ایک عجیب سا سکون ہے شہر بھر میں ۔ بلکہ ملک بھر میں ۔میں نے لاہور کی مصروف اور عام طور پر بھری ہوئی سڑک فیروز پور روڈ کی طرف گاڑی موڑی تو ٹریفک معمول کے مطابق تھا۔کوئی ٹریفک سارجنٹ سڑک بلاک کرکے گاڑیوں کو دوسری سڑک پر مڑنے کا حکم نہیں دے رہا تھا۔نہ لوگوں کے چہروں پر تناؤ تھا کہ آگے جلوس ہے ۔گزرنے کا راستہ نہیں ہے اب کیا کریں ؟مال روڈ پر میرا دفتر ہے جو عام طور پر ریلیوں ‘سیاسی احتجاجی جلوسوں کا گڑھ ہے ۔ وہاں بھی معمول کے مطابق سرگرمی تھی ۔ آپ لاہور کے بجائے اپنے شہر کا اور ان سڑکوں کے بجائے اپنے شہروں کی سڑکوں کا نام رکھ لیں تو یہ صورتحال آپ کی بھی ہوگی۔ بد نظمی ‘ ٹریفک کی خرابیاں‘ حادثات وغیرہ سب اسی طرح ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں سے سیاست نکل گئی ہے ۔ ایسے غائب ہوگئی ہے جیسے اس جانور کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں ‘جس کا نام لیا جائے تو لوگ بر امانتے ہیں ۔ ہم لوگ جو ان تمام عذابوں سے روز گزرتے گزرتے ان کے عادی ہوگئے ہیں ‘انہیں یہ سکون اور سکوت حیرت انگیز لگتا ہے۔ کم وبیش مئی کے بعد سے یہ سکوت سڑکوں پر راج کرتا ہے ۔نہ پی ٹی آئی کے للکارے مارتی ریلیاں ہیں ‘ نہ کنٹینر بدوش جلوس ‘ نہ دھرنے ‘نہ مارنے مرنے کی دھمکیاں۔ نہ پیپلز پارٹی کی جوشیلی تقریریں جن میں شریف خاندان کی لوٹی گئی دولت کا بار بار ذکر ہے ۔ نہ شہباز شریف اور نواز شریف کی زبان سے مسٹر ٹین پرسنٹ کا تذکرہ ‘نہ شہباز شریف کے یہ جملے کہ او فلاں ! میں تجھے سڑکوں پر گھسیٹوں گا اوردولت نکالوں گا۔نہ ٹی ایل پی کے غلغلے ہیں نہ مذہبی جماعتوں کی علمبردار ٹولیاں۔ سب کچھ اچانک غائب سا ہوگیا ہے۔اورتو اور ‘قیامت کی گرمی کا موسم ابھی گزرا ہے اور گزر رہا ہے۔لوڈ شیڈنگ کس چھوٹے بڑے شہر میں باقاعدگی سے نہیں ہورہی ‘لیکن شہباز شریف سڑکوں پر شامیانے تان کر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے پنکھے جھلتے دکھائی نہیں دیتے ۔آٹا اپنی قیامت خیز مہنگائی کے ساتھ تاریخ کی سب سے اونچی قیمتوں پر ہے لیکن تنوروں پر رعایتی آٹا فراہم کرنا شہباز شریف کو یاد ہی نہیں رہا۔(ن) لیگ کی بدترین مخالف کی جگہ تو اب پی ٹی آئی نے سنبھال لی ہے لیکن ایک زمانے میں بد ترین حریف پیپلز پارٹی کو بھی یاد نہیں کہ مہنگائی ‘ افراطِ زر اپنے عروج پر ہے ۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی اور مرکز میں اتحادی حکومت کے بیچ کوئی کشاکش ‘ کوئی آتشیں بیان بازی نہیں ‘کوئی ایک دوسرے کا لازمی مخالف نظر نہیں آتا ۔ سب چہرے وہی ہیں ۔سب جماعتیں وہی ہیں ‘مقتدرہ کی طاقت اور نظام پر بالا دستی بھی وہی ہے لیکن ایک دم سب کچھ بدل سا گیا ہے ۔طبیعتوں میں وہ ہیجانی کیفیت نہیں ‘ ذہنوں میں وہ تناؤ نہیں ‘ چہروں پر وہ پریشانی بلکہ خوف نہیں جو سال کے تین سو پینسٹھ دن نظر آیا کرتا تھا۔ایک اور بات کی طرف توجہ دلاؤں؟ الیکشن سے پہلے کے یہ چند ماہ ہم نے بہت بار دیکھے اور بھگتے ہیں ۔ہمیشہ ان میں ایک اضافی مصیبت لوگوں پر مسلط ہوجایا کرتی ہے ۔ ہر سیاسی جماعت جسے ایک قوم کہہ لینا چاہیے ‘ اپنی چیختی چنگھاڑتی آوازوں سے زندگی عذاب کرکے رکھ دیتی تھی ۔ دوسروں پر نئے بہتان ‘ نئی ویڈیوز ‘آڈیو اور تصویروں کا سلسلہ شروع ہوجایا کرتا تھا۔اس بار ایسا کچھ بھی نہیں ۔ کچھ بھی تو نہیں ۔
کیا بدل گیا ہے یک دم ؟ کبھی سوچا آپ نے ؟سب لوگ وہی ‘ پھر بھی سب کچھ وہی نہیں ۔ہر مسئلہ اسی طرح بلکہ پہلے سے بڑھ کر‘ لیکن لگتا ہے کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔تو پھر مسئلہ کون ہے یا کون ہیں ؟کبھی سوچا آپ نے ؟جتنا سوچیں گے ایک ہی بات نظر آئے گی ۔ جتنے لوگ یہ مسئلے بیان کیا کرتے تھے یا یوں کہہ لیجیے کہ مسئلے بیان کرکے نئے مسئلے پیدا کرتے تھے ‘یا وہ خود اقتدار میں کسی نہ کسی طرح موجود ہیں ‘ یا سلاخوں کے پیچھے بھیج کر زبان بندی کردی گئی ہے ۔مولانا حالی نے اپنی مسدس میں شاعروں کا ذکر کرتے ہوئے کئی طبقات کا پہلے تذکرہ کیا ہے کہ فلاں نہ ہو تو زندگی میں کیا افراتفری پید اہوجائے گی ۔فلاں نہ ہو تو کیسی مصیبت بن جائے گی ۔اس کے بعد کہتے ہیں کہ
پہ کر جائیں ہجرت جو شاعر ہمارے
کہیں‘ مل کے ''خس کم جہاں پاک ‘‘سارے
حالی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ
گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھردیں گے شاعر ہمارے
اگر حالی آج زمانۂ حال میں زندہ ہوتے۔یہ سارا ماجرا دیکھتے ‘ انہیں عذابوں سے گزرتے جن سے شاعر بھی گزر رہے ہیں‘ انہیں سیاستدانوں کے سابقہ بیانات بھی پڑھتے ‘ اور حالیہ بھی ۔ وہ کرتوت جو انہوں نے پہلے کیے تھے اور اب جو کچھ یہ اپنے اپ کو جھٹلانے کے لیے کر رہے ہیں ‘ سب ملاحظہ کرتے تو کیا کہتے ؟مولانا الطاف حسین حالی !آپ سیاستدانوں کو کس طبقے میں رکھتے ؟ کیا انہیں میں جوکوچ کر جائیں تو معاشرے میں بڑی مصیبت پیدا ہوجائے گی یا ان میں‘ جو ہجرت کر جائیں تو سب مل کے خس کم جہاں پاک کہیں گے ؟قوم میں اتحاد ‘ اتفاق ‘ یکجہتی پید اہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ‘ سیاستدانوں میں‘ جو اَب شیر و شکر بیٹھے ہیں ‘قابلِ رشک ذہنی ہم آہنگی اور عملی یگانگت پیدا ہوچکی ہے ۔عرب ممالک میں ‘ جہاں بادشاہت ہے‘ سب سیاستدانوں کی پناہ گاہیں اور آرام گاہیں ہیں ۔وہ ممالک مثلاً یوکے‘ جہاں جمہوریت پوری طرح موجود ہے ‘ لیکن اس ہیجانی کیفیت اور افراتفری سے دور جو ہمارے سروں پر پورا سال مسلط رہتی ہے‘وہاں بھی ہمارے رہنما رہنا بہت پسند کرتے ہیں‘ لیکن ان سب آلائشوں سے دور رہ کر جسے وہ ہمارے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ اور کمال یہ ہے کہ ہر ایک اپنے آپ کو اسی جمہوریت کا علمبردار کہتا اور سمجھتا ہے جو مثالی ہے لیکن کبھی ہمارے یہاں پائی نہیں گئی ‘اور سارے مسائل کا ذمے دار دوسروں کو قرار دے کر خود فارغ ہوجاتا ہے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ مجھ جیسے کروڑوں عام پاکستانی تو انہی کو ذمے دار او ربرابر کا حصے دار سمجھتے ہیں۔ایک ہی وجہ سے اس سکون کی ‘ اس سکوت کی جو خدا کرے‘ عارضی نہ ہو ۔وہ چہرے جو وجہ تھے افراتفری کی ‘ان کے اپنے مفادات ہیں ‘اپنی مصیبتیں ہیں اور اپنی زنجیریں ہیں ۔ وہ مجبور ہیں کہ یہ مدت سکون سے گزاریں ۔ مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہوگا اور مستقبل میں اقتدار کے وہ راستے پھر دکھائی دیں جو ماضی میں وہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے اختیار کیے تھے۔کیا وہ یہ راستے اختیا رکریں گے ؟اگر سب لوگ عمران خان کی مخالفت میں یک جان ‘ یک زبان ہوکر انتخاب سے پہلے یہی کاروبار مملکت چلا سکتے ہیں‘ ضروری فیصلے باہم بیٹھ کر کرسکتے ہیں تو الیکشن کے بعد کیوں نہیں ؟کیوں ایسا نہیں ہوسکتا کہ سب صوبے ‘ سب جماعتیں ‘ سب طاقتیں ‘ مقتدرہ سمیت ‘ انتخابات کے بعد بھی ایک ہی صفحے پر ہوں‘ سب کارِ حکومت چلا رہے ہوں ۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بظاہر کسی بھی سیاسی طاقت کو نئے ایوان میں بڑی اکثریت حاصل نہیں ہوگی ۔ سب کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑے گی ۔تو پھر ؟کیا اس وقت اپنے مفاد کے فیصلے پھر کریں گے یا ابھی سے ملکی مفاد کو سوچ کر ذہن بنا کر اکٹھے کوئی خاکہ بنالیا جائے ؟مولانا حالی ! آپ سے بار ِدگر وہی سوال ہے ۔کون سا طبقہ معاشرے سے ہجرت کرجائے تو سب لوگ مل کر''ــ خس کم جہاں پاک‘‘ کہیں گے ؟