"SUC" (space) message & send to 7575

گھر کے آنگن میں مدفون خزانہ …(2)

ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر کو دریافت ہوئے چھیالیس سال گزر چکے۔ اس پر 1993ء میں ابتدائی کام کے آغاز کو بھی 31 سال گزر گئے۔ میں درمیان کے بے شمار ماہ و سال اور داستانیں چھوڑ کر حال کی طرف لوٹتا ہوں۔ ریکوڈک کی تانبے اور سونے کی کانیں کتنی قیمتی ہیں؟ اب کس کمپنی سے کیا معاہدہ ہوا ہے؟ منافع کی تقسیم کس طرح ہوا کرے گی؟ یہ منافع کب ملنا شروع ہو گا؟ اور کتنے سال تک یہ کان کنی ہوتی رہے گی؟ یہ ذخائر کتنی مدت تک نکالنا ہوں گا؟ اور فیصلہ ساز کیوں چاہتے ہیں کہ کچھ اور عالمی طاقتیں اس منصوبے میں حصے دار بنیں؟ یہ سب سوال اہم ہیں۔
پاکستان کے سر پر جب چھ ارب ڈالر جرمانے کی تلوار لٹک رہی تھی تو اُس وقت اس کہانی میں ایک بڑے کردار کا اضافہ ہوا۔ بیرک گولڈ کارپوریشن کینیڈا کی ایک عالمی کمپنی ہے اور سونے کی کانوں کی کھدائی میں دنیا کی سرفہرست کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان اور ٹی سی سی (ٹیتھیان کاپر کمپنی) آپس میں اس معاہدے کی قانونی جنگ میں الجھے ہوئے تھے اور کھدائی کھٹائی میں پڑ چکی تھی‘ جب بیرک گولڈ کمپنی نے اس معاملے میں دلچسپی لینی شروع کی تو اس کے بعد ڈرامے نے ایک نیا موڑ لیا۔ قانونی تفصیلات میں گئے بغیر خلاصہ یہ ہے کہ بیرک گولڈ نے جرمانے کی رقم ختم کروا دی‘ ٹی سی سی اس منصوبے سے باہر نکل گئی اور پاکستان سے بیرک گولڈ کا نیا اور ازسرنو معاہدہ ہوا۔ بیرک گولڈ بنیادی سرمایہ کار کمپنی تھی جبکہ چلی کی Antofagasta بھی معاملے میں شریک تھی۔ بعد ازاں انٹوفاگسٹا 945 ملین ڈالر لے کر پاکستان کی تین وفاقی کمپنیوں کے حق میں اپنے حصے سے دستبردار ہو گئی۔ بیرک گولڈ سابقہ معاملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بار اس معاملے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی مہر تصدیق بھی چاہتی تھی۔ یہ تمام شرائط پوری ہوئیں اور وہ معاہدہ طے پا گیا جس کا بے چینی سے انتظار تھا۔
معاہدہ یہ طے پایا کہ بیرک گولڈ کمپنی دو مراحل میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اندازہ ہے کہ 27173 ملین پاؤنڈ وزن کا سونا کان میں موجود ہے۔ نیز ریکوڈک میںکل سات کھرب ڈالر کی معدنیات کی موجودگی کا امکان ہے۔ (مالیت کے تخمینوں میں کمی بیشی اور فرق بین الاقوامی منڈی میں تانبے اور سونے کی قیمتوں کے سبب ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تانبے کی قیمت 10 ہزار ڈالر فی ٹن تھی جو کم ہو کر چار ہزار ڈالر فی ٹن ہو گئی) کھدائی سے حاصل ہونے والے منافع میں بیرک گولڈ کا حصہ پچاس فیصد‘ وفاق پاکستان کا حصہ تین وفاقی کمپنیوں‘ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی‘ پاکستان پٹرولیم اورگورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے 25 فیصد ہو گا۔ ان تینوں وفاقی کمپنیوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں اور مختلف حصص ہیں۔ بقیہ 25 فیصد حصہ حکومت بلوچستان کا ہو گا؛ تاہم بلوچستان کے اس پچیس فیصد حصے میں 15 فیصد پر سرمایہ کاری وفاقی حکومت کرے گی جبکہ دس فیصد حصہ بغیر کسی مالی ذمہ داری کے ہو گا۔ رائلٹی کی مد میں کمرشل پیدوار شروع ہونے سے پہلے بیرک گولڈ حکومت بلوچستان کو پچاس ملین ڈالر ادا کرے گی‘ اس کے علاوہ سماجی بہبود کے 70 ملین ڈالر کے منصوبوں پر بھی سرمایہ کاری کرے گی۔ منصوبے کا پہلا حصہ‘ جو دراصل 2010ء اور 2011ء کی فیزیبلٹی کی توسیع کا کام ہے‘ رواں سال مکمل ہو جائے گا اور 2028ء سے پیداوار شروع ہو جائے گی۔ 2028ء سے 2032ء تک سالانہ تقریباً سات ہزار کلوگرام سونا اور 19 کروڑ کلوگرام تانبے کی پیداوار متوقع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تانبے اور سونے کی سالانہ پیداوار آٹھ کروڑ ٹن ہو سکتی ہے۔ اس کان کی عمر 40 سال کے لگ بھگ متوقع ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس دوران اسی علاقے یا ملحقہ علاقوں میں مزید معدنیات یا دیگر ذخائر کا سراغ ملے اور اس کا دورانیہ اور دائرہ کار وسیع ہو جائے۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایک اندازے کے مطابق 2050ء میں دنیا کو 650 ملین میٹرک ٹن تانبے کی ضرورت ہو گی۔ اس لیے کان کی مالیت اس وقت کی ضرورت کے مطابق بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ جہاں تک رقبے کا تعلق ہے‘ ایکسپلوریشن لائسنس 350 سے 400 مربع کلومیٹر کا ہے جبکہ کان کا رقبہ 80 سے 120 کلومیٹر ہو گا۔
بیرک گولڈ کے انجینئرز نے سائٹ پر کام شروع کر دیا ہے اور مقامی لوگوں کی بھرتی بھی شروع ہو چکی ہے۔ ابتدائی طور پر ساڑھے سات ہزار ملازمین رکھے جائیں گے۔ پیداوار شروع ہونے پر یہ تعداد چار ہزار ہو جائے گی۔ ترجیح مقامی افراد کی ہو گی۔ مقامی ماہرین بھی شریک رکھے جائیں گے۔ بیرک گولڈ کے مارک بریسٹو نے خوش کن اعلانات کیے ہیں۔ ان کے مطابق ''کمیونٹی کے ساتھ خوشگوار اور بااعتماد تعلقات کا قیام اور ان کی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہو گی اور طے کیے گئے معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ کمپنی مقامی لوگوں پر سرمایہ کاری کرے گی‘ پرائمری تعلیم‘ فنی تربیت اور نوجوانوں کو متعلقہ شعبے میں اعلیٰ تعلیم فراہم کی جائے گی۔ بیرک گولڈ صرف ریکوڈک میں سرمایہ کاری کیلئے نہیں آئی بلکہ بلوچستان کو سرمایہ کاری کیلئے دنیا کے سامنے کھولنا بھی ہماری ترجیح ہے‘‘۔
گویا پاکستان کو ابتدائی رقم کیلئے کم از کم 2028ء تک انتظار کرنا ہو گا جب یہ کان سونا اگلنا شروع کرے گی۔ چالیس‘ پچاس سال کے انتظار کے بعد یہ چار سال بھی گزر ہی جائیں گے۔ یہ حقیقت دلخراش ہے کہ ہمارے حصے میں صرف نصف خزانہ یا شاید اس سے بھی کم آئے گا لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اور کوئی صورت ممکن ہی نہیں تھی۔ پاکستان اپنے طور پر یہ معدنیات نکال نہیں سکتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ معاہدہ طے ہو گیا تو پاکستان کیوں چاہتا ہے کہ کچھ مزید غیر ملکی سرمایہ کار مثلاً سعودی عرب اس منصوبے میں شریک ہو جائیں۔ مصری ارب پتی نجیب سوارس کا میں پہلے ذکر کر چکا کہ وہ بھی اس منصوبے میں حصے دار بننا چاہتے ہیں۔ بیرک گولڈ یہ اعلان پہلے ہی کر چکی ہے کہ اسکے حصص برائے فروخت نہیں‘ تو پاکستان اپنے حصص فروخت کر کے انہیں کیوں راغب کرنا چاہتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بہت سی غیر ملکی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن ہو اور وہ مالی فائدے کے ایسے منصوبے مکمل کر سکے۔ بھارت یہ نہیں چاہتا کہ بلوچستان میں امن رہے اور ریکوڈک کا منصوبہ بلوچوں کیلئے بہتری کا پیغام لا سکے۔ ریکوڈک کا علاقہ یوں بھی پاکستان‘ افغانستان اور ایران کی سرحدی تکون ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ انجینئرز اور کان کن کسی خطرے کے بغیر کام کر سکیں۔ اگر اس منصوبے میں کچھ غیر ملکی سرمایہ کار مثلاً سعودی اور مصری بھی شامل ہو جاتے ہیں تو یہ اس منصوبے کے تحفظ کا ایک بڑا طریقہ ہو گا۔ سعودی‘ چینی اور مصری اپنے مالی مفادات کا دفاع کریں گے۔ اس طرح بیرک گولڈ سمیت اس منصوبے میں عالمی طاقتوں کے مفادات مل جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ریکوڈک کے قریب ہی سیندک نامی علاقے میں چینی کمپنیاں تانبے کی ایک کان پر پہلے ہی کام کر رہی ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر سعودی عرب ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے تو یہ رقم پاکستان کو فوری حاصل ہو سکتی ہے‘ جو پاکستان کی ضرورت ہے۔ ریکوڈک کو گوادر کی بندرگاہ سے ریل اور سڑکوں کے ذریعے ملانے پر بھی کام کیا جا رہا ہے کیونکہ تانبے اور سونے کے اس ملے جلے آمیزے کو مزید پراسیس سے گزارنا بھی لازمی ہو گا۔ اگر ریکوڈک کا دور دراز علاقہ گوادر سے جڑ جاتا ہے تو یہ بھی مقامی مواصلات اور انفراسٹرکچرکا ایک بڑا فائدہ ہو گا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ سار امنصوبہ ٹھیک طریقے سے تکمیل تک پہنچتا ہے تو پاکستان کو بیشمارمالی فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک لحاظ سے یہ ملکی اور صوبائی تقدیر بدلنے کا منصوبہ ہے۔ ہم سب اس کنویں کنارے بیٹھے ہیں‘ کدالوں اور پھائوڑوں کی آوازیں سُن رہے ہیں اور اور اس لمحے کے منتظر ہیں جب چھن چھن کرتی سنہری اشرفیاں نمودار ہوں گی۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں