الزام بھی شامل ہے کہ اس نے ایئر ہیڈ کوارٹر کی اس ہدایت کو نظر انداز کیا تھا کہ عرض البلد 3200سے شمال میں تمام اڑنے والے طیاروں کوآئی ایف ایف سسٹم سے شناخت کرنا ضروری ہو گا۔یہ بھی بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر کا آئی ایف ایف سسٹم کام کر رہا تھا لیکن اس کی پروا نہ کی گئی اور میزائل فائر کرنے کا حکم دے دیا گیا۔جنرل کورٹ مارشل نے اس وقت کے سینئر ایئر ٹریفک کنٹرول آفیسر ونگ کمانڈر نیتھانی کو دیگر چار الزامات سے تو بری کردیالیکن ایک الزام ان پر ثابت ہوا اور سزا دی گئی ‘ یعنی ایئر فورس میں وہ مزید ترقی نہیں کرسکتا۔
جنگ اعصاب کا کھیل ہے اور سیکنڈوں میں فیصلے کرنے ہوں تو کوئی بھی مہلک غلطی ممکن تو ہے لیکن جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ انڈین ائیر فورس کے مختلف شعبوں کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی کا کتنا شدید خلا موجود ہے۔خیر یہ معاملہ تو الگ لیکن آپریشن سوِفٹ ریٹارٹ کے دوران انڈین ایئر فورس کو جو کئی مسلسل جھوٹ بولنے پڑے اور حقائق مسخ کرکے دکھانے پڑے جو بعد ازاں سب غلط ثابت ہوئے‘ اس نے آئی اے ایف کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا ۔نریندر مودی نے اس ایڈونچر سے انتخابات میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن آئی اے ایف کی قیمت پر اور یہ قیمت بہت بڑی تھی ۔بہت بڑی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں