ان دنوں بحر الکاہل کنارے بسا ہوا خوبصورت‘ مالدار اور مشہور ترین شخصیات کا مسکن شہر لاس اینجلس جل رہا ہے اور کیلیفورنیا کی اہم اور بڑی ریاست آزمائش میں گھری ہوئی ہے۔ 16 ہلاکتیں تو متعین ہیں لیکن بہت سی جگہوں پر جانا ممکن ہی نہیں اس لیے یہ بعد میں تعین ہو سکے گا کہ ہلاکتیں دراصل ہیں کتنی۔ 12ہزار 300 سے زیادہ گھر اور تنصیبات جل کر راکھ ہو چکی ہیں اور 67 ہزار سے زیادہ تعمیرات خطرے میں ہیں۔ 36 ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ آگ لاس اینجلس بلکہ پوری ریاست کیلیفورنیا کی بھیانک ترین آگ ہے۔ غیر معمولی تیز وتند ہوائوں نے اسے قابو کرنے کی ہر امید خاک میں ملا دی ہے۔ پورے کے پورے محلے اور بستیاں راکھ کر دینے کے بعد بھی یہ آگ زیادہ تر جگہوں پر ابھی تک بے قابو ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب تک صرف آٹھ فیصد آگ پر قابو پایا جا سکا ہے۔ یہ آگ کہنے کو ایک ہے‘ دراصل یہ مختلف آگوں کا سلسلہ ہے جو ایک ساتھ بھڑک اٹھی ہیں۔ یہ آگ کس طرح لگیں یا دانستہ لگائی گئیں‘ تحقیقات جاری ہیں اور کم از کم تین جگہوں کی آگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ انسانی لگائی ہوئی آگ ہے‘ خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ کیلیفورنیا انتظامیہ پر شدید تنقید جاری ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے گورنر کیلیفورنیا کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ناقص انتظامات کی تحقیقات الگ چل رہی ہیں۔
آگ لگی کیسے اور کیوں؟ مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیلیفورنیا میں یہ غیر معمولی خشک سیزن ہے‘ صحرا کی طرف سے چلنے والی تند ہوا پودوں اور درختوں سے نمی چوس کر خشک کر دیتی ہے۔ جان بوجھ کر آگ لگانا بھی امکانات میں سے ہے اور کچھ مشکوک لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تاریں بھی آگ پیدا کرنے کا سبب ہو سکتی ہیں۔ ایک بار شعلہ بھڑک گیا تو تیز ہوائیں اس کا میلوں تک پہنچنا آسان کر دیتی ہیں۔ تیز ہوا ابھی بدستور ہے‘ نیز بارش کا کوئی فوری امکان نہیں۔ 7 جنوری کو پہلی آگ کی خبر ملی تھی۔ پھر یہ پھیلتی گئی۔ کم ازکم چھ علاقوں میں یعنی چھ آگوں کا یہ سلسلہ آرچر‘ ایٹن‘ ہرسٹ‘ کینیتھ‘ لیڈیا اور پیلی سیڈزکی آگوں کے نام سے بیان کیا جا رہا ہے۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں سے صرف جان بچا کر نکل سکے۔ اتنی مہلت بھی نہیں ملی کہ ضروری اور اہم چیزیں اٹھا سکتے۔ ایک طرف یہ صورتحال تھی اور دوسری طرف سڑکوں اور گلیوں کی لوٹ مار اور دھوکے بازی سے متاثرین سے مال بٹورنے کا عمل شروع ہو گیا۔ کیلیفورنیا کی گورنر نے متنبہ کیا کہ لوٹ مار برداشت نہیں کی جائے گی لیکن قدرتی اور ناگہانی آفات میں پورے امریکہ کی تاریخ میں لوٹ مار ان حادثوں کا ہمیشہ حصہ رہی ہے۔ ہم جیسے کم ترقی یافتہ یا کم وسائل والے ملکوں کے لوگ یہ بات بہت حیرت سے پڑھ رہے ہیں کہ فائر بریگیڈ کے عملے کے پاس پانی اور آگ بجھانے والے محلول کم تھے یا بہت جلد ختم ہو گئے۔ دوسرے یہ کہ اتنے بڑے پیمانے پر لگی ہوئی آگ کیلئے عملہ بہت کم تھا۔ یہ ناقص انتظامات اس لیے بھی حیران کن ہیں کہ اس علاقے میں پہلے بھی بڑے پیمانے پر آتشزدگی ہوتی رہی ہے۔
لاس اینجلس نیویارک کے بعد آبادی کے لحاظ سے امریکہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ 1300 مربع کلومیٹر پر ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والی لاس اینجلس کاؤنٹی ہالی وُڈ اور شوبز کی مشہور ترین شخصیات کا علاقہ ہے۔ فی مربع میل آبادی بہت زیادہ نہیں اس لیے شہر بہت پھیلا ہوا ہے۔ اور نواحی بستیاں اور پہاڑیوں پر بسی آبادیاں ملا کر یہ وسیع رقبہ بن جاتا ہے۔ فی مربع کلومیٹر 3168 افراد کی آبادی بتائی جاتی ہے۔ اگر یہاں فی مربع کلومیٹر گنجان آبادی ہوتی تو جانی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا تھا۔ اس نہایت مالدار کاؤنٹی میں‘ جہاں پہلے بھی جنگلی آگ کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور جہاں کی آب وہوا خشک مہینوں میں آتشزدگی کیلئے موزوں ترین ہوتی ہے‘ یہ ناکافی انتظام بتاتے ہیں کہ دور سے دیکھنے پر کسی شہر کا تاثر اور ہوتا ہے اور آزمائش آ پڑنے پر سب بھرم کھل جاتا ہے۔ میں لاس اینجلس واٹر اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ کے سابق جنرل منیجر مارٹن ایڈمزکا بیان حیرت سے پڑھ رہا ہوں جو کہتے ہیں کہ لاس اینجلس کا پانی کا نظام ایسی آگ سے نمٹنے کیلئے کبھی بنایا ہی نہیں گیا جو بہت بڑی آبادی کو لپیٹ میں لے لے۔ ایڈمز کہتے ہیں کہ پیلی سیڈ ایریا میں کسی گھر یا عمارت یا اپارٹمنٹ بلڈنگ کی آگ بجھانے کیلئے تو کافی پانی کے گیلن میسر ہوتے ہیں۔ لیکن آگ اتنے بڑے پیمانے پر لگی ہو اور 10 سے زیادہ فائر یونٹ بیک وقت پانی کھینچ رہے ہوں تو یہ پانی بہت کم ہے۔ آگ بجھانے والے محلول اور پانی پھینکنے کی دوسری صورت ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہو سکتی تھی لیکن7 اور 8 جنوری کو یہ اُڑ نہیں سکے۔ اتنی شدید ہواؤں میں انہیں اڑانے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا؛ چنانچہ انحصار صرف زمینی عملے پر رہ گیا۔ پانی اور بجلی کے ڈیپارٹمنٹ کی چیف ایگزیکٹو اور چیف انجینئر جینیسے کوئینونیز (Janisse Quinnonese) نے بتایا کہ پانی کے صرف تین بڑے ٹینک تھے جن میں ہر ایک دس لاکھ گیلن کا تھا۔ ان کا پانی نچلی سطح یا کم بلندی پر تو کام کر سکتا تھا لیکن بلند پہاڑی علاقوں میں مثلا پیلی سیڈز میں یہ پانی پہنچانے سے قاصر تھے چنانچہ یہ بیکار ہو گئے۔ اس کے علاوہ جب پیسفک پیلی سیڈز میں آگ لگی تو پانی کا ایک ٹینک مرمت کیلئے بند اور خشک تھا۔ اس پر مزید یہ ہوا کہ بجلی کا نظام ختم ہو گیا۔ ہوا اتنی غیر معمولی تیز اور شدید تھی کہ چند لمحوں میں آگ میلوں دور تک پہنچا رہی تھی۔ سو اگر پانی ہوتا‘ تب بھی ایسی آگ فائر بریگیڈ کے بس سے باہر تھی۔
پیسفک پیلی سیڈز جہاں بدترین آگ لگی وہ مہنگا ترین علاقہ ہے جہاں شوبز کے مشہور ترین لوگ رہتے ہیں۔ اس پہاڑی بستی میں بلندی سے بحر الکاہل کا منظر حسین ہوتا ہے۔ اور پہاڑی ڈھلانوں پر چوٹی سے زمین تک نہایت قیمتی گھروں کی قطاریں ہیں۔ جنگل‘ پہاڑ‘ سمندر اور ہوا کا یہ سنگم اسے باقی لاس اینجلس سے منفرد بناتا ہے؛ چنانچہ امیر ترین اور نامور ترین لوگ یہاں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ یہ سارا علاقہ تقریباً راکھ ہو چکا ہے۔ پیرس ہلٹن‘ انتھونی ہاپکنس‘ میل گبسن‘ جان گڈمین ان نامور ترین لوگوں میں سے چند نام ہیں جن کے گھر جل کر راکھ ہوئے۔ اندازاً 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان سہی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ مغربی ملکوں میں گٹر کے ڈھکن اور پائپ تک انشورڈ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر متاثرہ کا ذاتی مالی نقصان توجلد یا بدیر پورا ہو ہی جائے گا اور امریکہ جتنی بڑی معاشی طاقت ہے‘ باقی کسر حکومت پوری کر دے گی لیکن وہ قیمتی‘ یادگار چیزیں جن سے کسی کا ذاتی تعلق ہو اور وہ راکھ ہو چکی ہوں‘ ان کی کمی کیسے پوری ہو گی۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے۔ گھروں‘ شہروں اور علاقوں سے زیادہ تر امریکیوں کا جذباتی تعلق بہت کم ہوتا ہے۔ وہ بآسانی کسی نئے شہر‘ نئے گھر میں منتقل ہو جاتے ہیں‘ بس پیسہ ہاتھ میں ہونا شرط ہے۔ وہ نہ رشتے ناتے پالتے ہیں‘ نہ اشیا ان کیلئے جذباتی وابستگی کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ ہم مشرق نژاد لوگوں کا مسئلہ ہوتا ہے جنہیں بہتر گھروں میں رہ کر بھی زندگی بھر اپنے آبائی گھر‘ نانا نانی اور دادا دادی کے گھروں کے خواب آتے رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کیلئے رشتے ناتے بھی عزیز ترین ہوتے ہیں‘ تعلقات بھی اور یادگار اشیا بھی۔ ہمارے زخم بھی زیادہ اور گہرے ہوتے ہیں۔
ہمارے جذباتی تعلق کو مغربی ذہن پوری گہرائی کے ساتھ ناپ ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ملکوں میں جہاں نہ گھر انشورڈ ہوتے ہیں‘ نہ حکومتوں میں اتنی سکت ہے کہ وہ کسی کا ذاتی نقصان پورا کر سکیں‘ کسی کی جھونپڑی بھی راکھ ہو جائے تو زندگی بھر کیلئے اس کا زخم رہ جاتا ہے۔ ایسے میں کئی امریکیوں کو اپنے نقصان پر روتے دیکھتا ہوں توخیال آتا ہے کہ انسان اپنے گھر‘ اپنی چیزوں سے کتنا بھی غیر جذباتی تعلق رکھے‘ بچھڑنا بہرحال زخم دیتا ہے۔ ناگہانی کی آگ انسانی جنگل میں بھڑک اٹھے تو پانی کے ذخیرے کم پڑ جاتے ہیں۔ آنسو بھلا کتنی آگ بجھا سکتے ہیں؟