"SUC" (space) message & send to 7575

اک ذرا کوہ قاف تک…(5)

19ستمبر کی صبح باکو میں چمکیلی اور سفر کے لیے خوشگوار تھی۔مجھے پہلے قبا شہر یا کہہ لیجیے کہ گُبا شہر‘پھر اس سے 20 منٹ آگے مجارا جھیل‘پھر اس سے 40 منٹ کے فاصلے پر قسر اور پھر اس سے 15 بیس منٹ آگے شاہ داگ پہاڑ کی چوٹی پر ماؤنٹین رزارٹ پہنچنا تھا۔یہ سب ایک ہی رُخ اور ایک ہی راستے پر تھے لیکن میں اس سفر کیلئے کئی دن سے پریشان تھا۔میں قبا اور اس سے آگے کس طرح پہنچوں گا؟ اور واپس کیسے آؤں گا؟یہ مسئلہ معمولی نہیں خاصا گمبھیر تھا۔اگر سیاح رقم لٹانے کے ارادے سے نہیں نکلا تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ آذر بائیجان میں کافی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے ۔
آذر بائیجان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ناقص اور خراب ہے۔ہمارے ہاں پاکستان میں اس سے ہزار گنا بہتر ہے۔آذر بائیجان میں ٹرین کی پٹری تو ایک جگہ مجھے دکھائی دی لیکن ٹرینیں پورے ملک میں بظاہر ہیں ہی نہیں۔جو بسیں سڑکوں پر نظر آئیں ان کی حالتِ زار بتاتی تھی کہ اس طرف رُخ نہ کیا جائے۔سوچا‘چلیے جیسی بھی بسیں ہیں گزارا کرلیں گے لیکن آپ اندازہ لگائیے کہ کئی دن دوڑ دھوپ اور رابطوں کے باوجود میں یہ معلوم نہیں کرسکا کہ اگر باکو بس سٹینڈ چلا جاؤں تو وہاں سے قبا کیلئے بس مل سکے گی یا نہیں؟ اگر ملے گی تو دن میں کتنی بسیں جاتی ہیں اور اوقات کیا ہیں؟ ٹکٹ کتنے کا ہے اور سامان کی جگہ ہوتی ہے یا نہیں؟مسئلہ یہ تھا کہ شہر سے کافی فاصلے پر بس سٹینڈ پہنچ بھی جاؤں اور وہاں کوئی بس جانے والی نہ ہو تو پھر کیا کروں گا؟کسی طرح بس سروس کا فون نمبر حاصل کیا‘لیکن دو تین دن تو کسی نے اٹھایا ہی نہیں۔ایک دو بار فون اٹھایا تو گاڑھی آذر بائیجانی کا ایک لفظ پلے نہیں پڑا۔کوئی انگلش سمجھنے والا نہیں تھا۔اس خراب نظام کا صرف ایک فائدہ نظر آیا اور وہ فائدہ مسافر کو نہیں ٹیکسی والوں کا ہے۔وہ تھوڑے سے فاصلے کے منہ مانگے پیسے مانگتے ہیں۔مجھ سے 200 ڈالر یعنی ساٹھ ہزار روپے مانگے گئے جبکہ قبا 167 کلومیٹر دور ہے اور تین گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں۔ بالآخر ایک دوست نے فی سواری ٹیکسی یعنی shared taxiکا راستہ بتایا۔اگرچہ یہ بھی خاصا مہنگا تھا لیکن کوئی چارہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے اختیار کرلیا گیا۔ اچھا بھئی! وزیر اعظم آذر بائیجان جناب علی اسدوف! اگر یہی آپ کی مرضی ہے کہ اپنی پونجی ٹیکسی ڈرائیور پر لٹا دی جائے تو بیچارے سیاح کیا کرسکتے ہیں۔لیکن جناب! جتنی توجہ‘ زور اور پیسہ آپ سیاحت کے فروغ پر لگا رہے ہیں اس کا دس فیصد ہی پبلک ٹرانسپورٹ پر لگادیں تو بڑے شہروں کے بیچ سفر آسان ہوجائے۔
قبا چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔صاف ستھرا اور پرسکون‘ شہرکی سڑکوں سے گزرتے ہوئے بڑے شاپنگ مال‘ برانڈز اور بازار نظر آتے گئے اور اس میں بھرپور رونق بھی۔یہ بات پہلے بھی سُن رکھی تھی اور خود بھی مشاہدہ کیا کہ آذر بائیجان میں سب چیزیں امپورٹ ہوتی ہیں۔شاید ہی کوئی چیز مقامی ہو اس لیے ہر چیز مہنگی بھی ہے اور اکثر کا معیار بھی کم ہے۔زیادہ درآمد ترکی سے ہے اور یہاں ترکی کی نسبت چیزیں بدرجہا مہنگی ہیں
مجھے قبا /گبا ایک ایسا پیارا چھوٹا‘پرسکون شہر لگا جس میں انسان کا مستقل رہنے کو جی چاہے۔میں جی بھر کے اس کی گلیوں بازاروں میں پھرنا چاہتا تھا لیکن مجھے تو اس نیم میدانی شہر سے آگے مجارا گاؤں جانا تھا۔ جہاں ایک جھیل کنارے رزارٹ میں میری دو دن کی بکنگ تھی ۔شہر سے نکل کر گاڑی بل کھاتے‘ درختوں سے ڈھکے پہاڑی راستے پر رواں ہوگئی۔ بتدریج اونچائی کی طرف جاتے ایک موڑ پر گاڑی ایک لمحے کیلئے رکی تو دیکھا کہ شہر نیچے کتنا پیچھے رہ گیا تھا۔مجھ ناواقف کا وہ خیال غلط نکلا کہ اپنے ہوٹل سے قبا شہر میں سیر اور مٹر گشت کیلئے آجایا کروں گا۔یہ سوائے اس صورت کے ممکن نہیں تھا کہ اپنی گاڑی پاس ہو۔بلندی پر کچھ چڑھائیوں‘کئی اترائیوںور دس منٹ کے بعدمجارا گاؤں دکھائی دیا جو چھوٹی سی آبادی والی بستی تھی اور جس کے مرکزی بازار میں کچھ کچھ رونق تھی۔یہاں سے گاڑی ایک اور سڑک پر مڑی اورتین چار کلومیٹر کے بعد ایک پہاڑی چوٹی پر رکی جہاں بائیں طرف ''مجارا لیک پارک رزارٹ ہوٹل‘‘ واقع تھا۔استقبالیہ سے ایک خوبصورت اور کھلی کارٹ مہمانوں اورسامان کو لے کر روانہ ہوئی اور اس سوئٹ میں پہنچا دیاجس میں بکنگ تھی۔ کوفت اور تھکن اگرچہ ساتھ چل رہی تھیں لیکن رزارٹ میں داخل ہوتے ہی ایک دم دل خوش ہوگیا۔یہ رزارٹ آذر بائیجانی حکومتی منصوبو ں میں سے ایک ہے اور یہ سرکاری انتظام میں حسین پہاڑیوں کے بیچ ایک بڑی خوبصورت جھیل کنار ے بنایا گیا ہے۔اندازہ ہوا کہ یہ 2023ء ہی میں بنا ہے یعنی بالکل نیا۔اس انتہائی سلیقے اور ذوق کے ساتھ بنائے گئے ہوٹل رزارٹ نے ایک نظر میں دل موہ لیا۔ میں پہلے بھی تفریحی ہوٹلو ں میں رہا ہوں لیکن رقبے کے اعتبار سے ایسا رزارٹ میں نے کوئی اور نہیں دیکھا جس میں کئی پہاڑ‘وادیاں‘ جھیل‘ پہاڑی جنگل ‘پگڈنڈیاں‘چھوٹی بڑی عمارتیں ‘ کاٹیج‘ریستوران سب اسی ایک رزارٹ کا حصہ ہوں۔ اتنے بڑے رقبے پر تفریحی ہوٹل بنانا شاید کسی حکومت کیلئے ہی ممکن ہے۔پھر بات رقبے ہی کی نہیں سلیقے کی بھی ہے۔ اونچے پہاڑوں اور بلند جنگلوں کے بیچ نسبتاً کم بلندپہاڑ پر بنا ہوا یہ ہوٹل اوپر اور نیچے نظارے کیلئے کمال ہے۔ پہاڑ کاٹ کر اور تراش کر عمارتیں اور سبزہ زار بنے ہوئے۔سبزہ زاروں کے بیچ رنگا رنگ کھلے ہوئے پھول۔ خوبصورت درخت اور پودے‘ ترشی ترشائی روشیں‘تازہ کٹی کٹائی گھاس کے قطعات‘جابجا چھوٹی چھوٹی آبشاریں اور جھرنے۔ ہر جھرنے کے ساتھ ایک چھوٹا سا تالاب جس میں بڑی بڑی خوش رنگ مچھلیاں تیرتی ہوئی۔سبزہ زاروں کے بیچ حسین پہاڑی ڈھلانیں۔ حسین گزیبوز (Gazebos)ہر مسطح یا ڈھلانی سبزہ زار میں موجود۔ ( سبزہ زار میں چاروں طرف سے کھلی مگر اوپر سے ڈھکی ہوئی‘ بیٹھنے کی حسین لکڑی کی تعمیر کو کہتے ہیں)۔ سبزہ زاروں کی ڈھلانوں پر چھوٹے بڑے گزیبوز بکھرے ہوئے تھے۔ وسیع نیلگوں جھیل جس کو صرف دیکھتے رہیے تب بھی جی نہیں بھرتا‘لیکن اس میں مچھلی پکڑنے اور کشتی رانی کی بھی تفریح موجود ہے۔ چھوٹی بڑی پارٹیوں کیلئے پہاڑ اور جھیل کنارے بہترین انتظام۔ کسی طرف سے نظارے کو روکنے کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ہوٹل کی مختلف سطحوں اور مختلف منظروں پر کیفے اور ریستوران بنے ہوئے۔ کھانے پینے کیلئے دنیا بھر کی نعمتیں موجود۔''اگر فردوس بر روئے زمیں است‘‘۔ اگر فانی انسان یہ حسن تخلیق کرسکتا ہے تو اس حسن کا کیا ٹھکانہ ہوگا جسے غیر فانی نے بنایا ہے۔
سوئٹ کی کھڑکی سے سامنے پہاڑی جنگل اور نیچے جھیل نظر آتی تھی۔ میں کچھ دیر آرام کے بعد جھیل سے ملنے نکلا۔ایک خوبصورت راستہ مجھے ایک کچے راستے تک لے آیا۔ کچا راستہ پگڈنڈی میں تبدیل ہوا اور پگڈنڈی قدم بہ قدم مجھے لیے پہاڑی سے نیچے اترنے لگی۔ ذر اسا چلنے کے بعد بہتے پانی کی آواز پہاڑی پرندوں کی بولیوں میں شامل ہوگئی۔سامنے ذرا اترائی پر درختوں کے بیچ سے نیلگوں جھیل دکھائی دینے لگی۔لیکن جھیل سے پہلے ان چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور جھرنوں نے اپنی طرف کھینچ لیا جن کا جلترنگ ہر طرف گونج رہاتھا۔جھرنے خود جھیل تک جاتے تھے‘میں ان کے ساتھ جھیل کنار ے پہنچا۔ایک دل نشیں حسین منظر میرے سامنے تھا۔دائیں بائیں اور سامنے مجارا جھیل پھیلی ہوئی تھی اور سورج پہاڑی کی اوٹ سے اسے چھپ کر دیکھتا تھا۔جھیل کنارے لبِ آب ِرواں بھی میز کرسیاں پڑی تھیں اور ذرا فاصلے پر چند قدم اوپر بھی ایک کیفے بنا ہوا تھا۔وہ کیا مصرع ہے نظیری کا؟ میں نے سوچا''کرشمۂ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا ست‘‘ ۔جنابِ نظیری نیشا پوری! نیشا پور تو مجارا سے بہت دور ایران میں ہے۔کیا آپ مجارا آئے تھے۔ کیا یہ آپ کے محبوب کیلئے ہے ۔چلیے مان لیا کہ یہ مصرع اس کوہ قاف کی جھیل کیلئے نہیں ہے مگر یہ بتائیے کہ پھر اس محبوبہ جھیل کے بارے میں کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں