وہ مزے کے دن تھے۔اوراس مزے کی وجوہات تھیں ‘پہلا مجموعہ'' قوس‘‘ تازہ تازہ شائع ہوا تھا۔پہلا مجموعہ تھا۔داد ہر طرف سے مل رہی تھی ۔مضمون اور خطوط وصول ہورہے تھے۔زبانی پذیرائی الگ ۔یہ خمار پورے جسم میں رقصاں تھا۔ایسے میں ایک نسخہ ہاتھ میں لیا ۔ کچھ دیر سوچا‘کیا لکھوں ‘پھر لکھا
اے خو اجۂ مشفق من !‘‘آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کند
دستخط کیے ۔اگست 97ء کی کوئی تاریخ ڈالی اور جناب مشفق خواجہ کا پتہ لکھ کر ناظم آباد کراچی کے لیے بھیج دیا ۔
مشفق خواجہ کے علمی مرتبے اور کٹیلے جملوں سے کون ادیب شاعر ناواقف تھا۔جناب احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ پر 1996ء میں انہیں پہلی بار دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا ۔محمد خالد اختر کا جملہ بھی پڑھا تھا کہ مشفق خواجہ کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا ۔اور خود ان کے فقرے۔ایسا پھول کہ جسے لگ جائے وہ چوٹ سہلاتا پھرتا تھا ۔ ان فقروں کی زد سے باہر رہ کرمزہ لینا بھی عجیب لطف تھا۔بہت سے فقرے میں اس طرح پڑھتا تھا کہ پہلے زیر لب داد دی‘ پھر بآواز بلندقہقہے کے ساتھ۔پھر تحریر وہیں چھوڑی۔ اُٹھ کرگھر کا چکر لگایا۔ لیچی چھیلی۔ خوشبو اور رس کامزا لیا یا امرود کی قاش پر نمک مرچ لگایا اور مسالے دار فقرے کا لطف لیا ۔ یہ سب جملے کی داد میں شامل تھا اور اسے لذیذ تر کرنے کی کوشش۔ یہ خوشبو‘رس ‘مسالہ پتہ نہیں چل سکتا جب تک مشفق خواجہ کے جملوں کا حظ اٹھا یا نہ ہو۔ اور ہاں!حظ اٹھانے کے لیے سیاق و سباق کا پہلے سے علم نہ ہو۔ذرا سنیے
''80 گرام کے کاغذ پر 20گرام کی شاعری شائع کی ہے ان صاحب نے‘‘۔ ''ان کی آدھی زندگی مشاعرے پڑھتے اور آدھی کچھ نہ پڑھتے گزری‘‘۔ ''اقبال اکیڈمی کی وجہ سے ایک ہی شہر(لاہور) میں علامہ کے دو مزار بن گئے‘‘۔ ''صاحب نے مشاعرے میں سب سے پہلے کلام سنایا۔ حالانکہ دل چاہتا تھا کہ وہ اس سے بھی کچھ پہلے سناتے ‘‘۔
تو اس آدمی کو جو شاعروں کوالہ دین کے چراغ کی طرح رگڑتا تھا‘ اور اسی سے قہقہے لگاتا جملے کا جن نمودار ہوتا تھا‘کتاب بھیجنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ سوچا کہ انہوں نے کتاب پر کوئی قاتل فقرہ کہہ دیا تو سارے زمانے میں گردش کرتا پھرے گا لیکن پھر دل نے ہمت کی۔ پیکٹ پرپتہ لکھا اور رد ّ ِبلا کے وظائف پڑھے بغیر بھیج دیا ۔ چند دن بعد جوابی مکتوب جو مجھے ملاوہ خط سے بہت زیادہ تھا ۔ کم از کم میرے لیے۔ یہ تو ایک سند تھی ‘دستارِ فضیلت تھی۔ پورا خط خود ستائی کے زمرے میں نہ آئے اس لیے صرف چند فقرے نقل کر رہاہوں ۔
'' پہلے تومیں نے اس مجموعے کی ورق گردانی اُسی طرح کی جس طرح آج کل کے شعری مجموعوں کی ورق گردانی کرنی چاہیے لیکن یہ مجموعہ عام مجموعوں سے مختلف نکلا ۔ میر ا حاصلِ مطالعہ مسرت بھی ہے او ر حیرت بھی۔ مسرت اس بات کی کہ اس کا کوئی صفحہ ا یسا نہیں ہے جو دامن کشِ دل نہ ہو اور حیرت اس بات پر کہ ایسا شاعر کہاں سے آگیا جس نے غزل کے مستقبل سے میری مایوسی کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیا ۔ اب میں غزل کے مستقبل سے پر اُمید ہوں ۔ کلاسیکی روایت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی منفرد انداز اختیا ر کرنا ناممکنات میں سے ہے ۔آپ نے کیسی آسانی سے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ خیر اندیش۔مشفق خواجہ‘‘۔ 97۔8۔25
خط پہلی بار پھر بار بار پڑھا ۔اس طرح کہ ایک سطر پڑھی پھر اُٹھ کر گیا۔ کوئی پھل تراشا‘کوئی چٹنی تلاش کی اور خط کا ذائقہ لذیذ تر کیا ۔ خواجہ صاحب نے جی بھر کے تعریف کی تھی ۔اور یہ معلوم تھا کہ خواجہ صاحب رسمی تعریف سے کوسوں دور ہیں ۔یہ بات کہنی بھی ضروری ہے کہ مجھے مشفق خواجہ کے علاوہ کوئی ایسا باکمال لکھاری معلوم نہیں جس نے یہ کمال کیا ہو۔جو شاعر بھی ہو‘کالم نگار بھی ‘محقق بھی ۔بڑے ادبی مرکز میں ہو۔ بہت سی کتب کا مصنف ہو ۔حصولِ شہرت کے تمام ذرائع اسے کیوں نہ لبھاتے ہوں گے۔مشاعرے‘ تقریبات‘ صدارتیں‘ فلیپ‘ تقاریظ‘ ستائشی مضامین‘ خصوصی شامیں۔کون سی چیز ہے جن میں ہم سب ‘گردن تک دھنسے نہیں رہتے۔ یہی ادبی مدارج السلوک۔کرتا جا اور چڑھتا جا ۔ لیکن مجھے کوئی اور ایسا قلم کار یاد نہیں جو ایسے استغنا کے ساتھ سب سے الگ ہوگیا ہو ۔اور ان سب سے بے نیاز ہوکر چڑچڑے پن ‘شکوۂ ناقدری ‘ کا بھی شکار نہ ہوا ہو ۔ ہے کوئی اور نام مشفق خواجہ جیسا ؟سچ یہ کہ مشفق خواجہ ان چیزوں سے بلند ہوئے تو یہ فقرے لکھ سکے۔
'' غالب اور ناصر زیدی ایک ہی جیسے لفظ استعمال کرتے ہیں بس ذرا لفظوں کی ترتیب مختلف ہوتی ہے‘‘۔''وہ (کوثر نیازی) جب لکھتے ہیں تو الفاظ ہی نہیں معانی بھی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘۔''ہم نے آج تک کسی محقق کے چہرے پر مسکراہٹ اور ہاتھ میں معقول کتاب نہیں دیکھی ‘‘ ۔'' جو لوگ شہرت کو اپنے لیے مسئلہ بنا لیتے ہیں رفتہ رفتہ وہ خود بھی ایک مسئلہ بن جاتے ہیں‘‘۔''جن لوگوں کو راتوں رات شہرت مل جاتی ہے‘وہ پھر زندگی بھر اپنی رسوائی کا سامان فراہم کرتے رہتے ہیں‘‘۔ ''36 روپے میں اتنی مختصر کتاب مع مصنف بھی مہنگی ہے‘‘ ۔''کتاب کی طباعت میں جاں بحق ہو گیا ہوں‘ ذرا اُن کا بھی خیال کیجئے‘جو کتاب کے مطالعے کے دوران جاں بحق ہوں گے‘‘۔
1998ء کی بات ہے ۔ایک دن مزے سے دفتر میں بیٹھا تھا۔ اچانک دیکھا کہ مشفق خواجہ ہمارے دوست زاہد منیر عامر کیساتھ تشریف لا رہے ہیں ۔سچ بات یہ ہے کہ میں خوش بعد میں ہوا ‘پہلے بہت برُی طرح بلکہ شایدبہت اچھی طرح بوکھلا گیا۔ اتنا بڑا ادیب بے گمان اچانک میرے سامنے موجود تھا۔ پتہ چلاکہ خواجہ صاحب اورینٹل کالج میں تھے کہ انہوں نے کہا کہ بھئی ایک صاحب سے‘جن کا نام سعود عثمانی ہے‘ملنا ہے ۔ کچھ دیر بعدمیری پریشانی کم ہونی شروع ہوئی ۔ان کی مہربانی کہ انہوں نے بہت بے تکلفی سے باتیں کیں سو گھبراہٹ میں کافی افاقہ ہوا ۔خواجہ صاحب نے اُس دن بہت شفقت فرمائی کہ کئی گھنٹے ساتھ رہے اوردوپہر کا کھانا بھی میرے اصرار پر کھایا۔ میں ہندوستان سے نیا نیا آیا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ تاج محل دیکھا؟ میں نے کہا: خواجہ صاحب ۔خاص طور پر اسی لیے گیا تھا۔سچ یہ کہ دنیا کی کوئی تصویر‘کوئی فلم تاج محل کو بیان نہیں کرسکتی ۔بولے:میاں! جب تک میں نے تاج محل نہیں دیکھا تھا‘میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عورت کے جسم سے زیادہ خوبصورت منظر بھی کوئی ہوسکتا ہے ۔یہ بات انہوں نے بے تکلفی میں کہی لیکن یہ بذاتِ خو دبڑا مزے کا جملہ ہے ۔
پیسہ ان کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا ۔شہرت انہیں خوب ملی لیکن وہ اس کیلئے نہ ادبی گروہ بندیوں کا حصہ بنے‘ نہ زمین کا گز بنے ۔کہتے ہیں ''شیطان سے زیادہ مشہور کون ہوگا۔آپ کتنی بھی کوشش کرلیجیے شیطان سے زیادہ مشہو رنہیں ہوسکتے‘‘ ۔اسی طرح انہوں نے ایک خط میں لکھا ''انسان کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ اپنا وقت اپنی مرضی سے گزارے۔سو ان معنوں میں خوش قسمت ہوں۔ہفتے میں ایک دن معاشی ضرورتوں کیلئے کام کرتا ہوں اور باقی چھ دن ''بدمعاشی‘‘کی ضرورتیں پوری کرتا رہتاہوں‘‘۔21 فروری 2005ء کو جب خواجہ صاحب کی وفات کی خبر آئی تو میں نے ان لوگوں پر رشک کیا جنہوں نے ان سے زیادہ استفادہ کیا تھے۔میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ذرا فرصت ملے تو ان سے یہ پوچھنا ہے ۔ یہ بات کرنی ہے ۔لیکن محض سوچنے سے یہ سب کچھ ہوا کرتا تو‘ہر شخص یادوں کا خزانہ لیے پھرتا۔ ایسے خزانے ایسے نہیں ملا کرتے۔ خواجہ صاحب ! آپ پڑھتے یہ تحریر تو کیا کاٹ دار جملے لکھتے۔ بڑامسئلہ یہ کہ بات آپ کی تھی تو ایسے لکھنے والے پر بندہ کیا لکھے ۔کوشش تو کی میں نے لیکن ۔
عجیب قرض ہے کھوئے ہوؤں کا ذکر سعودؔ
چکایا جاتا رہے پر کبھی ادا ہی نہ ہو