ہر کچھ دن بعدکوئی سفر اور کوئی منظر یاد آنے لگتا ہے۔ یاد بھی اس طرح آتا ہے جیسے میں نے نہیں‘ کسی اور نے وہ وقت گزارا تھا۔ اور میں ایک چلتی رنگین فلم کو کسی اجنبی کی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ جیسے کسی اور نے‘ کسی اور دنیا میں‘ کسی اور زمانے میں وہ وقت گزارا تھا۔ لیکن یہ فلم دیکھتے ہوئے میں وہ بھی دیکھ رہا ہوں جو فلم میں نہیں ہے۔ یہ ایک عجیب تجربہ ہے اور میں ہر کچھ دن بعد اس سے گزرتا ہوں۔ پچھلے دنوں خپلو‘ بلتستان کی ایک تصویر آنکھوں کے سامنے آگئی۔ تصویر تو ایک تھی لیکن ایک پوری البم نہاں خانۂ دل سے ابھر کر اپنے اوراق پلٹنے لگی۔ ہر صفحہ ایک مرقع تھا جس میں صرف تصویر اور رنگ ہی نہیں آوازیں بھی تھیں۔ میں بہتے پُرشور دریا‘ گرتے دودھیا آبشار اور گنگناتے جھرنوں کی آوازیں صاف سننے لگا۔ ہوا اخروٹ کی شاخوں سے ہوکر انہیں جھلاتی‘ ہلکورے دیتی‘ گزرتی دکھائی دینے لگی۔ میں دور سے اپنے آپ کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ میں جو پنڈلیاں کھولے گھانگ چھے آبشار اور دریائے شیوک کے سنگم پر بڑے پتھروں پر بیٹھا ہوا تھا اور برفاب پانی میرے پیروں کے بیچ سے سرسراتا گزرتا تھا۔ میں نے یہ برفاب پانی گھونٹ گھونٹ خوب سیراب ہوکر ابھی ابھی پیا تھا اور میں اس کی ٹھنڈک اپنی رگوں اور وریدوں میں بہتے محسوس کر سکتا تھا۔ میرے پیچھے پتھروں کا ایک ٹاپو سا تھا جہاں گھانگ چھے چھوٹی چھوٹی آبجوؤں میں بٹ کر لہراتا ہوا پتھروں کے جزیروں کے بیچ سے گرتا تھا اور کنارے پر کھڑے اخروٹ اور خوبانی کے درخت ٹھنڈی ہوا میں لہراتے تھے۔ ایک بڑا سا درخت یہ منظر قریب سے دیکھنے کے لیے ذرا آگے جھک کر پانی کے اوپر سایہ کرتا تھا اور اس کے شاخسار کبھی دھوپ اور کبھی چھاؤں مجھ پر بکھیرتے تھے۔ ذرا سا دور جہاں یہ بہتا نالہ یا آبشار دریائے شیوک میں ضم ہوتا تھا‘ وہاں نیلگوں اور مٹیالے پانی کچھ دیر تک ایک دوسرے کا رنگ قبول نہیں کرتے تھے لیکن چند فرلانگ کے بعد ایک مشترکہ رنگ دونوں کو یک جان کرکے آگے چل پڑتا تھا۔ یہ مسافر صدیوں سے اسی طرح رواں ہے اور ہزاروں میل سفر کرنے کے بعد بھی نہ تھکتا ہے نہ اس کا حسن ماند پڑتا ہے۔
بلتستان کا حُسن بالکل اور طرح کا ہے۔ تضادات سے پُر اور سب سے بڑا تضاد شاید بنجر پن اور ہریالی کا ہے۔ دونوں بھر پور موجودگی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلسل ہم آغوش رہتے ہیں۔ جب میں نے ایک نظم میں لکھا تھا کہ
ہریالی اک حد سے آگے بنجر ہوتی جاتی ہے
تو مجھے علم نہیں تھا کہ تضادات کے ایک دوسرے کے پہلو میں آ لیٹنے سے کیسے الگ طرح کا حُسن جنم لیتا ہے۔ یہاں بھی بنجر پن کی ہریالی اسی طرح میرے سامنے تھی۔ اس وسیع فضا میں جابجا یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ دو بنجر سر بفلک نیم برف پوش پہاڑوں کے نقطۂ اتصال اور گھاٹی سے چاندی کی طرح ایک آبشار گرتی نظر آتی ہے اور یہ پہاڑی دریا اور نالہ اپنے ساتھ زرخیزی اور نمو لیے چلتا ہے۔ نیچے دریا میں گرنے سے پہلے وہ اپنے ارد گرد کو اتنا سرسبز اور شاداب کر چکا ہوتا ہے کہ دور سے وہ پوری وادی بنجر سمندر میں ایک ہرے جزیرے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ ہم سکردو سے خپلو جا رہے تھے اور انہی مناظر سے آنکھیں سیراب کر رہے تھے۔ خپلو سکردو سے تین گھنٹے کی مسافت پر بلتستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور بہت سے تاریخی آثار رکھتا ہے۔ راستے میں ایک وسیع وادی میں دریائے شیوک اور دریائے سندھ کا سنگم بھی آتا ہے۔ سیاچین کے قریب رامو گلیشیئر سے پگھل بہنے والا شیوک‘ کیلاس پہاڑ تبت سے سفر آغازکرنے والے سندھ سے اس نقطے پر ملتا ہے اور خود کو سندھ میں ضم کر دیتا ہے۔ سندھ‘ جو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہوتا ہے اور پھر پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اوپر سے نیچے تک لکیر کھینچتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔
خپلودریائے شیوک کے کنارے پہاڑ سے دریا تک اترتی ایک ہری بھری وادی اور شہر ہے۔ گھانگ چھے نامی گلیشیٔر سے برفانی نالہ اس کیساتھ اترتا اور دریا تک جاتا ہے۔ گھانگ یعنی برف اور چھے یعنی پانی‘ اور یہی اس علاقے کا بھی نام ہے۔ اچھے وقتوں میں پی ٹی ڈی سی نے بہت سے پُر فضا مقامات پر اپنے بہترین موٹل بنائے تھے۔ اگر ان کی دیکھ بھال کی جاتی تو بہت سے سیاح یہیں ٹھہرنا پسند کرتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ خپلو کا موٹل اچھی دیکھ بھال کی ایک مثال ہے۔ کمرے مناسب حالت میں ہیں اور صفائی کا انتظام بھی ٹھیک ہے۔ خپلو میں پہاڑ کی بلندی پر چق چن مسجد‘ جس کی نسبت مشہور کشمیری بزرگ میر سید علی ہمدانی کی طرف ہے‘ لکڑی کی پرانی طرزِ تعمیر‘ رنگا رنگ نقاشی اورکھدائی کے خوبصورت کام کی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ الگ دنیا ہے اور خپلو کا قلعہ یعنی تھورسی کھر ایک الگ جہان۔ اس قلعے کو 2005ء میں از سرِ نو اسی طرح کشمیری‘ بلتی‘ تبتی اور لداخی مخلوط انداز میں تعمیر کرکے اس میں ہوٹل اور میوزیم بنا دیا گیا۔ پرانی فضا برقرار ہے اور گائیڈ دستیاب۔ داستانیں اس قلعے کے در و دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں جن کا آغاز اس روایت سے ہوتا ہے کہ 1840ء میں قلعہ موجودہ جگہ سے دور پہاڑ کی مزید بلندی پر تھا۔ راجہ دولت علی خان نے نیا قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا تو پرانے قلعے سے چٹان لڑھکائی گئی۔ ڈوک سائی نامی گاؤں پر جہاں چٹان رُک گئی وہیں نئی تعمیر شروع ہوئی۔ ایک روایتی داستان ختم ہو تو حقیقی داستان اس کا دامن تھام لیتی ہے۔ مارجری بیل نامی انگریز دوشیزہ سکاٹ لینڈ سے ہندوستان نرسنگ کا کورس کرنے آئی۔ غیرمنقسم ہندوستان میں نوجوان ولی عہد فتح علی خان کو دیکھا اور اسے دل دے بیٹھی۔ شہزادہ بھی دل ہار گیا۔ دونوں نے اپنے خاندانوں کی ناراضی کی پروا کیے بغیر شادی رچائی۔ برطانوی قوم ہرگز کھلے دل کی نہیں اور انگلینڈ‘ آئر لینڈ‘ سکاٹ لینڈ اور ویلز کے تمدن اور روایات میں بھی فرق ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پنجاب کی روایات سے پختون روایات مختلف ہیں۔ مارجری بیل کے خاندان نے اسے زندگی بھر معاف نہ کیا۔ ہر قسم کا رابطہ توڑ لیا۔ ان کے لیے ان کی بیٹی مر گئی تھی۔ عشق کی ماری لڑکی تمام عمر انگلینڈ واپس نہ گئی۔ صغریٰ فاطمہ بن کر راجہ کا گھر بسایا۔ اولاد پیدا کی‘ بلتی رہن سہن اختیار کیا‘ زبان سیکھی اور انہی میں رچ بس گئی۔ اسلام آباد میں دفن ہوئی اور پیار کی داستانوں میں ایک اور داستان رقم ہو گئی۔لکڑی اور پتھر کے محل میں جھروکوں‘ کھڑکیوں سے جھانکتے‘ پتھر کی سیڑھیوں پر چڑھتے‘ چھوٹے دروازوں سے جھک کر کمروں میں داخل ہوتے‘ نکلتے اور ان زمانوں میں سانس لیتے ہم نے خود کو خوش نصیب سمجھا کہ ہم نہ مرصع خلعت کے لائق تھے‘ نہ تہہ خانۂ زنداں کے سزا وار۔ شکر ہے کہ ہم وہ لوگ تھے جو نہ اس زمانے میں تھے نہ اس رعایا میں۔ ورنہ محل کی خوشبو سونگھنے کی بھی اجازت نہ ہوتی بلکہ ہم بھی ان خدام میں ہو سکتے تھے جو بقول نوجوان گائیڈ‘ اس محل کی خدمت کرتے نسل در نسل عمریں گزار دیتے اور ساری عمر گزر جانے کے بعد بھی محل کی بالائی منزل تک باریابی کی مجال نہ ہوتی جہاں راجہ اور اس کا گھرانہ رہتا تھا۔
محل کا شکوہ‘ خوبصورتی اور دل کشی اپنی جگہ۔ انسان کو یہ کیا خبطِ عظمت چلا آتا ہے کہ کمروں میں خدام‘ لشکریوں اور وزیروں کے داخلے کے لیے دروازے چھوٹے رکھواتا ہے تاکہ راجہ کے سامنے سرنگوں ہوکر حاضر ہوں۔ ایک انسان دوسرے کے سامنے دیوتا بن کر راج سنگھاسن پر بیٹھتا اور اپنی پرستش کرواتا ہے اور یہی اپنی عظمت جانتا ہے۔ وہ سب جاہ و حشم‘ لشکری گھوڑے‘ چترو علم خاک ہوئے‘ دور کھڑے تھرانے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ راجہ زیر زمین جا سوئے اور جھک کر پیش ہونیوالے ان کی مٹی پر پاؤں دھر کر گزرتے ہیں۔ تھورسی کھر محل‘ خپلو کی سب سے اونچی منزل پر چوغو رفتال یعنی شاہی خاندان کی ملاقات کے کمرے میں شفاف سفید چاندنیوں اور گاؤ تکیوں کے ادھر منقش لکڑی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے میں نے چار منزل نیچے خوبانی‘ ناشپاتی اور سیب سے لدے پیڑ دیکھے۔ وسیع باغیچے پر نظر جمائی۔ میٹھے پانی کے چشمے کی آواز سنی اور خود کو خوش نصیب سمجھا کہ میں اس عہد میں پیدا نہیں ہوا۔