بعض دھماکے اپنے بعد سکون اور سکوت کا پیغام لے آتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ شر میں سے خیر نکل آتا ہے۔نو مئی ایسا ہی ایک تہلکہ خیز دن تھا۔جس نے ہر چیز الٹا کر رکھ دی۔فوری طور پر ہر چیز تلپٹ نظر آنے لگی لیکن اب 17 دن کے بعد یہ لگ رہا ہے کہ اس دھماکے سے سکوت اور سکون نے جنم لیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ خیر ہی نکلے اور پائیدار بھی ثابت ہو۔نو مئی کا ہنگامہ خیز دن بڑی اور بری خبروں کے ساتھ طلوع ہوا اور مزید بری خبروں کے ساتھ غروب ہوگیا۔میرے خیال میں اس کے ساتھ ہی عمران خان کا مستقبل میں ممکنہ اقتدار بھی غروب ہوگیا۔
حضرت صالحؑ نے اپنی قوم کے لیے‘جب وہ پکڑ میں آنے کے بعد اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی‘کیسے دُکھ کے ساتھ کہا تھاـ : ونصحت لکم ولکن لا تحبون النٰصحین۔ میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے (206۔الاعراف)۔تحریک انصاف دراصل ایک ہی شخص کا نام تھا اور وہ شخص اپنے خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس وقت جب عمران خان پر کڑا وقت ہے‘اور ان کے حامی شدید دکھ کی لپیٹ میں ہیں‘ان سے ہمدردی کرنے کو جی چاہتا ہے‘نمک چھڑکنے کو نہیں۔
لیکن جو خان صاحب نے گزشتہ ایک عشرے میں ہم جیسے اپنے حامیوں کے ساتھ سلوک کیا ہے بلکہ ٹھیک معنوں میں زخموں پر نمک چھڑکا ہے‘اس کے بعد ایک تیسری سیاسی طاقت کے کم و بیش ختم ہوجانے پر دکھ کے باوجود ان سے کسی ہمدردی اور افسوس کو جی نہیں چاہتا۔ یہ تو وہ کچھ ہوا ہے جو نوشتۂ دیوار تھا‘بلکہ قرآن کریم کے الفاظ میں: وکان امرا مقضیا۔ یہ کام ہوجانا تو طے ہوچکا تھا(مریم)۔اس بے عقلی‘خود پسندی‘خود رائی‘ ضد‘انتقامی جذبے‘ اور انانیت کابالآخر انجام ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔خان صاحب جس راستے پر مسلسل چل رہے تھے‘ اور ہر خیرخواہ‘ دانا اور تجربہ کار کے مشورے بے رحمی کے ساتھ رد کر کے چلتے ہی جارہے تھے‘ان کے بعد یہ تصور کرنا کہ کیکر سے آم کے پھل پھوٹ پڑیں گے‘ حماقت کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔
نومئی کے واقعات‘بعد میں عمران خان کا اپنا متکبرانہ طرزِ عمل اور بیانات‘خان صاحب کے قریب ترین ساتھیوں کی گرفتاری‘ ایک ایک کرکے پی ٹی آئی سے ہی نہیں اکثر ساتھیوں کا سیاست سے بھی الگ ہوجانا یا کافی مدت کے لیے خاموش ہوجانا‘اس انجام کا آغاز ہے جو بالآخر پی ٹی آئی کا مقدر نظر آتا ہے۔اس کالم نگار نے‘جب سے کالم لکھنا شروع کیا‘ خان صاحب کی حمایت‘ستائش‘مخالفت‘ شدید تنقید‘ تبصروں‘ تجزیوں کی صورت میں بہت سے کالم لکھے ہیں۔ان کے حامیوں اور مخالفوں نے سخت برا بھلا بھی کہا‘ لیکن جب لکھنے والا اپنے دل کی بات‘خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے‘ لکھنے کا عزم کرکے آیا ہو‘ تو یہ سب تو اس مقصد کے سامنے معمولی باتیں ہیں۔جو کچھ نو مئی کے بگ بینگ کے بعد ہوا‘وہ نوشتۂ دیوار بھی تھا اور نوشتہ ٔ اخبار بھی۔ اجازت دیں کہ میں اسی اخبار کے اپنے کالموں میں سے کچھ باتیں یہاں نقل کردوں۔
''اگر مجھ سے پوچھیں تو 2014 ء کا دھرنا عمران خان کی سیاست میں پہلی شکست تھی۔اس سے پہلے اس کی سیاست میں ناکامیاں ہوتی رہیں لیکن شکست یہ پہلی تھی۔وہ بے شک تنہا یا چند سیٹوں کے ساتھ مدتوں اس میدان میں رہا لیکن اس کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ ملک کا سنجیدہ اور تبدیلی کا خواہش مندطبقہ اس کے ساتھ کھڑا تھا۔پڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد ان کے ساتھ تھی۔لیکن اس مارچ اور اس دھرنے نے وہ کام کیا جو عمران کے مخالف نہیں کرسکے تھے۔ایک بڑا سنجیدہ طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ عمران خان مخالفت میں ہر لائن عبور کرسکتا ہے خواہ وہ سول نافرمانی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ اس کی قیمت اس کی اپنی مقبولیت ہی کیوں نہ ہو‘‘(اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے۔اکتوبر 2019)۔
''وہ چار ستون جن پر عمران خان کی عمارت کھڑی تھی ایک ایک کرکے مسمار ہورہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی طاقتیں تھیں جن کی بنا پر مزید طاقتیں خان صاحب کے ساتھ شامل ہوگئی تھیں۔پہلا اور سب سے بڑا ستون عمران خان کی ذات ہے۔ اس ذات کے اندر ان کی اصول پسندی‘ دیانت‘ قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ‘ مخالفوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سبھی شامل ہیں۔ دوسرا ستون عوام میں ان کی غیرمعمولی مقبولیت اور پذیرائی تھی۔ یہ پذیرائی عوام سے لے کر خواص تک سبھی طبقات میں موجود تھی جن میں دانشور اور سوچنے سمجھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔اسی کی ایک جہت غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی عمران خان کے لیے بے پناہ حمایت ہے۔ تیسرا ستون مقتدر طاقتوں کی طرف سے ان کی حمایت تھی جو ملکی تاریخ اور عملی منظر نامے کے لحاظ سے بہت بڑی طاقت تھی۔ چوتھا ستون وہ سیاسی طاقتیں اوراپنے اپنے حلقوں کے طاقت ور قومی اور صوبائی سیاسی امیدوار تھے جو ہوا کا رخ دیکھ کر خان صاحب کے ساتھ مل گئے اور کچھ ابھی تک ان کے ساتھ ہیں۔ قاف لیگ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ ستون ایک ایک کرکے منہدم ہوتے جارہے ہیں یا ان میں مسلسل دراڑیں پڑ رہی ہیں‘‘ (چار ستون۔اکتوبر 2022)
'' عمران خان کے مزاج میں ہار نہ ماننا ہے۔ خاص طور پر جب کھیل میں ذاتی انا کے جذبات شامل ہوں۔لہٰذا انہوں نے یہی دوسرا راستہ اختیار کیا۔جو اصول پسند عمران سے الگ تھا۔لیکن اس سے انہیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ایک بار عمران خان کی شخصیت کا بت پگھلنا شروع ہوا تو باقی ستونوں میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو گئیں۔ اور اب عمران خان چاہے عوام میں کتنے ہی مقبول ہوں۔ کتنا ہی بڑا لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں‘ وہ اقتدار سے اتنا دور ہیں جتنا پہلے کبھی نہیں تھے‘‘(چار ستون2نومبر2022)
ایسی کوئی خوش فہمی تو کبھی نہ تھی‘ نہ ہے کہ ہماری تحریریں ان کانوں تک پہنچ جائیں گی اور ان سے کوئی مثبت تبدیلی آسکے گی لیکن انسان کے بس میں جو کچھ ہے وہ اسی کا مکلف ہے۔ہم دل کی بات کہہ کر مطمئن ہوگئے کہ اس نقار خانے میں اتنا ہی اونچا بول پانا ممکن تھا۔اس وقت جب سوراخوں والی کشتی میں عمران خان اکیلے ہیں اور آگ‘ہوا‘مٹی اور پانی سب ان کے مخالف ہیں‘اس وقت بھی مجھے یقین نہیں ہے کہ عمران خان کو اپنی غلطیوں اور بہت برے فیصلوں پر کچھ پچھتاوا ہوگا۔یہ بات کہہ دینا وہ کافی سمجھتے ہوں گے کہ میں آخری گیند تک لڑوں گا‘لیکن یہ ہرگز ہرگز کافی نہیں ہے۔بے عقل‘بد فہم اور کھیل کو انتقام سمجھ لینے والا کپتان باقی دس کھلاڑیوں کے بغیر آخری گیند تک لڑنا چاہتا ہے تو لڑتا رہے لیکن کوئی ذی ہوش اسے بہادری نہیں سمجھ سکتا۔مجھے عمران خان کے اس زوال پر جو بہت سے افسوس ہیں ان میں سے یہ بھی بڑا افسوس ہے کہ خان صاحب نے کھلاڑی ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ اچھے کھلاڑی ہونے کا پہلا سبق یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ مت دیکھو وہ جیتتا کیسے ہے‘ یہ دیکھو کہ وہ ہارتا کس طرح ہے۔اپنی جان لڑا دینے کے بعد یہ کام مشکل ہے کہ انسان خود کو شکست کھاتا دیکھے لیکن کھلاڑی کی سپورٹس مین سپرٹ اگر یہ نہیں سکھا سکتی تو اسے کھیل کے میدان میں اترنا ہی نہیں چاہیے۔ عمران خان جھوٹے تھے جب انہوں نے کہا کہ میں امپائر کو ساتھ ملا کر کبھی نہیں کھیلتا۔سیاست میں پہلے بھی دھاندلی اور پس پردہ طاقتوں کی مدد سے کرسی تک پہنچا جاتا رہا لیکن انہوں نے سیاسی کھیل میں دھاندلی اور انتقام کی وہ روایات ڈالیں جو ان سے پہلے کسی نے سوچی بھی نہیں تھیں۔ جولوگ یہ کہتے تھے کہ خان صاحب سیاستدان ہیں ہی نہیں‘کھلاڑی ہیں‘ درست نکلے۔ اور اب جو یہ کہتے ہیں کہ وہ بڑے ظرف کے کھلاڑی بھی نہیں ہیں‘ وہ ان سے بھی زیادہ سچے ہیں۔ (جاری)