"SUC" (space) message & send to 7575

زندگی اور موت کے بیچ … (1)

ویرانی کیا ہوتی ہے‘ ویرانے کی دہشت کیا ہوتی ہے‘ بے بسی کیسی خوفناک چیز ہے اور اعصاب جھنجھنا چکے ہوں تو کس طرح ہاتھ پاؤں لرزنے سے نہیں رکتے‘ یہ ہمیں اس سفر میں ٹھیک اندازہ ہوا۔ ہم پانچ لوگ ایک ویرانے میں کھڑے تھے۔ موت ہمیں ابھی ابھی چھو کر گزری تھی اور ہم بمشکل سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئے تھے۔ سفر مدینہ منورہ سے طائف کا تھا‘ اس پرانی شاہراہ پر جو مدینہ منورہ سے بدر ہوتی ہوئی بالاخر مکہ معظمہ پہنچتی ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جو نبی اکرمﷺ نے ہجرت کے وقت اختیار کیا تھااور اسی لیے یہ طریق الہجرہ کہلاتا ہے ۔یہ سفر زندگی بھر فراموش ہونے والا نہیں۔
2005ء کے گرم مہینوں کی بات ہے۔ نامور قلم کار محترمہ فرحت پروین نے ہمیں الخبر‘ سعودی عرب کے ایک مشاعرے میں مدعو کیا جہاں وہ ان دنوں مقیم تھیں۔ پاکستان سے کئی شعرا شریک تھے۔ بھرپور مشاعروں اور نشستوں کے بعد ہم عمرے کیلئے روانہ ہوئے۔ جدہ میں بھی ایک دو مشاعرے سفر کا حصہ تھے۔ انور مسعود‘ امجد اسلام امجدؔ‘ مرحومہ صدیقہ آپا (بیگم انور مسعود) اور فردوس بھابھی (بیگم امجد اسلام امجد) بھی اسی قافلے میں شامل تھیں۔ ہم پانچوں نے اکٹھے عمرہ کیا۔ اور اس کے بعد میں مدینہ منورہ کیلئے اکیلا روانہ ہوگیا۔
میرے سینئر‘ بے تکلف پھوپھی زاد بھائی امین اشرف نور اور ان کی ہمشیرہ عطیہ قابلِ رشک ہیں کہ کم و بیش چالیس سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔ امین بھائی مدینہ ہائی کورٹ میں اہم انتظامی عہدے پر فائز رہے۔ مدینہ منورہ میں ان بہن بھائیوں کے گھروں میں کئی بار قیام‘ ان گھرانوں کی مہمان نوازی اور ان کے ذریعے مدینہ منورہ کے نادر اور نایاب مقامات دیکھنے کے جو مواقع ملتے رہے‘ اس پر ان کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ عطیہ کے گھر سے فجر کی نماز کیلئے ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور مسجد نبوی کی پیدل مسافت‘ کھجوروں کے پُرسکون باغات کا راستہ‘ پھوٹتی سحر کا نور اور دل میں اترتی ہوئی اذان کبھی بھولے نہیں جا سکتے۔
مدینہ ہی میں مجھے جناب ڈاکٹر حسین احمد پراچہ (دنیا اخبار کے محترم کالم نگار) کا فون وصول ہوا‘ وہ ان دنوں طائف میں مقیم تھے اور وہاں انور مسعود کی صدارت میں ایک مشاعرہ منعقد کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی مدعو کیااور میں نے دعوت قبول کر لی۔ امین بھائی سے ذکر ہوا تو میری خواہش کے مطابق انہوں نے ایک ساتھ گاڑی میں طائف کے سفر کی ہامی بھرلی۔ مزید خوشی کی بات تھی کہ بالآخر اس راستے سے جانا طے ہوا جو بدر سے ہوکر گزرتا تھا۔ اس طرح بدر اور بئر روحا دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جو میری دیرینہ تمنا تھی۔ اس دن صبح نو دس بجے کے قریب میں‘ امین بھائی‘ عطیہ بہن‘ عطیہ کے صاحب زادوں احمد اور محمد کے ساتھ روانہ ہوا۔ کشادہ‘ طاقت ور‘ سٹیشن ویگن گاڑی احمد چلا رہے تھے اور میں ان کے ساتھ اگلی نشست پر تھا۔ مدینہ سے کم و بیش 80کلو میٹر کے فاصلے پر بئر روحا ہے۔ یہ قدیم شاہراہ پر موجود وہ کنواں ہے جس کا سیرت اور احادیث میں بہت جگہ ذکر ہے۔ نبی اکرمﷺ اس کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالا کرتے اور اس کنویں کا میٹھا پانی نوش فرماتے تھے۔ شام سے مکہ جانے والے راستے پر ہونے کی وجہ سے یہ کنواں اہم تھا۔ ایک روایت کے مطابق 70انبیائے کرام علیہم السلام نے اس کنویں کا پانی پیا ہے۔ سو اس کی فضیلت میں کیا شک ہے۔ ہم دوپہر بارہ بجے کے قریب یہاں پہنچے۔ بڑی سڑک سے ایک چھوٹی سڑک پر آئے جہاں سے کنواں اور اس کے ساتھ چھوٹی سی عمارت نظر تو آ رہی تھی لیکن درمیان میں راستہ نہیں‘ ریت کا ایک میدان سا تھا۔ اسی سے گزرنا لازمی تھا۔ کنویں کے پاس اس وقت ایک نگران کے سوا کوئی اور نہ تھا اور گرمی شدید تھی۔ وادیٔ روحا ایک پیالہ ہے جس میں پہاڑوں کے بیچ پتھریلی‘ ریتیلی وادی کے وسط میں کنواں واقع ہے۔ ہم نے جی بھر کے بئر روحاکا پانی پیا جس کی سیرابی روح تک اترتی تھی۔ ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی۔ نوافل ادا کیے اور بدر جانے کیلئے گاڑی میں بیٹھ گئے لیکن اب ریت کے میدان سے گزرنا قیامت تھا۔ بھاری گاڑی کے ٹائر نرم ریت میں پھنس گئے۔ جیسے جیسے نکالنے کی کوشش کی جاتی‘ ٹائر گڑھوں میں مزید اترتے جاتے۔ ہم نے دھکا لگا کر نکالنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اب کیاہو؟ اس ویران صحرا میں کسے مدد کیلئے بلایا جائے؟ دور چھوٹی سڑک نظر آتی تھی لیکن اس پر گزرنے والا کوئی نہ تھا۔ امین بھائی سڑک تک پیدل گئے۔ خوش قسمتی سے ایک مقامی بدو اپنی پک اَپ میں گزرتا نظرآگیا۔ اس کی مہربانی کہ وہ ساتھ بھی آگیا۔ پہلے گاڑی اور چاروں دھنسے ہوئے ٹائروں کا معائنہ کیا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا‘ ہم سے دھکا لگانے کو کہا لیکن اصل مہارت ہم نے یہ دیکھی کہ وہ گاڑی کو کبھی آگے اور کبھی پیچھے کرکے ایک جھولا سا بناتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک ہی جھٹکے میں ایکسلریٹر دبا کر گاڑی باہر نکال دی۔ وہ فرشتہ صفت بدو ہمیشہ یاد رہے گا۔
بدر کی وادی مدینہ مکہ کے بیچ قریب نصف مسافت پر مدینہ سے 160 کلومیٹر پر واقع ہے۔ بدر پہنچے تو ظہر کی نماز ہو چکی تھی۔ جس جگہ نبی اکرمﷺ کیلئے سائبان (عریش) بنایا گیا تھا‘ وہاں اب مسجد العریش ہے۔ 17رمضان 6ھ کے دن اس وادی نے دنیا کو عزم اور شجاعت کے نئے معنی سکھائے تھے۔ یہ بیضوی شکل کا میدان ہے۔ اطراف میں بلند پہاڑ ہیں۔ میدان سنگلاخ بھی ہے اور نرم ریت کا بھی۔ وہ سفید ریت کے اونچے ٹیلے دور سے نظر آتے ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم کامنظر نامہ یوں ہے۔ ''جب تم عدوۃ الدنیا (ٹیلے کا نام ) پر تھے اور وہ عدوۃ القصویٰ (ٹیلے کانام ) پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے (سمندر کی طرف) تھا‘‘۔
ایک پُر نور‘ پُر سکون سفید احاطے کے اندر شہدائے بدر کی قبریں ہیں۔ وہاں حاضری دی اور چشمِ تصور نے سامنے ٹیلے سے‘ غرور‘ تکبر اور اسلحے سے لدے ہوئے مشرکین کی قطاریں اترتی دیکھیں۔ ان میں وہ بھی تھے جنہیں قتل کے بعد بدر کے کنویں میں ڈالا گیا اور وہ بھی جو فرار ہو گئے تھے۔ اس دن باپ بیٹے کے خلاف لڑا اور بھتیجے چچا کے خلاف۔ دونوں طرف بڑی تعداد میں قریبی رشتے دار تھے۔ اس دن نے فیصلہ کردیا کہ قومیت کی بنیاد کیا ہے۔ اے بدر! تو نے ہمیشہ کیلئے بہت سے فیصلے کردیے۔
بدر سے نکلے تو یہ احساس تھا کہ شام تک طائف پہنچنے کیلئے ہمار ے پاس وقت کم رہ گیا ہے۔ آگے کم و بیش خالی سڑک پر سب سے بڑا خطرہ اونٹوں کا تھا جو صحرا میں کئی جگہ سڑک پار کرتے نظر آتے تھے۔ بہت سال پہلے کا وہ حادثہ بھی ذہن میں تھا جس میں عطیہ کے سعودی نژاد شوہر‘ عطاء الرحمن کی گاڑی اچانک ایسے ہی ایک اونٹ سے جا ٹکرائی تھی۔ عطا بھائی موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔ عطیہ اور ان کے بچوں کو اللہ نے نئی زندگی عطا کی تھی۔ ایک ایسا سانحہ جس نے اس گھرانے کی بعد کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی۔
سہ پہر کے قریب ہم ینبوع شہرکے محاذات میں کہیں تھے۔ دونوں طرف کھلا صحرا تھا اور آبادی دور دور نظر نہیں آتی تھی۔ میں نے دور اپنے آگے پک اَپ جیسی سفید گاڑی دیکھی جسے ونیت (one eight) کہتے تھے اور جو مقامی بدو کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ بظاہر اسے مڑنا تھا اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کدھر مڑے۔ کبھی وہ سڑک کے درمیان آجاتا۔ کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف۔ ہماری گاڑی جب نصف فرلانگ دور رہ گئی تو اس نے اچانک اسی لین میں آنے کی کوشش کی جس پر ہم تھے۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی اسنے اپنی گاڑی سیدھی کی اور دوبارہ پرانے لین میں جانا چاہا۔ لیکن‘ آناً فاناً ہماری اچھی خاصی تیز گاڑی‘ اس کے سر پر پہنچ چکی تھی۔ خوفناک حادثہ بالکل سامنے تھا۔ ہم ایک پلیا جیسی جگہ سے گزر رہے تھے۔ پلیا کے بعد وہ گاڑی ہمارے سامنے تھی اور بائیں طرف نشیب میں ایک کچا ناہموار راستہ تھا جسے راستہ کہنا بھی مبالغہ ہی ہوگا۔ ہماری چیخیں بلند ہوگئیں۔ ''احمد! احمد!‘‘۔ احمد کے پاس کوئی راستہ تھا ہی نہیں‘ یا پھر وہی بائیں طرف کا راستہ تھا جس پر اتنی تیزی میں گاڑی اتارنا ممکن نہیں لگتا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں