"SUC" (space) message & send to 7575

طوفان کے بعد یا طوفان سے پہلے ؟

سیاست اور ملکی حالات پر نظر کریں تو ایک ٹھہراؤ سا دکھائی دینے لگا ہے۔ یہ سکوت طوفان کے بعد کا ہے یا پہلے کا۔یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن پریس کانفرنسوں ‘گرفتاریوں‘ انتخابات‘ انتخابی اتحاد‘ الیکشن کمیشن ‘ سپریم کورٹ‘ فارم 45 اور فارم 47 کے شور ہنگامے کے بعد یہ سکون بظاہر اگلے مہینوں تک پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت حکومت کی پوری توجہ بجٹ اور دیگر معاملات کی طرف ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے معاملات کے لیے ایک دو وزیر وقف کردینے کے بعد اب اسے زیادہ پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔ حکومت کی پریشانیاں کیا ہوتی ہیں ؟ عوامی ردِ عمل اور گلی کوچوںمیں احتجاج‘ ریلیاں‘ دھرنے وغیرہ۔ ان میں سے فی الحال تو کچھ بھی نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ بھی بظاہر ہوجائے گاتو حکومت اور مطمئن ہوجائے گی۔ سب سے بڑا خطرہ بلکہ تلوا ر مسلم لیگ (ن) او رپیپلز پارٹی کے سر سے قدرت نے ہٹا لی ہے جو بانی پی ٹی آئی کی صورت میں کم از کم ایک عشرے سے لٹکی ہوئی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنسوں اور احتجاجی تحریک کے اعلان کے باوجود وہ کوئی بڑا خطرہ بننے کے قابل نہیں ہیں۔ اب اگر مڑ کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن سے کام لیا گیا اور اب وہ فارغ ہیں۔ ان کی امامت میں سب نے پی ٹی آئی مخالف صفیں بنائیں۔ جب کام نکل گیا تو مولانا اکیلے کھڑے ہیں۔ امام بھی وہی ‘ مقتدی بھی وہی۔ تحریک انصاف نے انہیں منانے کی کافی کوشش کی ہے۔کئی وفود ان کے پاس گئے ہیں لیکن خود مولانا کے بقول اختلافات اور ماضی کے واقعا ت کا ایک پہاڑ راہ میں کھڑا ہے جسے ہٹانا آسان نہیں ۔ تحریک انصاف‘ جے یو آئی ملاقاتوں کا فی الحال حاصل یہی لگتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے اپنے سیاسی فوائد کے لیے مل رہے ہیں۔ مولانا حکومت کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر مزید خطرناک ہوسکتا ہوں اور پی ٹی آئی اس لیے کہ مولانا کی حمایت سے ان کی تنہائی بھی دور ہوگی اور عوامی احتجاج سے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی شاید ممکن ہو جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی ساتھ چل سکتے ہیں۔ دونوں کے مزاج اور افتادِ طبع میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے اور ماضی کے زخم بھی مندمل ہونا آسان نہیں۔
یہ بات (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی بھی سمجھتی ہیں اسی لیے انہوں نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔فی الحال وہ اس حکومت کے مزے لے رہے ہیں جسے مخالف فارم 47کی حکمرانی کہتے ہیں۔ ان کے تماشے میں وہ منظر بھی شامل ہوچکے ہیں جو پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کے ہیں ۔ ایک نیا تماشا اس ٹویٹ کا ہے جو بانی پی ٹی آئی کے ایکس ہینڈل سے کی گئی۔ وضاحت در و ضاحت کے بعد یہ واضح ہے کہ مقدمات میں ایک اور مقدمے کا ضافہ ہوا چاہتا ہے۔ یہ ٹویٹ اسی ذہن کا پتہ دیتی ہے جس نے پارٹی کو 9 مئی کی کھائی تک پہنچایا تھا۔ اس جارحانہ طرزِ عمل نے تحریک انصاف کو اس گرداب میں ڈال رکھا ہے جس میں وہ پچھلے سال سے چکر ارہی ہے۔اس کی طر ف سے 9مئی کی جتنی وضاحتیں کی گئی ہیں انہیں مقتدرہ نے رد کیا ہے۔حالیہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ بھی اسی مؤقف کا تسلسل ہے۔
تحریک انصاف جس بھنور میں ہے‘اس سے نکلنا آسان نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کے بانی کا مزاج اور سیاسی سوچ ہے۔ایک جماعت کو ملک کی مقبول ترین جماعت کی مسند پر لا کھڑا کرنا بھی انہی کا کارنامہ تھا اور اسے اس مسند سے کھائی میں دھکیل دینا بھی انہی کے سر ہے۔وہ اب تک اس ذہن سے سوچتے ہیں کہ وہ مقبول ترین رہنما ہیں اور1971ء کے واقعات کا حوالہ دے کر اور اپنی گرفتاری کو اس سے جوڑ کر مقتدرہ کو دباؤ میں لا سکتے ہیں۔ یہ سوچ درست نہیں۔ اُن کی مقبولیت میں شک نہیں لیکن وہ وقت گزر گیا جب وہ دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں تھے۔ اگر مقتدرہ نے ان کی سرپرستی سے الگ ہونے اوران کے دباؤ میں نہ آنے کا فیصلہ نہ کرلیا ہوتا تو وہ اقتدار سے الگ ہی کیوں ہوتے۔ اس مشکل وقت سے نکلنے کی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہ تھی کہ ایک طرف عدالتوں سے قیدیوں کی رہائی اور مقدمات پر ریلیف لیا جائے دوسری طرف انتخابات میں دھاندلی کو عدالت میں ثابت کرکے انہیں کالعدم کروایا جائے۔ تیسری طرف عوامی ردِ عمل کے ذریعے حکومت اور فیصلہ سازوں پر دباؤ بڑھا یاجائے۔ چوتھی سمت خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے ذریعے وفاق کو تنگ کیے رکھنے کی ہے۔ یہ سب کوششیں اب تک بارآور نہیں ہوئیں ۔ کچھ مقدمات میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی سے ریلیف ملنے کے باوجودچودھری پرویز الٰہی کے علاوہ کو بڑا رہنما رہا نہیں ہو سکا۔ چودھری پرویز الٰہی کی رہائی کے بعد بھی اب تک سکوت ہے۔ اس عمر اور صحت کے مسائل کے باوجود جناب پر ویز الٰہی نے صبر کے ساتھ جیل کاٹی۔انہوں نے استقامت اور توازن کا ثبوت دیا کہ نہ عمران خان کے خلاف کوئی پریس کانفرنس کی اور نہ مقتدرہ کے خلاف کوئی بات کہنے پر آمادہ ہوئے۔موجودہ حالات میں یہ معمولی بات نہیں۔ پس منظر میں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ پرویز الٰہی کے مقتدرہ مخالف بیانیے کو درست کرنے اور پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے کے صائب مشورے بالکل نہیں مانے گئے تھے۔ اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ کس خاموش معاہدے کے تحت رہا ہوئے ہیں۔ بہرحال اس کے بعد سے اب تک ان کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ کوئی ایسی خبر بھی سامنے نہیں آئی کہ بطور صدر اُن سے پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں نے ملاقات کی ہو۔وہ رہائی کے بعد پی ٹی آئی کے لیے کیا اور کتنا کام کرسکیں گے یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے۔پی ٹی آئی میں اس وقت جذباتی نوجوانوں کی بڑی اکثریت ہے۔ اس لیے پارٹی میں موجود شکرے پرویز الٰہی کے متوازن طرزِ عمل کو زیادہ پسند نہیں کرسکتے۔شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر یاسمین راشد ابھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔اس پیرانہ سالی اور صحت کے سنگین مسائل کے ساتھ انہوں نے بڑے صبر کے ساتھ حالات کا سامان کیا ہے۔ویسے تو پی ٹی آئی کے وکلاکئی بار یہ بیان دے چکے ہیں کہ رہنما بہت جلد رہا ہو جائیں گے‘ لیکن شاہ محمود قریشی اور یاسمین راشد کا معاملہ ابھی معلق ہے۔ اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جماعت کے بانی کی رہائی میں تریاق از عراق والی تاخیر ہوگی۔ عدلیہ بظاہر مقتدر حلقوں کے دباؤ سے باہر آتی دکھائی دیتی ہیں لیکن کیا سب مقدمات میں ریلیف دے سکیں گی؟ اور کسی مقدمے میں رہائی کا حکم ہوبھی جائے تو کیا نئے مقدمات نہیں بنائے جا سکتے؟ میرے خیال میںبانی پی ٹی آئی کی رہائی جلد متوقع نہیں۔
سمندر میں ٹھہراؤ ہے لیکن کب تک ‘کہنا مشکل ہے۔ سکون ہے لیکن طوفان سے پہلے کا یا بعد کا؟کہا نہیں جاسکتا۔ اس سخت گرمی میں بھی برف پگھلے گی یا نہیں؟پی ٹی آئی رہنما رہا ہوں گے یا نہیں؟بڑے سوال ہیں لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنا مزاج بدلیں گے یا نہیں ؟ وہ اپنی غلطیاں درست کریں گے یا نہیں ۔سب سے بڑا سوال یہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں