لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں یہ سب کیا ہورہا ہے ۔ میں کہتا ہوں کچھ بھی نہیں ۔ دیوتاؤں کی جنگ ہورہی ہے ۔ یہ زمین پر پہلے بھی بہت بار ہو چکی ہے ۔ کبھی کسی زمین پر ‘کبھی کسی ملک میں ۔کوئی دیوتا جیت جاتا ہے۔ کوئی ہار جاتا ہے ۔کئی بار کئی دیوتا مل کر کسی ایک کے خلاف ہوجاتے ہیں ۔اور پھر گھمسان کی جنگ ہوا کرتی ہے ۔جنگ بھی دیوتاؤں کی۔دیوتاؤں کی جنگوں میں انسان تو مرتے ہی ہیں ۔ شہر تو برباد ہوتے ہی ہیں ۔ گھر تو اجڑتے ہی ہیں ۔ یہ کون سی نئی بات ہے ۔ دیوتا بھی اس کے عادی ہیں اور انسان بھی جانتے ہیں کہ دیوتا نہیں مرتے‘مرنا انہی کو پڑے گا۔تباہ انہی کو ہونا پڑے گا۔ مرنے والا ہی اپنی موت کا ذمے دار ہوگا‘ کوئی دیوتا ہرگز نہیں ۔
جو لوگ کسی دیوتا کو‘کسی بھی دیوتا کوکسی بھی خرابی یا تباہی کا ذمے دار سمجھتے ہوں ‘ ان سے بڑا غیر ذمے دار کوئی ہو نہیں سکتا۔کہتے ہیں کہ ہمارے قومی اوتار کی گرفتاری سے رہائی تک 40 افراد مرچکے ہیں ۔ 400 گرفتار ہوچکے ہیں ۔ بہت سی عمارتوں کو آگ لگ چکی ہے ۔کتنی ہی گاڑیاں اورموٹر سائیکل راکھ بنے پڑے ہیں ۔بہرحال درست تعداد جتنی بھی ہولیکن یہ سب مرنے والے ‘زخمی ہونیوالے ‘نقصان کرا بیٹھنے والے خود اس حالت کے ذمے دار ہیں ۔ کیا انہیں نہیں پتہ دیوتاؤں کی جنگیں بھی ہوتی ہیں اور ان میں وہ بس خود زندہ رہتے ہیں‘ باقی سب باری باری مرتے رہتے ہیں۔ کیا کبھی کوئی دیوتا تباہی کا ذمے دار ٹھہرا؟ مجھے تو نہیں پتہ ۔ آپ کو پتہ ہو تو بتائیں ۔
دیوتا طاقتور ہوں گے تو آپس میں کہیں بھی‘ کسی بھی وقت لڑ سکتے ہیں ۔اور یاد رکھیں کسی اور چیز کا دیوتا ہو یانہ ہو ‘جنگ کا دیوتا ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔یونان کے دیوتاؤں کی وہ مشہور جنگ ٹائٹنز تو سب کو پتہ ہے جس میں دیوتاؤں کے بیچ اس بات پر جنگ ہوئی تھی کہ کائنات کا نظام کون سنبھالے گا۔ بالآخر اولمپین دیوتا جیت گئے۔ اور وہ جو یونانیوں اور ٹرائے کے بیچ خوفناک جنگ تھی ‘ ہیلن آف ٹرائے والی ۔ٹرائے کے شہزادے کو تین دیویوں کے بیچ خوبصورت ترین کا فیصلہ کرنے کے لیے بلایا گیا لیکن وہ اسی بیچ سپارٹا کے بادشاہ کی بیوی ہیلن پر نہ صرف فریفتہ ہوگیا بلکہ لے اڑا۔ دیوتا سخت ناراض ہوئے ۔اس جنگ میں دیوی دیوتا ‘ ہیرا‘ اتھینا‘اور پوسیڈن یونانیوں کا ساتھ دے رہے تھے جبکہ افروڈائٹ ‘آئی نیاس‘ اپالو اور ایرس ٹرائے کے لوگوں کا ۔ یہ بھی غیرفانی دیوتاؤں کی جنگ تھی ۔پھر جب ٹرائے تباہ ہوگیا ‘سارا شہر لوٹ مار اور آگ کی لپیٹ میں تھا‘ لوگ مر رہے تھے ‘بے گھر ہورہے تھے‘اپنے پیاروں کو دفنا رہے تھے تو کیا کوئی دیوتا ذمے دار تھا؟ہر گز نہیں۔ سکنڈے نیوین دیوتاؤں کی دو جماعتیں ایسر (Aesir)اور ونیر(Vanir)کے ناموں سے بن گئی تھیں ۔یہاں بھی وجہ تنازع اختیارات کی تقسیم تھی ۔ خوفناک جنگیں ہوئیں ان کے بیچ ‘بالآخر دیوتاؤں کے بیچ معاہدہ ہو ااور سب ایک ہوگئے ۔ تاریخ لیکن یہ نہیں بتاتی کہ اس درمیان کتنے انسان مارے گئے۔میں نے تاریخ کی کتابیں پڑھیں ۔ذمے دار سب انسان ہیں ‘کوئی دیوی دیوتا نہیں ۔ سب جنگوں کی تفصیل موجود ہے ۔فاتح مفتوح سب معلوم ہے لیکن جولوگ ان جنگوں میں مر گئے تھے‘ان کی بیویوں ‘ماؤں‘بہنوں‘ بچوں کا کیا بنا‘اس باب میں تاریخ خاموش ہے ۔
ویدیں بتاتی ہیں کہ تین بڑے دیوتا ؤں برہما‘وشنو اور شیو ‘ میں بھی جنگیں بہت ہوتی تھیں ۔ ایک بار شیو کی وشنو سے لڑائی ہوگئی۔ اس لڑائی میں بڑی تباہی ہوئی ۔دیوتا لڑتے ہیں تو بچے بوڑھے عورتیں سب مرتے ہیں ۔ گھر اور بستیاں دھڑ دھڑجلتی ہیں اور انسان تھر تھر کانپتے ہیں ۔ایک بار برہما نے شیو کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال کیے تو شیو نے غصے میں اس کا پانچواں سر کاٹ ڈالا؛چنانچہ اب برہما کے چار ہی منہ ہیں ۔ شیو کی تیسری آنکھ سے سب انسان حیوان‘شیطان ڈرتے ہیں ۔ تیسری آنکھ زیادہ تر بند رہتی ہے لیکن جیسے ہی کھلتی ہے کائنات میں تباہی مچ جاتی ہے ۔ اسی تیسری آنکھ سے شیو نے کام دیو کو جلا کر بھسم کر دیا تھا۔پھرایک بار شیو پاربتی کے فراق میں جنگلوں میں برہنہ گھوم رہا تھا۔اسے دیکھ کر پہاڑوں میں رشیوں اور منیوں کی عورتیں شیو پر فریفتہ ہوگئیں ۔ رشی اور منی سخت ناراض ہوئے اورشیو کو شراپ یعنی بد دعا دے دی‘دنیا کا نظام درہم برہم ہوگیا اور ہر طرف آگ بھڑک اٹھی ۔پھر دیواس اور اسون کے نام سے دیوتاؤں کے جو دو لشکر آپس میں ٹکرائے ان کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دیوتاؤں کی ایک تیسری جماعت کو اپنے اختیا رمیں شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔اور بات ٹھیک بھی ہے ۔ کوئی دیوتا اپنے اختیار میں کسی کو کیوں شریک کرے۔ اسے تو دوسرے کی طاقت بھی چاہیے ۔ دیوتا جو ہوا۔
تو اگر ہمارے چار دیوتا آپس میں لڑ رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے دیویوں دیوتاؤں نے اپنے اپنے لشکر کا انتخاب کرلیا ہے تو کون سی نئی بات ہے۔جنگ کا بڑا دیوتا‘راج سنگھاسن پر بڑا دیوتا‘انصاف کرنے والا دیوتا اور معزول و مقبول دیوتا۔ہر ایک کی اپنی شکتی ہے۔اور یہ کون سی نئی بات ہے کہ چاروں دیوتاؤں کے پاس جو اپنی اپنی طاقت ہے اس پر ان کا گزارا نہیں ہورہا۔ہر ایک کو دوسرے کی طاقت بھی چاہیے ۔ دوسرے کا اختیار بھی چاہیے ۔تو یہ کوئی انہونی نہیں ۔دیوتاؤں کی پرانی عادت ہے ۔اختیارات پر آکر ان کی بے اختیاری شروع ہوجاتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ سب کو پوجتے رہیں ‘کٹتے رہیں ‘ جلتے رہیں اور مرتے رہیں۔
کوئی گرفتاری پر مٹھائیاں بانٹ رہا ہے کوئی رہائی پر۔کسی کو خوشی ہے کہ آزادی کی جنگ میں ایک اور کامیابی ان کے حصے میں آئی ‘کسی کو غصہ ہے کہ منصف مجرم کے ساتھ جا کھڑا ہوا ۔ رقص کرتے دیوتاؤں اور پیچ و تاب کھانے والوں کے بس میں بس چیخ و پکار ہے جو دونوں طرف کے دیوتا سننے سے قاصر ہیں ۔ انصاف کرنے والے دیوتانے ایک اوتار کی عبوری ضمانت منظور کرلی اور تخت پر بیٹھے ہوئے ایک اور دیوتا نے کہا کہ یہ آپس میں مل چکے ہیں۔ گرفتاری سے ضمانت تک کے دنوں میں کافی جانیں جاچکیں ‘لوگ زخمی اور گرفتار ہوچکے ۔کس وجہ سے ؟جنگ کے دیوتا نے بتایا کہ نقصان بہت زیادہ ہوسکتا تھا۔ اگر کسی نے اب سخت الفاظ استعمال کیے تو اس کی تیسری آنکھ کھل جائے گی۔انصاف کے دیوتا ؤں نے راج دیوتا کی طرف اشارہ کیا ۔ راج دیوتا نے کہا ہم نہیں ‘ معزول دیوتاتباہی کا ذمے دار ہے ۔ معزول دیوتا کہہ رہا تھا مجھے تو اب پتہ چلا کہ لوگ مارے گئے ۔میری شکتی یعنی موبائل چھین لی گئی تھی۔میں ان ہنگاموں کا کیسے ذمے دار ہوں؟چاروں سچے ہیں۔چاروں ہمارے مائی باپ ہیں۔چاروں اوتاروں میں سے کوئی اس تباہی کا ذمے دار ہوسکتا ہے ؟ہرگز نہیں‘ ہرگز نہیں ۔ یہ سب مرنے والے ‘زخمی ہونے والے‘ نقصان کرا بیٹھنے والے خود اس حالت کے ذمے دار ہیں ۔
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں یہ سب کیا ہورہا ہے ۔ میں کہتا ہوں کچھ نہیں ہورہا۔ دیوتاؤں کی جنگ ہورہی ہے ۔لیکن جو بات نہ دیوتا بتاتے ہیں‘نہ تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں ‘یہ ہے کہ مرنے والے انسانوں کی بیویوں کو کیسے سنبھالا جائے ؟پچھاڑیں کھاتی مائیں کیسے قرار پکڑیں؟ اکلوتے بھائی کی بہنیں کس دکان سے صبر خرید کر لائیں؟کمسن بچے باپ کی اس تصویر کو کیسے بھول جائیں‘ جو اِن کی آنکھوں میں اس دن آخری بار منجمد ہوئی تھی ؟