بہت سے سیاست دانوں کو اچانک بہت سی باتوں کا خیال آنا شروع ہوگیا ہے۔ ایسی باتیں جنہیں وہ ایک مدت سے بھولے بیٹھے تھے بلکہ بیٹھے کہاں تھے‘ کھڑے تھے‘ چل پھر رہے تھے‘ بھاگ دوڑ کر رہے تھے مگر اہم باتیں بالکل بھول کر۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ باتیں ان کی زندگی میں تھیں ہی نہیں۔ اور اب اچانک انہیں ان اہم چیزوں کا خیال آیا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کے سوا اب ان کی زندگی میں کچھ ہے ہی نہیں۔ لیکن میں بہر حال بہت خوش ہوں کہ یہ حیرت انگیز واپسی ہوئی ہے‘ خواہ کسی وجہ سے ہوئی ہے۔ بے شک اللہ مقلب القلوب ہے۔ کسی بھی وقت کسی کا دل بھی پھیر سکتا ہے۔
قبلہ ''مفاد چودھری‘‘ کا دل تو اللہ نے ایسا پھیرا کہ لوگ ان کی کایا کلپ پر حیران ہی رہ گئے۔ تحریک انصاف کا ہر عہدہ‘ ہر کردار‘ ہر فائدہ چھوڑ دینا کوئی آسان کام ہے کیا؟ لیکن انہوں نے ملکی مفاد میں ہر چیز چھوڑ دی۔ ہر چیز کیا سیاست بھی چھوڑ دی۔ بس یہ خیال رکھا کہ سیاست سے بریک کا لفظ استعمال کریں تاکہ منہ زور قومی خدمت تنگ کرے تو دوبارہ بھاگ دوڑ شروع کر سکیں۔ بھاگ دوڑسے مراد وہ دوڑ ہرگز نہیں جو انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے لگائی تھی۔ وہ پارٹی رکھیں یا چھوڑیں‘ ہمیں کیا۔ بس افسوس ہے تو اتنا کہ ا نہوں نے طلاق کے بعد عدت گزارے بغیر نئی پارٹی سے نکاح کر لیا۔ خیر! عدت گزارے بغیر نکاح کی یہ کون سی پہلی مثال ہے۔ نیز ''مفاد چودھری صاحب‘‘ کتنی بریک لے سکتے تھے‘ ان کی تو ویسے بھی بریکیں فیل ہیں اور ان کا ضمیر ایکسی لریٹر جیسا کام کرتا ہے۔
جناب ''انتظار الحق‘‘ ایسے ہی باضمیر لوگوں میں سے ہیں۔ وہ اگرچہ شو بز کے آدمی ہیں لیکن قوم کی خدمت کا جذبہ کس میں نہیں ہوتا۔ ضمیر کی آواز پر انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کی تھی لیکن اچانک ڈانٹ پر پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ ڈانٹنے والا بھی شاید ضمیر ہی ہوگا۔ کہنے والے ''انتظار الحق‘‘ کو لپ سنگر کہتے ہیں۔ یعنی سٹیج پر ان کے صرف ہونٹ ہلتے ہیں آواز پیچھے سے آرہی ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس میں لفظ اور آنسو دونوں کی ادائیگی کی۔ ان کا اثر کیوں نہ ہوتا‘ مجھ پر بھی ہوا کہ اس طرح بر وقت آنسو ادا کر لینا ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ مزید یہ کہ بروقت حق کا فیصلہ کر لینا کتنوں کو نصیب ہوتا ہے۔
محترمہ مزاری پارٹی کے بڑے اور پرجوش رہنماؤں میں تھیں۔ اچانک کوئی بپتا پڑی کہ پارٹی بھی چھوڑ دی اور سیاست بھی۔ جو بپتا پیچھے پڑی ہو گی وہ تو پتہ نہیں البتہ ایک بپتا ساتھ ضرور کھڑی تھی جس نے انہیں پولیس سے رہائی پر فتح کا نشان بنانے سے بھی روک دیا اور سیاست چھوڑنے کے اعلان کے ساتھ ہی صحافیوں سے مزید بات چیت سے بھی۔ محترمہ کی صحت یقینا خراب ہے اور گیارہ مئی کے بعد یقینا بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے۔
میں ایک خاتون رہنما کی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا۔ فرما رہی تھیں کہ میری والدہ کی صحت بہت مدت سے بہت خراب ہے۔ کل مجھے بخارا سے آئے ہوئے ''ملائکہ‘‘ نے اس نافرمانی پر شدید تنبیہ کی ہے؛ چنانچہ اب میں سیاست سے کنارہ کش ہوکر‘ اپنی جماعت چھوڑ کر ان کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ ملک کی بے لوث خدمت کے بعد اب میں ہر عہدہ‘ ہر ٹکٹ‘ ہر رکنیت چھوڑ رہی ہوں تاکہ میں اپنی ماں کی بے لوث خدمت کر سکوں۔ یقین کیجیے میرے دل پر اس قربانی کا بہت اثر ہوا۔ میں یہ سوچ کر آبدیدہ سا ہوگیا کہ اس دور میں بھی ماں کی محبت میں یہ سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ محبت ڈنڈے کے زور پر کروائی گئی ہے‘ ورنہ وہ کہاں مانتی تھیں۔
''شیخ ادراک الحق‘‘ کی والدہ اس دنیا میں نہیں ہیں چنانچہ والدہ کی صحت کی فکر کی بھی نہیں کی جا سکتی لیکن وہ خود تو ہیں۔ ان کی اپنی صحت تو ہے۔ اس کی دیکھ بھال بھی تو نہایت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک مدت سے اپنی بگڑتی صحت کا خیال نہیں رکھ رہا تھا اور اسی لیے میری صحت روز مجھ پر بگڑتی تھی۔ مجھے اچانک خیال آیا ہے کہ یہ بگاڑ ٹھیک نہیں ہے۔ نیز میرے ڈاکٹر نے مجھے سیاست سے کڑا پرہیز بتا دیا ہے۔ جان ہے تو جہان ہے اس لیے میں پارٹی ٹکٹ واپس کر رہا ہوں‘ صوبائی سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں اور پارٹی رکنیت پر بھی لات مار رہا ہوں۔ وہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے میز کے پیچھے بیٹھے تھے اس لیے دکھائی نہیں دیا لیکن ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس جملے کے بعد انہوں نے لات بھی ماری تھی جو بظاہر پارٹی رکنیت کو بہت زور سے لگی ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس خطاب کے بعد لمبی جوگنگ پر نکل گئے ہوں گے۔ صحت سے بڑھ کر بھلا اس دنیا میں کیا ہو سکتا ہے۔ بہر حال مجھے یہ پریس کانفرنس سن کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے کتنی سچی بات کہی۔ بے شک جان ہے تو جہان ہے۔
لیکن صرف انہی کو پتا نہیں چلا بہت سے اور لوگوں کو بھی اچھی طرح پتا چل گیا کہ دنیا میں اہم ترین چیزیں کون سی ہوتی ہیں۔ ''سیٹھ ارتکاز الدولہ‘‘ کراچی کے بڑے کاروباری ہیں لیکن ایک مدت سے اپنی دولت پر ارتکاز نہیں کر پاتے تھے‘ سیاست میں وقت ضائع کرتے پھرتے تھے۔ اب اچانک ان پر ہویدا ہوا کہ وہ اپنے نام کی لاج نہیں رکھ رہے اور اس سے ان کا بڑا کاروباری نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں گلو گیر آواز میں بتایا کہ وہ کتنے غلط تھے اور کیسے انہوں نے راتوں رات تائب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے وہ نہ صرف تحریک انصاف چھوڑ رہے ہیں بلکہ مزید سارے غلط کام بھی چھوڑ رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے ایک بڑے رہنما ''مخدوم مشکور ممنون‘‘ اور ''سردار تائب خان کھوسہ‘‘ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں توبہ کی فوری ضرورت کی طرف توجہ دلانے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ہمیشہ ان کے مشکور و ممنون رہیں گے۔ توبہ کے در روزِ قیامت تک کھلے ہونے کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ تائب ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ ہمیں بھی پاک صاف سمجھا جائے۔
محترمہ ''عظمیٰ باکردار‘‘ صاحبِ دل رہنماؤں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی فیملی کو ان کی کتنی ضرورت ہے اور وہ کب سے ان کا حق مار کر سیاست کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھیں۔ ان کے گھر والے ان سے ملاقات کو ترستے تھے جبکہ وہ خود پارٹی قیادت سے ملاقاتوں کو ترس رہی ہوتی تھیں۔ گیارہ مئی کے لگ بھگ انہوں نے دوپہر کو بظاہر بیداری میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھا جس کے بعد وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور بھاگ رہی ہیں۔ آئندہ انہیں کوئی بھی ہرگز تنگ نہ کرے۔ اسی طرح ''ناراض چوہان‘‘ بھی پی ٹی آئی چھوڑ گئے لیکن چھوڑتے وقت انہوں نے ناراضی کا شدید اظہار بھی کیا۔ ورنہ لوگ صرف توبہ کرتے‘ کانوں کو ہاتھ لگاتے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ''ناراض چوہان‘‘ اگلا سیاسی مستقبل تابناک رکھتے ہیں۔
خیر ہمیں کیا۔ سیاست سے ہمارا کیا واسطہ اور سیاسی لوگوں سے کیا تعلق۔ ہدایت کسی کو بھی‘ کسی بھی وقت نصیب ہو سکتی ہے۔ اور اس وقت تو بہت جلد نصیب ہو جاتی ہے جب لوگ پیچھے ہی پڑ جائیں کہ فوراً ہدایت کی راہ پر چل ورنہ... ہم توبس یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو مقلب القلوب ہے‘ مجھ سمیت باقی لوگوں کو بھی اپنی صحت‘ اپنے والدین کی صحت‘ اپنے گھرانے کو وقت دینے اور اپنے کاروبار پر توجہ دینے کا ایسا ہی احساس دلا دے۔ ہم تو بس یہ دعا کرتے ہیں اور سلیم کوثر کا یہ شعر پڑھتے ہیں ؎
جو پلٹ کے آئیں تو پوچھنا نہیں‘ دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے