آذر بائیجان میں سیاحوں کا سیزن اپریل سے وسط ستمبر تک ہوتا ہے۔اب سردیوں کی آمد آمد ہے اس لیے بتدریج سیاح کم ہورہے ہیں ۔ باکو میں تو سیاح کافی تھے لیکن باقی شہروں میں سکون تھا۔میرا تاثر یہ بھی ہے کہ سیاح آذر بائیجان کا مطلب صرف باکو شہر سمجھتے ہیں اور وہیں گھوم پھر کر واپس لوٹ جاتے ہیں ۔اس تاثر کو زیادہ ٹور آپریٹرز نے بڑھایا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ زیادہ تر سیاحتی پروگرام باکو اور ا س کے اطراف میں بیس پچیس کلومیٹر کے دائرے تک محدود ہوتے ہیں ۔یہ سیاحوں سے زیادہ ان ٹور آپریٹرز کے اپنے فائدے میں ہے ۔ کم محنت ‘ کم سفر اور آسان پلان۔لیکن پیسے پورے۔ اگرچہ اس بیس پچیس کلو میٹر کے دائرے میں بھی کافی کچھ دیکھنے کو ہے لیکن بہرحال اگر آذر بائیجان کا ارادہ بنا ہی لیا جائے تو پھر چند دن دیگر شہروں کے لیے بھی نکالنے چاہئیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اگر ٹھیک معلومات کے ساتھ تیاری کریں تو دیگر شہروں سے زیادہ لطف اندوز ہوں گے۔
لیکن ذر ایہاں رکیے ۔ پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آپ اس ملک میں کیا دیکھنے آرہے ہیں ۔ سمندر؟ خوبصورت اور منفرد عمارتیں ؟شاپنگ مالز؟سیاحو ں کی بھیڑ بھاڑ ؟ اگر یہی مقصد ہے تو پھر آپ کے لیے باکو ہی بہتررہے گا۔لیکن اگر آپ کے ذہن میں اس سے بڑھ کر کچھ ہے یعنی سرسبز پہاڑوں اور ہری بھری وادیوں سے گفتگو‘ ڈھلانو ں والی چراگاہوں سے ملاقات‘لمبے اونچے درختوں والے پہاڑی جنگل اور ان میں رنگا رنگ پرندے ‘گھومتی ندیاں ‘بہتے چشمے اور بل کھاتے دریا‘بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھو کر آتی ہوائیں اور لباس کو تر کرتے گیلے جھونکے۔اگر یہ سب بھی ذہن کے کسی گوشے میں موجود ہے تو آپ کو باکو سے نہیں آذر بائیجان سے ملنا ہوگا۔آذر بائیجان کے اصل چہرے اور درست خد و خال کے لیے بڑے شہروں سے باہر نکلنا پڑے گا۔اس کے لیے سفر کرنا ہوگا اور وقت بھی نکالنا پڑے گا۔اگر یہ نہیں کرسکتے تو نظامی سٹریٹ میں شامیں گزاریں ‘فلیم ٹاورز کی سیر کریں ‘ اچیری شہر میں سہ پہر بسر کریں‘ینار داگ میں قدرتی آگ جلتی دیکھیں ‘آتش گاہ کی سیر کریں ‘دنبے کے کباب کھائیں‘ آذر بائیجانی خوشبودار چائے پئیں اورتمام خوشگوار یاد یں ساتھ لیے چار دن بعد ائیر پورٹ واپس ہوجائیں۔یہ بھی کوئی برا سودا ہر گز نہیں ہے ۔
لیکن اگر آپ کے سر میں سعود عثمانی کی طرح کا کوئی سودا ہے اور آپ بھی سوچتے ہیں کہ جب ٹکٹ خرید لیا‘ ویزا لے لیا ‘ وقت نکال لیا تو پھر چار دن ہی کیوں ؟ یہ چار دن تو دو آرزو میں کٹ جاتے ہیں اور دو انتظار میں ۔بار بار زندگی کس کو آنے کی مہلت دیتی ہے ۔ایک بار آئے ہیں تو کیوں نہ ان سب سے بھی مل لیں جو باکو میں نہیں مل سکتے ۔ اگر آپ یہ فیصلہ کرلیں تو سب سے پہلے ٹور آپریٹرز کو الوداع کہنا پڑے گا ۔کیونکہ وہ آپ کے منصوبے پر یا تو اتریں گے نہیں ‘ یا بہت مہنگے پڑیں گے۔ جتنی رقم میں وہ صرف باکو کے چار دن آپ کو عطا کریں گے اس سے تھوڑی سی زیادہ رقم میں آپ سات آٹھ دن اور کئی شہر اپنی یادوں میں شامل کرسکتے ہیں ۔ میں نے اپنے آٹھ نو روزہ سفری منصوبے میں باکو کے لیے صرف دو دن رکھے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مجھے شاپنگ مالز اور جدید تر عمارتوں سے کوئی خاص رغبت کبھی نہیں رہی ۔البتہ بحیرہ ٔ قزوین کے کنارے چہل قدمی اور قدیم شہر کے درو دیوار اس سفر کا لازمی حصہ تھے۔نظامی گنجوی کا شہر گنجہ ‘ قبالا‘ قبا‘ قسر‘ شاہ داگ وہ شہر تھے جن کی فضا میں کچھ وقت گزارنا ضرور چاہتا تھا۔افسوس یہ ہے کہ گنجہ کسی بھی طرح میرے سفری نقشے میں فٹ نہیں ہوسکا ۔اس کا نام نکال دیا مگر لیکن دل سے یہ خواہش نہیں نکال سکا۔گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی ۔
ایک نظر آذر بائیجان کے نقشے پر ڈالیں ۔باکو بحیرہ کیسپین کے کنارے بڑا شہر ہے ۔ یہاں سے شمال کی سمت جنوب مغرب کی جانب ایک شہر قبالا نظر آئے گا۔ جسے گبالا بھی کہتے ہیں ۔قبالا ایک بلند پہاڑ'' توفن داگ ‘‘کے دامن میں چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے ۔ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ کہ ترکی اور آذر بائیجانی میں ''داگ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں ۔قبالا میں قدیم آثار بھی ہیں اور یہ کاکیشین البانیہ کا قدیم د ارالحکومت بھی رہا ہے ۔آج کا قبالا حسین سرسبز اور معطر شہر ہے ۔ باکو سے قبالا قریب قریب پانچ گھنٹے کا راستہ ہے ۔سڑک اکثر بہت اچھی اور موٹر وے کے معیار کی ہے لیکن قبالا سے پہلے پچیس تیس کلو میٹر سڑ ک کی مرمت جاری تھی اس لیے رفتار بھی کم کرنی پڑی ۔میں کم و بیش چھ گھنٹے میں باکو سے قبالا پہنچا ۔ ٹور آپریٹرز یہ دھوکا دیتے ہیں کہ باکو سے قبالا ایک ہی دن میں آنا جانا طے کرتے ہیں ۔ بھلا بتائیے ۔ چھ گھنٹے آنا اور چھ گھنٹے واپسی ۔ تو اس شہر میں وقت کیا مل سکتا ہے ۔ جب آپ پہنچتے ہیں تو ویسے ہی تھکن سے براحال ہوچکا ہوتا ہے ۔ کون سی جھیل اور کیسا پہاڑ ۔ آ پ کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہوتا۔ اور یہی ٹور آپریٹر ز کا مقصد بھی ہوتا ہے کہ بس کام جلد از جلد نمٹا لیا جائے ۔ میں نے ایک رات قبالا میں ٹھہرنا طے کیا تھا۔باکو سے قبالا تک کا راستہ تمام سرسبز اور خوبصورت ہے ۔ کئی بستیوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے آپ ان سے روشناس ہوں گے۔پہاڑ‘ جنگل ‘ وادیاں ‘ چھوٹی پہاڑیاں سب اس راستے کا حصہ ہیں ۔راستے میں سات آبشاریں بھی پڑتی ہیں ۔ قبالا میں داخل ہوں تو ایک جھیل آپ کا خیر مقدم کرتی ہے جس کا نام نوہور جھیل (Nohur gol)ہے ۔''گول‘‘ کا لفظ ترکی اور آذر بائیجانی میں جھیل کے لیے بولاجاتا ہے ۔ اور کیا خوبصورت جھیل ہے نوہور۔جھیل کنارے کیسی خوب صورت جگہیں اور مطعم ہیں ۔ ایک سے ایک پیارا۔تعمیر کا سلیقہ تو آذر بائیجانیوں سے سیکھنا چاہیے ۔کیسا کمال ذوق رکھتے ہیں ۔ میں شام سے کچھ پہلے پہنچا۔ابھی ابھی ہلکا سا مینہ برس کر مطلع صاف ہوا تھا۔بادل سورج کی ترچھی کرنوں سے قرمزی ہوچلے تھے۔کبھی کبھی سورج بادلوں سے نکل کر جھیل کو دیکھ کر مسکراتا تو تا حد نظر نیلے پانیوں میں پگھلا ہوا سونا بکھرنے لگتا۔ جھیل کنارے جہاں میں بیٹھا تھا وہاں سامنے سورج کی ٹکیا ڈھلتے ڈھلتے غروب ہوئی اور شام نے نیلگوں پانیوں پر سیاہ پردہ ڈالنا شروع کردیا۔جھیل کا یہ کنارہ یہ منظر روز دیکھتا ہے لیکن ہم دیکھنے والے زندگی میں پہلی بار اور شاید آخری بار اس لمحے کو بسر کر رہے تھے۔اس سوال کا جواب کب ملے گا؟ کوئی بتاسکتا ہے کہ ہر خوش کرنے والا منظر بہت اداس کیوں کرتا ہے؟
قبالا میں بہت سے ہوٹل ہیں ۔ اچھے اور صاف ستھرے۔ آپ اپنے بجٹ کے مطابق بہت سی ایپلی کیشنز کے ذریعے بھی ہوٹل بک کراسکتے ہیں اور براہ راست ای میل کے ذریعے بھی ۔اگر ہوٹل دھوکے بازوں کا نہیں تو دو ستارہ ہوٹل بھی صاف ستھرا اور ٹھہرنے کے لیے مناسب ہے ۔ ویسے یہاں چار ستارہ او رپنج ستارہ ہوٹلوں کی بھی کمی نہیں ۔ یہ فیصلہ آ پ کا ہے کہ آپ اس قیام کے لیے کتنی آسائش چاہتے ہیں ۔ میں اپنے ہوٹل پہنچا تو کمرے کی بالکنی سے سامنے کھلی سرسبز وادی اور سبز رنگوں کے مجموعے سے مل کر بنے پہاڑ دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ بادل ابھی ارد گرد منڈلا رہے تھے۔جلد ہی بارش شروع ہوگئی جس نے اس خوش منظر وادی کو حسین تر کردیا ۔جلد ہی پہاڑوں سے دھند اترنی شروع ہوئی اور ڈھلانوں پر تیرتی ہماری آنکھوں تک پہنچ گئی ۔اس دھند میں ایک مہک تھی ‘جو سانسوں کو شاداب کرتی تھی ۔اگرچہ آنکھیں اس منظر سے سیراب نہ ہوتی تھیں لیکن تھکا ہوا جسم اپنی آنکھیں موند لینا چاہتا تھا۔میں نے اس منظر کو اگلی صبح تک کے لیے شب بخیر کہا ۔ اس غرفۂ شب میں سکون اورسکوت میرے ہم سرائے تھے اور تھکن میری آنکھیں تھپک رہی تھی ۔