"SUC" (space) message & send to 7575

بھیڑیے

غزہ کی طرح دل بھی لہو لہان ہے ۔ کسی بھی لکھنے والے کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے اور اپنی پسند نا پسند کو ایک طرف رکھ کر صورتحال کا تجزیہ کرے‘ لیکن حقیقی اور زمینی صورتحال کو ملحوظ رکھنا ہی درست تجزیے کی بنیاد ہوتی ہے ۔ غزہ کا غیر جانبدار تجزیہ ابھی تک یہ ہے کہ حماس نے اپنے مقاصد بہت حد تک حاصل کرلیے ہیں ۔یہ مقاصد کیا تھے ، ان پر آگے بات کرتے ہیں ۔ اسرائیل جوابی کارروائی کرنے اور حما س پر کاری ضرب لگانے میں برُی طرح ناکام ہے ۔ یہ ناکامیاں کیا ہیں،ان پر بھی بات کرتے ہیں ۔
حماس کا پہلا مقصد فلسطین کے معاملے کو دنیا بھر میں ایک بار پھر اجاگر کرنا تھا۔وہ قضیہ جو اسرائیل اور اس کے حواریوں کے نزدیک قریب قریب دفن ہوچکا تھا،اسے ایک بار پھرعالمی توجہ کا مرکز بنادینانہایت مشکل کام تھا۔ اسرائیل کے جاسوسی نظام، دفاعی ساز و سامان اور عددی برتری سمیت بے شمار شعبوں میں فوقیت کے باوجود حماس نے یہ کام کر دکھایا ہے ۔ اقوام متحدہ میں سر توڑ کوششوں اور امریکی ویٹو کی بار بار استعمال کے باوجود فلسطین ایک بار پھر دنیا بھر کا محور بن چکا ہے اور دو ریاستوں کی بات ایک بار پھر تازہ ہورہی ہے ۔ فلسطینیوں کو یہ فارمولا قبول ہے یا نہیں ،الگ معاملہ ہے لیکن اب بہت مدت سے یہ بات ہونی بھی ختم ہوگئی تھی ۔یہ حماس کی بڑی کامیابی ہے ۔ دوسرا بڑا مقصد اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا زعم توڑنا اور عرب ممالک خاص طو رپر ہمسایہ ممالک میں اسرائیل سے مرعوبیت ختم کرنا تھا۔ حماس نے 7 اکتوبر کی کامیاب کارروائی کے ساتھ یہ زعم بھی توڑ دیا ہے ۔ جس پیمانے پر 7 اکتوبر کی کارروائی تھی،وہ عرب ممالک اور خود اسرائیل کے تصور میں بھی نہیں تھی ۔اتنا جانی و مالی نقصان،اسرائیلی علاقوں میں جنگجو اور قیدیوں کا حماس کی تحویل میں چلے جانا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ان قیدیوں کے باعث حماس نے اپنی لین دین اور مذاکرات کی پوزیشن بہت بہتر بنالی ۔ جواب میں اسرئیل نے غزہ کے شہریوں پر فضائی اور توپ خانے کی بمباری کی جس کے نتیجے میں اب تک 9500شہری شہید ہوچکے۔ اس معاملے نے بھی اسرائیل کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا ہے ۔دنیا بھر میں اس کی مذمت اور کارروائی فوری طور پر روکنے کے مطالبات کیے جا رہے ۔جنوبی امریکہ کے کچھ ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلق ختم کردیے ہیں ۔عرب ممالک سے جوباہمی معاملات کی بات چیت چل رہی تھی ، ختم ہوگئی ۔روس نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل چونکہ قابض ہے اس لیے اسے دفاع کا حق ہی نہیں ۔اس طرح اسرائیل عالمی سطح پر یورپ اور امریکہ کی مکمل حمایت کے باوجود تنہاہوا ہے ۔ اور یہ حماس کے بڑے مقاصد اور بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے ۔
پھر اس کارروائی کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ یہ وہ وقت ہے جب اسرائیل اپنے گوناگوں معاشی مشکلات میں ہے۔ اسرائیلی کرنسی شیکل اپنے چو دہ سالہ ریکارڈ کی نچلی ترین سطح پر ہے ۔ جنگ کے آغاز پر اگرچہ اسرائیل کے غیر ملکی ذخائر 200 بلین ڈالرز تھے اور امریکہ نے اسے 14 بلین ڈالر کی جنگی امداد بھی دے دی ہے ،امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کے کسی بھی قسم کے اسرائیلی استعمال پر کوئی پابندی نہیں لگا رہا‘لیکن جنگی اخراجات بہرحال اوسط معاشی طاقت کے ملک کے لیے بھی کمر توڑ دینے والے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے جنگ طول کھینچ رہی ہے ، اسرائیل کے لیے معاشی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں ۔اسرائیل نے جو تین لاکھ ریزرو فوج طلب کیے ہیں ،ان پر اخراجات بھی معاشی مسائل کا سبب بنیں گے۔ معاشی مسئلے کا ایک رُخ خوف کی وجہ سے بہت سے اسرائیلیوں اور یوروپینز کا اسرائیل چھوڑ جانا ہے ۔ انہیں ا س کارروائی کے بعد تل ابیب سمیت اسرائیلی زمین محفوظ نظر نہیں آتی ۔ٹائمنگ ہی میں ایک اہم رُخ اسرائیل کی سیاسی صورتحال ہے ۔نیتن یاہو کی حکومت کو شدید اندرونی تفریق اور مخالفت کا سامنا ہے ۔حماس کی تازہ کارروائی نے یہ خلیج اور گہری کردی ہے اور یہ حماس کے بڑے مقاصد میں سے ایک ہے ۔
ایک معاملہ یہ ہے کہ جنگ میں اسرائیل کا بہت کچھ داؤ پر ہے۔ حماس کے پاس کھونے کے لیے صرف ان کی جانیں اور بیوی بچے ہیں ۔اور وہ عام حالات میں بھی مسلسل شہید ہوتے جارہے تھے۔ سخت محاصروں اور پابندیوں کی زندگیاں گزارنے کے بعد اگر حماس نے آخری فیصلہ کیا ہے تو یہ سمجھ میں آتا ہے ۔ اسرائیلیوں کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہے اور وہ چار سمت سے دشمنوں میں بھی ہیں اس لیے کسی بھی طرف سے وار کا خطرہ ان کے لیے نفسیاتی مسئلہ بھی ہے ۔
سات اکتوبر کی حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیل نے اب تک کیا حاصل کیا ہے ؟یہ بہت اہم سوال ہے کہ ایک ماہ کی سخت دھمکیوں‘ مسلسل فضائی اور توپ خانے کی بمباری ، ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت اور بے شمار عمارتیں مسمار کردینے کے باوجود حماس پر کوئی کاری ضرب لگائی جاسکی ؟ اس تحریر کے وقت تک تو جواب یہ ہے کہ اسرائیل کسی کاری وار میں ناکام رہا ہے۔ غزہ میں خوف و دہشت پھیلانے اور حماس کے خلاف ایک فضابنانے میں بھی ناکامی ہوئی ہے ۔غزہ کی پٹی میں کئی بار اسرائیلی اپنے ٹینکوں کے ساتھ گھسے،نقل و حرکت کی وڈیوز بھی جاری کیں ،لیکن چند گھنٹو ں کے بعد واپسی کرلی ۔اس کا حاصل کیا ہوا؟حماس نے وہ وڈیوز اور خبریں جاری کی ہیں جن میں اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ ہوتے دکھایا گیا ہے ۔ ایسے کچھ ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کا اسرائیل نے خود بھی اعتراف کیا ہے ۔جن سرنگوں کا جال حماس نے بنا رکھا ہے ، وہ ختم کیا جاسکا ؟حما س کے اہم لوگ پکڑے جاسکے ؟ ان سب کا جواب نفی میں ہے ۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ، اسرائیلی ہوا نکل رہی ہے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن نے اچانک اپنا مؤقف بدلتے ہوئے جو اسرائیل سے فوری وقفے کی اپیل کی ہے ، وہ خالی از علت نہیں ہے ۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اس وقفے کی قراردادوں کو چند دن پہلے دو بار ویٹو کیا تھا۔اب تک کی صورتحال مجموعی طور پر حماس کے حق میں ہے ۔اور یہ بات بھی اسرائیل کی شکست سمجھی جانی چاہیے ۔یہ تو میرا تجزیہ تھا۔ باقی میرے دل کی کیفیت کیا ہے ؟ تازہ اشعار میں وہ یہ ہے:
اپنی طاقت کے نشے میں بدمست ہیں مقتدِر،صاحبِ مال و زر بھیڑیے
انبیاء کی زمینوں میں ہیں آج کل چار جانب بحد ِنظر بھیڑیے
ہر طرف سے امڈتی ہوئی آہٹیں،تیز بُو،اس سے بھی تیز غراہٹیں
جنگلوں کے نہیں بستیوں کے مکیں، سارے چھوٹے بڑے با اثر بھیڑیے
زرد پتھریلی آنکھوں میں سفاکیاں،لپلپاتی ہوئی سرخ لمبی زباں
گرم خوں پھیلی باچھوں سے بہتا ہوا ، خون آشام بھوکے نڈر بھیڑیے
تیز پنجوں کو دانتوں کی تائید ہے،گُرسنہ کچلیوں کی یہی عید ہے
خوں کی بُو سونگھتی، ہر سیہ تھوتھنی، بھیڑیے پن کے اہلِ ہنر بھیڑیے
نسل کوئی بھی ہو نیتیں ایک سی،رنگ کچھ بھی سہی خصلتیں ایک سی
زرد و سرخ و سفید و سیہ حکمراں،سرمئی گندمی تاجوربھیڑیے
بے بسوں اور نہتوں پہ یلغار کو، غول در غول ہیں آخری وار کو
باخبر، معتبر، دیدہ ور جانور، صاحبِ درد، صاحب نظر بھیڑیے
ان کی دانش بھری گفتگو پر نہ جا،ان کے طرز تبسم سے دھوکا نہ کھا
یہ جو کپڑوں میں دوپایہ مخلوق ہے،یاد رکھ!ان میں ہیں بیشتر بھیڑیے
گریۂ گرگ ہے،گونجتی رات ہے،کون انسان زادوں کی چیخیں سنے
ننھے بچوں کے خوں میں نہاتے رہے اور روتے رہے رات بھر بھیڑیے
پھر سے یوسف کا ملبوس ہے خوں میں تر اور سعودؔ اب یہ جھوٹا لہو بھی نہیں
اب کے یعقوب کو بھی یقیں آگیا، لے گئے اس کا لخت جگر بھیڑیے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں