"SUC" (space) message & send to 7575

خشکی اور تری میں فساد پھیل چکاہے

اللہ کی کتاب نے فرمایا: ظہر الفساد فی البر و البحر ''خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے‘‘ (سورۂ روم)۔ایک عام آدمی کو بھی نظر آتا ہے کہ زمین ظلم سے بھر چکی ہے ۔ روزقیامت خیز خبریں آرہی ہیں ۔اسرائیلی وحشت سے مسجد، گرجا، ہسپتال، اقوام متحدہ کے مرکز،مہاجر کیمپ کچھ بھی محفوظ نہیں ۔ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز وہ تصویریں اور ویڈیوز دکھا رہے ہیں جو دیکھی نہیں جاتیں۔ہر سرخی کا عنوان غزہ اور فلسطین ہے اور ہر سرخی سے خون ٹپکتا ہے ۔
میں پچھلے چند کالموں میں صورتحال کا تجزیہ کرتا رہا ہوں ۔ حزب اللہ کی محدود کارروائیوں اور ان زنجیروں کے بارے میں بھی بات کی ہے جن سے ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں ۔ ان دنوں قارئین کے تبصروں اور عام آدمی کی گفتگو سے ہمیشہ یہی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطین اور غزہ کا جغرافیہ اور زمینی حقائق کم لوگوں کو معلوم ہیں ۔ یہ تو اب لوگوں کو کچھ نہ کچھ معلوم ہے کہ غزہ ایک تنگ زمینی پٹی ہے جو دریائے اردن کے مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی سے جڑی ہوئی نہیں ہے ۔ اسے ایک بڑی جیل سمجھنا چاہیے ۔ اس وقت جب اس پٹی پر اسرائیلی زمینی حملہ کسی وقت بھی متوقع ہے ۔غزہ کی پٹی کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے اور اس حملے میں اسرائیلی حکمت عملی اور اس کی جنگی طاقت کو بھی جان لینا چاہیے ۔اسی طرح حماس کی جوابی دفاعی طاقت اور حکمت عملی پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔
غزہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر شمالاً جنوباً365 مربع کلو میٹر کی ایک زمینی پٹی ہے جس کے مشرق اور شمال میں اسرائیل اور جنوب مغرب میں مصر کی سرحدیں ہیں ۔ اس پٹی میں لگ بھگ تئیس لاکھ فلسطینی بستے ہیں ۔ غزہ میں پانچ انتظامی صوبے ہیں: شمالی غزہ ، غزہ شہر، دیر البلاح، خان یونس اور رفاح ۔ شمالی غزہ دس کلو میٹرچوڑائی میں پھیلا ہے اور یہاں بیت حنون کے ذریعے اسرائیل کا واحد راستہ ہے ۔یہیں غزہ میں فلسطینیوں کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ جبالیا بھی ہے۔غزہ شہر غزہ کا سب سے بڑی آبادی والا شہر ہے۔ لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کے اس شہر میں غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال بھی موجود ہے ۔ دیر البلاح غزہ کا سب سے بڑا زرعی علاقہ ہے ۔ ساڑھے تین لاکھ کے قریب آبادی ہے اورچار مہاجر کیمپ بھی ہیں۔ خان یونس ساڑھے چار لاکھ آبادی والا علاقہ ہے ۔یہاں خان یونس مہاجر کیمپ بھی ہے جس میں نوے ہزار مہاجر بستے ہیں ۔ رفاح کی آبادی تین لاکھ کے قریب ہے اور یہ غزہ کا سب سے جنوبی علاقہ ہے ۔ یہیں مصرکے ساتھ اس کا زمینی راستہ بھی ہے۔ اس راستے پر امدادی ٹرک اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے راستہ کھلنے اور اجازت ملنے کے منتظر ہیں ۔
لیکن اسی طرح سینکڑوں اسرائیلی ٹینک غزہ کی سرحدی باڑ پر زمینی حملے کے منتظر کھڑے ہیں ۔حماس کے جنگجو اس زمینی حملے کے دفاع کی تیاری کرکے بیٹھے ہیں ۔ یہ سوچ کر ہی کپکپی طاری ہوجاتی ہے کہ اس قتل و خون میں کتنے سہاگ اجڑیں گے اور کتنی مائیں اپنے بچوں کو کھودیں گی‘ لیکن اگر کوئی بڑی تبدیلی نہ ہوئی تو یہ حملہ جلد متوقع ہے ۔ اسرائیل اور حماس دونوں ایک دوسرے کو کئی بار آزما چکے ہیں ۔دونوں ایک دوسرے کی طاقت اور کمزور پہلوؤں سے بخوبی واقف ہیں ۔ دونوں طرف کے لوگ اپنے اپنے عزم و ہمت کا اعلان کر رہے ہیں ۔ اس حملے کی صورت میں اسرائیل کی حکمت عملی کیا ہوگی اور اس کی طاقت کیا ہے؟پہلی چیز تو عددی برتری ہے۔ پانچ لاکھ کے قریب تربیت یافتہ ،وردی میں ملبوس، بہترین اسلحے سے لیس باقاعدہ فوج موجود ہے ۔ رضاکار اِن کے علاوہ ہوں گے۔اس کے مقابل حماس کے جنگجو دس ہزار کے لگ بھگ ہیں ۔ یہ درست ہے کہ رضاکار ایک لاکھ کے قریب میسر ہوں گے لیکن یہ لوگ جنگی تجربے والے بھی نہیں اور نظم و ضبط کی تربیت بھی نہیں ۔یہی دس ہزار جنگجو ہوں گے جو احکام کے مطابق کارروائیاں کرسکیں گے۔ساز و سامان اور جدید ترین اسلحے کی بات کریں تو اسرائیل بدرجہا فوقیت رکھتا ہے ۔ جذبے اور اپنی زمین کے لیے کٹ مرنے کے عزم میں اسرائیل کا حماس سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ غزہ فلسطینیوں کا آخری ٹھکانہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی اور مٹی نہیں ہے ۔ حال ہی میں حماس کے ایک رہنما کا بیان ہے کہ اسرائیل سے جنگ کی جائے یا نہ کی جائے ، ہم جانتے ہیں کہ وہ بہرصورت ہمیں مار دیں گے۔ تو پھر انہیں مار کر کیوں نہ شہید ہوا جائے ۔ یہ جذبہ مخالف کو تھرّا دینے والا ہوتا ہے ۔زیر زمین سرنگیں فلسطینیوں کا ایک بڑا ہتھیار ہوں گی جو انہوں نے سابقہ اسرائیلی حملوں میں کامیابی سے استعمال کی تھیں ۔پھر یہ کہ وہ اپنے علاقے کے چپے چپے سے واقف ہیں جبکہ اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ انجانی زمین ہوگی ۔اسرائیلی حملے کی ٹھیک حکمت عملی تو اسرائیلی کمانڈرز ہی کے علم میں ہو گی‘ کچھ باتیں بہرحال یقینی لگتی ہیں ۔ یہ حملہ آدھی رات یا آخر شب میں ہوگااور کئی اطراف سے بیک وقت ہوگا۔ اسرائیلی فوجیوں کو رات میں دیکھنے والی عینکیں فراہم کردی گئی ہیں ۔ رات کے وقت حملے میں اسرائیل کو یہ فائدہ دکھائی دیتا ہے کہ عرب دنیا اور یورپ اس وقت سو رہے ہوں گے۔ تو کم و بیش چھ گھنٹے تیز کارروائی کے لیے مل جائیں گے۔ اسرائیلی طیارے ،ہیلی کاپٹر اور ڈرونز بھی را ت کے وقت نشانہ بنا سکنے کی سہولت سے لیس ہیں ۔ حماس کے پاس ہوائی قوت سرے سے نہیں ہے ۔ ان کے پاس کچھ ایسا اسلحہ ضرور ہے جو رات کو نشانہ بناسکتا ہے لیکن اڑتے ہوئے جہاز کو نشانہ بنانا شاید اس کی حد سے باہر ہو۔ پھر چونکہ غزہ کی پٹی چوڑائی میں تنگ ہے اس لیے یہ طیارے اور ہیلی کاپٹر غزہ کی فضائی حدود سے باہر رہ کر بھی سمارٹ بموں اور گائیڈڈ میزائلوں سے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ زمینی فوج بیک وقت خشکی اور سمندر کی جانب سے حملہ کرے گی اور ساحلوں پر کچھ لوگ اپنے ٹھکانے بنا لیں گے ۔ غزہ کی شمالی پٹی کو جنوبی غزہ سے کاٹ دینا ، تاکہ کوئی کمک نہ پہنچ سکے ، حکمت عملی کا ایک نکتہ ہوگا۔حملے کے ساتھ ہی کمیونیکشن سسٹم جام کردیا جائے گا، موبائل ٹاورز نشانے پر ہوں گے اور ٹیلی فون لائنز الیکٹرانک طریقے سے بند کردی جائیں گی تاکہ حماس کے جنگجو باہمی رابطوں کے قابل نہ رہیں ۔ اسرائیلی باڑ اور دیوار کو بلڈوزروں سے مسمار کرکے زمینی فوج غزہ میں داخل ہوگی ۔اینٹی ٹینک اور باردوی سرنگیں تباہ کرکے آگے بڑھا جائے گا۔بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے ذریعے پہلے ہلے میں اور پہلے چند گھنٹوں میں اہم عمارات پر قبضے کی بھرپور کوشش ہوگی تاکہ حماس کے جوابی حملے سے پہلے محفوظ ٹھکانے مل جائیں ۔ابتدائی چند گھنٹے دونوں طرف کی فوجوں کے لیے اہم ہوں گے۔ اگر یہ چند گھنٹے حماس کے حق میں گئے تو یہ ان کے حوصلے بلند اور اسرائیلی فوجیوں کے ارادے پست کریں گے۔ انہی گھنٹوں میں جانی نقصان بھی بہت اہم ہوگا۔ اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ جنگ مختصر دورانیے کی ہو جس میں وہ اپنے زیادہ سے زیادہ اہداف حاصل کرلے جبکہ حماس جانتی ہے کہ وہ کھلے میدان میں لڑنے کے قابل نہیں اس لیے جنگ طویل کرکے گوریلا جنگی کارروائیاں ہی ان کی حکمت عملی ہوگی ۔
اگرچہ اسرائیل اپنی کارروائیوں کے لیے عالمی رد عمل کی پروا نہیں کرتا، لیکن عالمی رد عمل، خاص طو رپر عرب اور ہمسایہ ممالک کا رد عمل ایک اہم عنصر ضرور ہوگا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ یہ جنگ ایک بڑی عالمی جنگ کی طرف لے جائے جس میں اس کے اپنے وجود کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں ۔ اسی خطرے کے پیش نظر اس کی حامی قوتیں مسلسل اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں تاکہ کوئی ملک ایسے اقدام سے باز رہے ۔
اللہ کی کتاب نے فرمایا''خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے‘‘ ۔کیا اس میں کوئی شک ہے ؟کیا ایک عام آدمی کو بھی نظرنہیں آتا کہ زمین ظلم سے بھر چکی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں