"SUC" (space) message & send to 7575

غزہ۔ ہولناک 15ماہ اور جنگ بندی

کیا غزہ کے قیامت خیز دن ختم ہو گئے؟ کیا یہ خطہ امن اور سلامتی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا آئندہ دنوں میں فلسطینیوں کو امن اور چین سے رہنا نصیب ہو گا؟ کیا مرد و خواتین اپنے کاروبارِ حیات میں مشغول ہو سکیں گے؟ بچے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دوبارہ داخل ہو سکیں گے؟ بیماروں اور زخمیوں کا غزہ اور بیرونِ غزہ علاج ممکن ہو سکے گا؟ یہ سب اہم سوال ابھی سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ابھی تاریک سرنگ میں روشنی نظر آنے کے باوجود روشنی تک بہت فاصلہ ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب یہ روشنی پھر مسدود ہو جائے۔معاہدے پہلے بھی ہوتے رہے‘ یقین دہانیاں پہلے بھی کرائی جاتی رہیں لیکن فلسطین کی تاریخ گواہ ہے کہ معاہدوں کے باوجود فلسطینی عذاب سے گزرتے رہے۔ اس لیے اسرائیل‘ حماس نیا معاہدہ اگرچہ خوش کن ہے لیکن اس سے بہت توقعات وابستہ کر لینا درست نہیں ہو گا۔
468قیامت خیز دنوں کے بعد حماس‘ اسرائیل جنگ اختتام کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دہانے پر اس لیے کہ ابھی اسرائیلی کابینہ نے اس کی منظوری نہیں دی؛ اگرچہ اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کی طرف سے معاہدہ ہو چکا‘ تاہم کابینہ کا اجلاس‘ جو جمعرات کو ہونا تھا‘ جمعہ تک مؤخر ہوگیا تھا۔ نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحادیوں نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور اب معاملہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے کورٹ میں ہے۔ بظاہر اس کی منظوری ہو جائے گی اور معاہدہ مؤثر ہو جائے گا۔
بنیادی طور پر معاہدہ تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔ اس پر عمل درآمد اتوار کے دن سے شروع ہو گا اور تین مہینے میں اس کی تکمیل ہو گی۔ اس میں چار اہم نکات شامل ہیں: عارضی لیکن فوری جنگ بندی۔ غزہ میں انسانی امداد کی فوری فراہمی۔ اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا۔ فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی۔ پہلا مرحلہ تین ہفتوں پر مبنی ہوگا اور اس میں محدود پیمانے پر قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔ اسرئیلی فوج کا جزوی انخلا ہوگا اور امدادی سامان کو غزہ میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ 33 اسرائیلی قیدیوں(عورتوں‘ بچوں اور50 سال سے زائد العمر) کو رہا کیا جائے گا۔ بدلے میں اسرائیل ایک ہزار کے لگ بھگ فلسطینی قیدی رہا کرے گا‘ جو سات اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے۔ اسی مرحلے میں اسرائیلی فوج غزہ سے باہر کم ازکم 700 میٹر کے فاصلے پر چلی جائے گی۔ تاہم شمالی اور جنوبی غزہ کے بیچ نتزرائم (Netzarim) راہداری اس سے مستثنیٰ ہو گی۔ اس راہداری سے اسرائیل غزہ کے دونوں حصوں میں آمد ورفت کنٹرول کرتا ہے۔ یہاں سے اسرائیلی انخلا اگلے مرحلوں میں بتدریج ہو گا۔ شمالی غزہ میں فلسطینی اپنے گھروں میں واپس جائیں گے اور روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو آنے کی اجازت ہو گی۔ مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد رفح کو پہلے مرحلے کے آغاز کے سات دن بعد کھول دیا جائے گا۔ اسرائیلی فوجی فلاڈیلفیا راہداری میں‘ جو مصر اور غزہ کا سرحدی علاقہ ہے‘ اپنی تعداد کم کریں گے اور معاہدے پر عمل درآمد کے بعد زیادہ سے زیادہ 50 دن میں یہ راہداری چھوڑ دیں گے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے بارے میں اصولی سمجھوتا ہو چکا؛ تاہم ان پر عمل درآمد کی تفصیل پہلے مرحلے کے دوران مذاکرات سے طے ہو گی۔ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ پہلا مرحلے کے بعد‘ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں جنگ بندی پر عمل ہوگا۔ تاہم دوسر ی طرف اسرائیل کا اصرار ہے کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اسرائیلی حملوں کو روکنے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ لیکن معاہدہ کرانے والے تینوں ملکوں یعنی مصر‘ قطر اور امریکہ نے حماس کو زبانی یقین دہانی کرائی ہے کہ پہلے مرحلے کے بعد بھی مذاکرات اور جنگ بندی جاری رہے گی۔
دوسرے مرحلے کا معاملہ یہ ہے کہ اگر پہلا مرحلہ بخوبی انجام پا جائے تو حماس باقی اسرائیلی قیدیوں کو بھی رہا کر دے گی‘ جن میں اسرائیلی فوجی بھی شامل ہیں۔ اس کے بدلے میں اسرائیل کا غزہ پٹی سے مکمل انخلا ہو جائے گا۔ اس مرحلے میں دشواری نیتن یاہو کی جانب سے ہے‘ اس کی کابینہ میں دائیں بازو کے لوگ یہ معاہدہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ خود نیتن یاہو کی گزشتہ پوزیشن یہ تھی کہ حماس کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ انخلا سے انکار کرتا رہا۔ تیسرے مرحلے کی تفصیلات ابھی مبہم ہیں۔ بظاہر اس میں قیدیوں کی لاشیں حوالے کی جائیں گی اور بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں تین سے پانچ سال میں غزہ کی تعمیرِ نو کا سلسلہ شروع ہوگا۔ یہ اہم بات معاہدے میں موجود نہیں کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام کون سنبھالے گا۔ امریکہ کا اصرار ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ایک نئی شکل میں یہ انتظام سنبھالے۔ ایک امریکی تجویز یہ بھی ہے کہ عرب ریاستیں غزہ کیلئے دفاعی نظام قائم کریں لیکن سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں ایسا کرے گا جب دو ریاستی معاہدے پر عمل شروع ہو جائے۔ اگرچہ اسرائیل اوسلو معاہدہ (1993ء) میں اس پر آمادہ ہو چکا تھا لیکن اب وہ اس پوزیشن سے پیچھے ہٹ چکا ہے اور اس کیلئے دو ریاستی فارمولا ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔غزہ کا انتظام آئندہ کون سنبھالے گا‘ ابھی اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا۔
ان 468 دنوں میں غزہ پر کون سی قیامت نہیں گزری۔ 23 لاکھ کی آبادی والا یہ علاقہ اب کھنڈر بن چکا ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تقریباً 47ہزار شہادتوں اور 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد زخمیوں کے ساتھ فلسطینیوں نے ایسی بے مثال قربانی دی ہے جس کا موجودہ دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ غذا‘ ادویہ اور ہسپتالوں کی غیر موجودگی میں اللہ ہی جانتا ہے کہ فلسطینیوں نے کس طرح یہ دن گزارے۔ دنیا بھر سے آنے والی امداد تک ان کی رسائی روک دی گئی۔ حماس کے سرکردہ رہنما شہید کر دیے گئے لیکن حماس موجود ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس کے مکمل خاتمے کے بغیر یہ جنگ ختم نہیں کرے گا لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود حماس موجود ہے اور آخر اسی سے اسرائیل کو مذاکرات کرنا پڑے ہیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام قیدیوں کو بازیاب کرائے بغیر وہ جنگ نہیں روکے گا لیکن اس میں بھی اسے مکمل ناکامی ہوئی۔ تباہی صرف فلسطینیوں کی نہیں ہوئی‘ اسرائیل میں جو صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے‘ اور جس طرح ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی عائد ہے‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیلی ہلاکتیں اس کی بیان کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 15 ہزار کے قریب اسرائیلی ہلاکتیں ہیں؛ اگرچہ اسرائیل یہ تعداد کم بتاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو معاشی دھچکا اسے لگا ہے اس کی تلافی میں بہت وقت لگے گا۔ لیکن جانی اور معاشی سے بڑا نقصان اسے دنیا میں اپنا بھرم اور زعم ٹوٹنے کا ہوا ہے۔ اس کا غرور بہت بُری طرح ٹوٹا ہے۔ یہ الگ تفصیل ہے کہ اس پوری جنگ میں حماس نے کیا کھویا اور کیا پایا‘ اور اسرائیل کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا‘ فریقین میں کس نے کیا قیمت ادا کی؟ لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے عرب ممالک سے بڑھتے ہوئے روابط مکمل تباہ ہو گئے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی کارروائیوں کا بڑا ردعمل سامنے آیا۔ دنیا کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہو گئیں۔اس وقت دنیا بھر میں اسرائیلی تنہائی کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ غزہ کے ساتھ لبنان‘ شام‘ ایران‘ یمن اور اردن جیسے ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں نے ان ممالک کو اپنا دفاع مضبوط کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اسرائیلی نقصان کا ایک پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک کو بھی اسرائیلی عزائم نظر آنے لگے اور وہ اب اپنے دفاع کیلئے بڑے بڑے دفاعی ساز وسامان کے معاہدے کر رہا ہے۔ اس سے قبل ایسا نہیں تھا۔ اسرائیل کے بالکل قریب ایک بڑی دفاعی طاقت پیدا ہو جائے تو یہ اسرائیل کیلئے ایک نیا محاذ ہو گا۔شروع ہی سے اسرائیل اور حماس کی طاقتوں کا کوئی موازنہ نہیں تھا۔ ہاتھی اور ہرن کا بھلا کیا مقابلہ‘ لیکن 15 ماہ کے غیظ وغضب کے بعد اگر ہاتھی ہرن سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوجائے کہ میرے بچے رہا کر دو تو کیا یہ ہاتھی کی فتح ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں