"SUC" (space) message & send to 7575

صاحبِ نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک

مسلسل تیزی سے دھڑکتے دلوں‘ ہونٹو ں پر مسلسل دعاؤں‘ دلوں میں مسلسل ڈیرے ڈالے خدشوں اور منڈلاتی بے یقینی کے موسم میں بالآخر یہ اچھی خبر ملی کہ سوڈان سے پہلے 427 پاکستانیوں کو بحفاظت نکال لیا گیا اور بندرگاہ پر پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ پاکستانی بذریعہ سمندر پہلے جدہ جائیں گے اور وہاں سے انہیں پی آئی اے اور پاک فضائیہ کے ذریعے پاکستان لایا جائے گا۔ وزیر خارجہ نے پاکستانیوں کے انخلا میں تعاون کے لیے سعودی‘ ترکی اور مصری حکومتوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ وزیراعظم نے کوششوں اور انخلا کے کامیاب پروگرام تشکیل دینے پر فضائیہ کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
سوڈان میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو دولت‘ طاقت‘ قوت اور فیصلہ سازی کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی شدید خواہش کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے۔ جب بے اصول طاقتور گروہ ملک میں اپنے اپنے فیصلے نافذ کریں اور کسی کی نہ سنیں تو بیرونی طاقتیں بھی اپنے اپنے مفاد میں اس میدان میں کود پڑتی ہیں۔ ایک طاقت ایک کی پشت پناہی کرتی ہے اور دوسری طاقت دوسرے گروہ کی۔ ان بیرونی طاقتوں کا فائدہ ہی فائدہ ہے‘ نقصان کسی ایک کا بھی نہیں۔ نقصان میں صرف عام شہری رہتے ہیں جو اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے پھرتے ہیں۔ اپنے سامان اٹھائے‘ اپنے گھروں کو روتے‘ کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
سوڈان میں ان لڑائیوں کی تاریخ تو پرانی ہے لیکن ان دنوں کے تازہ واقعات کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اَنا‘ ضد‘ برتری کی شدید خواہش اور دولت کے وسائل پر قبضے کی جدوجہد کس طرح باقی تمام انسانی اور اخلاقی قدروں پر غالب آجاتی ہے۔ دو جرنیل ملک کو اس بارود پر گھسیٹ لائے ہیں جس میں نہ کسی سوڈانی کی جان اور مال محفوظ ہے‘ نہ کسی غیرملکی کی۔ دو طاقتور جرنیلوں کی لڑائی ملک کو تہس نہس کر رہی ہے۔ ایک کا نام عبدالفتاح البرہان ہے جو کئی برسوں سے سوڈان کی سرکاری فوجوں کا سربراہ اور عملًا ملکی سربراہ ہے۔ البرہان کی تمام تر کوشش ایک ڈکٹیٹر کے طو رپر مستقل طور پر ملک کا سربراہ بن جانے کی ہے۔ دوسرے جرنیل کا نام محمد حمدان دقلو ہے‘ جو عام طور پر جنرل حمیدتی کے نام سے معروف ہے۔ حمیدتی ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کا سربراہ ہے جو سرکاری فوجوں سے لڑ رہی ہے۔ آر ایس ایف ایک طاقتور ملیشیا گروپ ہے جو سرکاری افواج کے دائرے سے باہر ہے۔ ملکی معیشت اور خاص طور پر دار فور میں سونے کی کانیں حمیدتی کے کنٹرول میں ہیں اور وہ اقتدار کی اس لڑائی میں اپنی مرضی کے فیصلے کر رہا ہے۔ اس کا حتمی مقصد بھی بظاہر پورے ملک کا اقتدار خود سنبھالنا ہے۔ ان دونوں جرنیلوں کی ذہنیت میں ایک ہی بات دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ایک ہی باقی رہے گا۔ یعنی اس کا کوئی امکان نہیں کہ دونوں سمجھوتا کر لیں‘ مل جل کر حکومت کریں اور ملک کو اس خانہ جنگی سے باہر لے آئیں۔
اس خانہ جنگی میں اب تک سینکڑوں بے گناہ بھی ہلاک ہو چکے ہیں حتیٰ کہ غیرملکی بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔ غیرملکی طاقتیں بھی اس خانہ جنگی میں اپنے اپنے مفاد کے مطابق شریک ہیں اور کسی ایک طاقت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ آر ایس ایف ہمسایہ مصر اور کچھ عرب ملکوں سمیت کئی طاقتوں پر یہ الزام لگا چکی ہے اور مبینہ طور پر کئی مصری فضائی اہلکار اور ایک ہوائی جہاز قبضے میں لینے کا دعویٰ بھی کر چکی ہے۔ جنرل البرہان نے کچھ عرصہ قبل روس کا دورہ کیا تھا اور مبینہ طور پر پوتن حکومت اس کی مددگار ہے۔ مغربی طاقتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آر ایس ایف کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
دار فور‘ جو سوڈان کا وسائل سے مالا مال بڑا جنوب مغربی علاقہ ہے‘ اس کشمکش کی ایک بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ قریب قریب دو لاکھ مربع کلومیٹر کا یہ رقبہ بہت مدت سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔ 2003ء کی خانہ جنگی اور نسل کُشی میں تین سے چار لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے اور سوڈانی صدر عمر حسن احمد البشیر پر جنگی جرائم اور نسل کُشی کے بہت سے الزامات لگے تھے۔ دراصل یہ وہ شخص ہے جس کی خواہشِ اقتدار نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ سوڈانی فوج کا یہ بریگیڈیئر جنرل‘ صادق المہدی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آیا تھا۔ اپنی مرضی کے انتخاب کروا کر‘ جن کی حیثیت ہمیشہ مشکوک رہی‘ سوڈان کا ساتواں صدر بنا اور مختلف عہدوں کے تحت 1989ء تا 2019ء تیس سال تک سربراہ ِحکومت رہا۔ 2005ء میں سوڈان اسی کے دور میں دو حصوں میں یعنی جنوبی سوڈان اور شمالی سوڈان میں تقسیم ہو گیا۔ 2009ء میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ‘ یعنی آئی سی سی نے اسے قتلِ عام‘ نسل کُشی اور جبری زیادتی کا مجرم قرار دیا تو یہ پہلا صدر تھا جسے عہدے پر ہوتے ہوئے ان جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ یہ شخص بالآخر ایک طاقتور غیر مسلح عوامی تحریک کے سبب فوجی بغاوت کی وجہ سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ فروری 2020ء میں سوڈانی حکومت نے اعلان کیا کہ ہم نے احمد البشیر کو مقدمات چلانے کے لیے آئی سی سی کے حوالے کر دیا ہے۔ ان جرائم کے علاوہ بھی احمد البشیر پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے بہت سے الزامات تھے۔
احمد البشیر اور جنرل برہان کی ہوسِ اقتدار اپنی جگہ‘ لیکن حمیدتی کا پس منظر دیکھیں تو اس طرف بھی سوڈان کے واحد سربراہ بننے کی شدید خواہش نظر آتی ہے۔ حمیدتی کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ دار فور میں ایک نچلے متوسط گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ تیسری جماعت میں سکول سے نکال دیا گیا۔ ایک زمانے تک اونٹوں کی خریدو فروخت کا کام کرتا رہا۔ دار فور جنگ کے زمانے میں جنجاوید نامی مسلح ملیشیا کا رہنما بن کر سامنے آیا۔ احمد البشیر نے اپنی اغراض کے لیے اس کی پشت پناہی کی اور رفتہ رفتہ سونے کی کانوں اور ذرائع مواصلات سے لے کر مویشیوں کے بڑے کاروبار تک بہت کچھ اس خاندان کے قبضے میں آگیا۔ پھر آر ایس ایف کا‘ جس کا بڑا حصہ جنجاوید ملیشیا پر مشتمل ہے‘ بڑا لیڈر بنا اور اسی آر ایس ایف نے احمد البشیر کو 2019ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے نکال باہر کیا۔ ایک نئی کونسل جس میں سول نمائندگی بھی تھی‘ تشکیل پائی جس کا سربراہ البرہان اور نائب سربراہ حمیدتی تھے۔
اور اب یہی سربراہ اور نائب سربراہ اس طرح آپس میں لڑ رہے ہیں کہ پورا ملک ان کی دو طرفہ لگائی ہوئی آگ اور ایک دوسرے پر چلائی ہوئی گولیوں اور بموں کی زد میں ہے۔ البرہان کے پاس فضائیہ بھی ہے اور وہ اس کا مسلسل استعمال کر رہا ہے لیکن دارالحکومت خرطوم کے کئی حصے‘ خرطوم انٹر نیشنل ایئر پورٹ‘ میرووی ایئر پورٹ‘ ال عبید ایئرپورٹ‘ سرکاری ٹی وی‘ دار فور کے کئی علاقے‘ کچھ فوجی چھاؤنیاں آر ایس ایف کے قبضے میں ہیں۔ ایئر پورٹس پر آمد و رفت بند ہے اور سعودیہ سمیت کئی ایئر لائنز کے طیاروں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ اب یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ غیر ملکیوں کا طیاروں کے ذریعے کیوں سوڈان سے انخلا نہیں ہو سکا۔
حمیدتی اور البرہان کو کوئی بتانے والا نہیں کہ پاکستانیوں نے بھی شدید خواہشِ اقتدار والے کیسے کیسے خود پرست بھگتے ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد‘ اسکندر مرزا‘ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمٰن‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیا الحق‘ پرویز مشرف آج اپنی قبروں میں پڑے ہیں لیکن وہ ماضی زیادہ دور نہیں جب ان کی مرضی کے بغیر ملک ایک قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ سوڈان کے سیاہ فام خود پرستوں سے لے کر پاکستان کے گندمی خود پسندوں تک‘ ایک ہی بات مشترک ہے۔ ان کی ذہنیت۔ سوڈان کے حالات پڑھو تو اقبال کے یہ شعر یاد آتے ہیں:
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخِ امم کا یہ پیامِ ازلی ہے
صاحبِ نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں