اسرائیل کو طوعا ًو کرہاً جنگ بندی کی طرف‘ خواہ وہ عارضی ہو‘ جانا پڑ رہا ہے۔ عالمی رائے عامہ اسرائیل کے اس قدر خلاف ہوچکی ہے کہ نیتن یاہو اپنے صہیونی پاگل پن کے باوجود کچھ معاملات میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہے۔ لیکن اسرائیل کو بہت بڑا زخم لگ چکا ہے۔ کہنا چاہیے کہ اسے نفسیاتی شکست ہوچکی ہے۔ سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے اسرائیل کو جانی‘ مالی نقصان تو جو پہنچایا‘اس کا سب سے بڑا نقصان اس کا رعب ختم ہو جانا ہے۔عرب ممالک میں اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا تاثر اتنا گہرا تھا کہ وہ اس کے خلاف کسی اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔دنیا بھر میں اسرائیل کی عالمی پشت پناہی‘ اس کی جنگی طاقت اور اس کے جاسوسی نظام کا شہرہ اسے علاقے میں سب سے بڑی طاقت او ر ناقابلِ شکست قوت بیان کرتا تھا۔سات اکتوبر کو حماس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ یہ رعب اور یہ تاثر تحلیل ہوگیا۔ اس سے بڑا نقصان اسرائیل کا یہ ہے کہ خود اس کے عوام کا اعتماد اپنی فوج سے اُٹھ گیا ہے اور یہ جلد بحال ہونے والا نہیں۔
2023ء میں نیتن یاہو اس انقلاب کے ذریعے ایک بار پھر اقتدار میں آیاجسے عدالتی انقلاب (Judicial coup)کہا جاتا ہے۔اُس کے خلاف پورے اسرائیل میں نو مہینے سے مظاہرین سڑکوں پر تھے۔ اسرائیل میں تفریق اور سیاسی تقسیم اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔مظاہرین میں موساد‘ شابک کے ریٹائرڈ افسران بھی شامل تھے اور اسرائیلی ہائی ٹیک کمپنیوں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے ملازمین بھی۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اسرائیلی فوج کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔سب کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرف تھی جو نیتن یاہو کی عدالتی اور قانونی تبدیلیوں بارے متوقع تھا۔ایسے میں غزہ کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی اور لگتا تھا کہ نیتن یاہو کی حکومت اب گئی اور اب گئی۔ کہا جاتا ہے کہ مصر سے اسرائیل کو حماس کے متوقع حملے کی کچھ اطلاعات ملی تھیں لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی ؛چنانچہ سات اکتوبر نے پورے اسرائیل کو بے خبری میں آلیا۔ یہ بہت بڑا صدمہ تھا اور نیتن یاہو حکومت کے لیے ایک نیا محاذ بھی۔ اسرائیل کی جنگی طاقت اور ہیبت بے پناہ تھی۔یہ ہیبت ملیا میٹ ہوجانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
صہیونیوں نے اسرائیل کو بہت بڑی جنگی طاقت بنانے اور منوانے کے لیے اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی محنت شروع کر دی تھی۔ہگانہ‘ لیہی‘اور ارگن جیسی جنگی اور خفیہ تنظیموں نے لا تعداد جنگجوؤں کی تربیت کی۔ 1948 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ان میں دوسری جنگِ عظیم کے تجربہ کار برطانوی سپاہی بھی شامل تھے۔اس طاقت نے بآسانی غیر منظم‘ غیر تجربہ کار عربوں کو شکست دے دی۔ اس مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت کا ثمر انہیں یہ ملا کہ جو صہیونی 1946ء میں فلسطین کے صرف سات فیصد رقبے پر قابض تھے‘سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے 78فیصد علاقوں پر قابض ہوگئے۔لیکن اسرائیلی فوج اور آباد کاروں میں دراڑیں موجود تھیں۔ لگ بھگ ساڑھے چھ لاکھ آباد کار یہودی مختلف ملکوں‘ مختلف تمدنوں اور مختلف ثقافتوں سے آئے تھے۔ وہ مختلف زبانیں بولتے تھے۔پہلے صہیونی وزیر اعظم بن گوریان نے اس خلیج کو کم کرنے پر بہت توجہ دی۔اسے احساس تھا کہ بڑی جنگی طاقت بنے اور اندرونی خلیج کم کیے بغیر اسرائیل اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔وہ اس مقصد میں کامیاب رہا اور رفتہ رفتہ صہیونیوں کے بیچ خلیج کم ہوتی گئی۔1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ نے اسرائیلی فوج پر عوام کا اعتماد پیدا کیا اور 1973 ء کی لڑائی نے اسے مزید تقویت بخشی؛ چنانچہ اسرائیل کا ایک طرف ہمسایہ ملکوں پر دبدبہ قائم ہوا اور دوسری طرف اسے اپنے لوگوں کا اعتماد حاصل تھا۔لیکن ان جنگوں کو بعد اسرائیلی فوج نے کوئی باقاعدہ لڑائی نہیں لڑی۔اس کا کردار فلسطینیوں کو دبانے‘ان کے جنگجوؤں کو کچلنے اور اپنے ہی علاقوں کے کنٹرول میں گزرا۔ یہ فوج سے زیادہ پولیس کا کردار تھا۔ایک ایسی ظالم اور سفاک پولیس جو اپنی نو آبادیات کو کچلنے میں مصروف ہو۔مغربی کنار ے پر تازہ قبضے کے بعد اس نے غیر ملکی فوجوں کے مقابلے کے بجائے لاکھوں فلسطینیوں کی سرکوبی کو ہی مشن بنالیا؛چنانچہ ایک باقاعدہ فوج کے بجائے جس کا مقابلہ برابر کی فوج سے ہو‘ وہ غیر مسلح‘ نہتے‘ بے گناہ شہریوں پر اپنی طاقت آزماتی رہی جہاں کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔اسرائیلی فوج کا رفتہ رفتہ یہی کردار بنتا گیا۔ ٹینکوں کے سامنے ہاتھوں میں صرف پتھر تھے۔ اسرائیلی فوج کو یہی عادت پڑ چکی ہے ؛چنانچہ حماس کے ساتھ یہ تازہ لڑائی ان کے لیے نہایت مشکل ثابت ہورہی ہے۔ انہیں تو کسی باقاعدہ فوج سے خطرہ رہا ہی نہیں۔
مصر‘ اُردن‘ یو اے ای‘ بحرین‘ مراکش اور سوڈان کے سر تسلیم خم کرنے اور معاہدوں میں شریک ہونے کے بعد اسرائیل کا بیرونی خطرہ بہت کم ہو چکا تھا۔ سعودی عرب ایک نئے معاہدے کیلئے پر تول رہا تھا۔ دوسری طرف عراق اور شام کو تباہ کرنے کے بعد اب اس کی مدمقابل طاقت کوئی نہیں تھی۔ ایسے میں جب بینجمن نیتن یاہو ان معاہدوں کی طاقت لیے دوبارہ اقتدار میں آیا تو اس کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔ اس نے آتے ہی صہیونی بقایا ایجنڈے پر توجہ مرکوز کر دی‘ جس میں بارہ فیصد بچے کھچے رقبے سے جو اَب بھی فلسطینیوں کے کنٹرول میں تھا‘ انہیں بے دخل کرکے صہیونیوں کو آباد کرنا تھا۔ ان نئے آباد کاروں کیلئے پروگرام کے ساتھ اسرائیلی فوجی بار بار فلسطینیوں پر حملے کرتے اور اپنے علاقوں سے نکالتے رہے۔ یہ سب نیتن یاہو کے منصوبے کا حصہ تھا۔ نیتن یاہو‘ فلسطینی اتھارٹی جو نہایت کمزور اور بے سر و سامان تھی اور حماس کے بیچ کشمکش سے آگاہ تھا اور یہ اس کے منصوبے میں معاون بھی تھی۔ وہ حماس کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی کو کمزور تر کرنے کا پروگرام رکھتا تھا۔ اس کے ذہن میں دور دور تک نہیں تھا کہ حماس اسرائیلی جنگی طاقت سے اب ٹکر بھی لے سکتی ہے۔ ایسے میں سات اکتوبر اسرائیل کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ حماس کے صرف دو ہزار جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں فوجی چھاؤنیوں اور چوکیوں پر اس طرح اچانک حملہ کیا کہ بہت سے اسرائیلی فوجی صرف انڈر ویئر میں اور بغیر اسلحے کے تھے۔ میزائلوں‘ راکٹوں‘ ڈرونز‘ چھوٹے ہتھیاروں‘ موٹر سائیکلوں‘ پیرا گلائیڈروں کے ساتھ یہ حملہ اسرائیل کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ حماس کے جنگجوؤں نے سینکڑوں اسرائیلی فوجی قتل کیے اور ڈھائی سو سے زیادہ قیدیوں اور یرغمالیوں کے ساتھ کامیابی سے غزہ لوٹ آئے۔ اس موقع پر اسرائیل ایک منظم ردعمل میں واضح طور پر ناکام رہا۔ اسے تو اپنی ان جگہوں کا کنٹرول واپس لینے میں بھی بہت وقت لگا جہاں حماس کی موجودگی تھی۔ اس واقعے کو اب جبکہ 36واں دن ہے‘ اسرائیلی ناکامی روز بروز واضح ہو رہی ہے۔ ہسپتالوں‘ گھروں‘ مسجدوں اور شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید کر دیے گئے لیکن حماس کو کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچا یا جا سکا۔
اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی کیلئے اسرائیل میں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اسرائیل کی چھوٹی سی آبادی میں سب سے طاقتور‘مالدار اور ساز و سامان سے لیس ادارہ اسرائیلی فوج ہے۔اسرائیل کے ہر مرد‘عورت کا تعلق کسی نہ کسی طرح فوج سے ہے۔ حاضر سروس یا ریٹائرڈ‘سپلائی لائن ہو یا اضافی خدمات‘ ہر گھر کا کم از کم ایک فرد فوج میں ہے۔ اکثر گھروں کا محور ہی آئی ڈی ایف یعنی اسرائیلی ڈیفنس فورسز ہیں۔ ایسے میں سول آبادی کس کو قرار دیا جائے ؟جبکہ فلسطین میں ایسا نہیں ہے۔ حماس کے جنگجو محدود ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ حماس کی شکست پورے فلسطین کی شکست نہیں ہو گی‘ جبکہ اسرائیلی فوج کی شکست پورے اسرائیل کی شکست ہے۔ اسرائیل کو ہونے والا سب سے بڑا نقصان نفسیاتی ہے۔ خواہ وہ حکومتی عہدیداروں پر ہو‘ فوجیوں پر ہو‘یا عوام پر ہو۔