"SUC" (space) message & send to 7575

موم کا پتلا

القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ آ گیا۔ احتساب عدالت میں یہ فیصلہ کئی بار مؤخر ہونے کے بعد بالآخر جمعہ کو سنا دیا گیا۔ عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ کو سات سال قید سنائی گئی۔ خان صاحب کو 10 لاکھ روپے اور ان کی بیگم کو 5 لاکھ جرمانے کی سزا بھی فیصلے کا حصہ ہے جبکہ القادر یونیورسٹی کو حکومتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ فیصلے کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں اس لیے انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
دسمبر 2023ء میں نیب کی طرف سے عمران خان ا ور سات دیگر افراد کے خلاف کرپشن کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ پراپرٹی ٹائیکون اور ان کا بیٹا‘ مرزا شہزاد اکبر‘ زلفی بخاری‘ بشریٰ بی بی اور فرحت شہزادی ان میں شامل ہیں۔ مقدمے کا خلاصہ یہ ہے کہ نیب کے مطابق پراپرٹی ٹائیکون کی 50 ارب روپے سے زائد رقم کو قانونی بنانے کی سہولت عمران خان کی طرف سے اس وقت دی گئی جب وہ اقتدار میں تھے۔ اس کے عوض پراپرٹی ٹائیکون کی طرف سے خان صاحب اور ان کی اہلیہ نے اربوں روپے کی زمین اور تحائف حاصل کیے۔ ایک زمین تو وہ ہے جس پر القادر یونیورسٹی قائم ہے اور جو زلفی بخاری کو منتقل کی گئی جبکہ دوسری سابق خاتونِ اول کی دستِ راست کو ملی 240 کنال زمین۔ نیب کے دائر کردہ مقدمے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ دونوں زمینیں اسی سہولت کے عوض میں مفت دی گئی تھیں۔ نیب کا دعویٰ تھا کہ زمین زلفی بخاری کو پہلے منتقل ہوئی جبکہ ٹرسٹ بعد میں وجود میں آیا۔
اس رقم اور معاملے کا بنیادی طور پر القادر یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ پس منظر یہ ہے کہ کراچی کی زمین حاصل کرنے میں بے ضابطگیوں پر سپریم کورٹ نے 21 مارچ 2019ء کو رئیل اسٹیٹ گروپ پر 460 ارب روپے کا بھاری جرمانہ کیا تھا۔ یہ جرمانہ سپریم کورٹ کے ایک مخصوص اکائونٹ میں جمع ہونا تھا۔ بعد میں 2019ء میں یوکے نیشنل کرائم ایجنسی نے 239 ملین پونڈ کی ایک رقم پکڑی جو پاکستان سے مبینہ منی لانڈرنگ کے ذریعے یوکے بھیجی گئی تھی۔ یہ رقم پراپرٹی ٹائیکون کی تھی۔ یوکے کا قانون ہے کہ منی لانڈرنگ والی مشکوک رقم اصل ملک کو واپس کر دی جاتی ہے؛ چنانچہ 190 ملین پائونڈ کی رقم‘ جو تقریباً ساٹھ ارب روپے بنتی ہے‘ پاکستان کو واپس کر دی گئی۔ اصولاً یہ رقم حکومتِ پاکستان کے خزانے میں جمع ہونی چاہیے تھی۔ لیکن یہ پیسے سپریم کورٹ کے اُس اکائونٹ میں جمع کرائے گئے جو رئیل اسٹیٹ گروپ کے جرمانے کی رقم کے لیے کھولا گیا تھا۔سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان‘ سابقہ اراکینِ کابینہ پرویز خٹک اور زبیدہ جلال نے عدالت میں وہ مشکوک عمل بیان کیا جو دسمبر 2019ء میں کابینہ میٹنگ میں اپنایا گیا تھا۔ ایک مہر بند لفافہ کابینہ کو دکھایا گیا اور اس کے بارے میں زبانی بتایا گیا کہ یہ پاکستان اور یوکے کی نیشنل کرائم ایجنسی کے بیچ رقم واپسی کا ایک خفیہ معاہدہ ہے۔ کسی کو اس لفافے کے مشمولات دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی اور حکومت نے اس فیصلے کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کے مطابق اس فیصلے سے انصاف کا خون ہوا اور یہ سیاسی مخالفت کی بنیادوں پر سنایا گیا۔ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی اراکین اور وزرا کے نزدیک یہ فیصلہ قانون کے مطابق اور عین انصاف ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اوپن اینڈ شٹ یعنی بالکل واضح اور شک کے بغیرکیس تھا۔ ان کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکا تھا اور رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کو سہولت پہنچانے کے بدلے میں سینکڑوں کنال زمین حاصل کی گئی۔اس میں تو شک نہیں کہ سیاسی مخالفوں کے خلاف بہت سے مقدمات سیاسی ہوتے ہیں۔ خان صاحب اپنے خلاف قائم کیے گئے کئی مقدمات سے بری بھی ہوچکے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مقدمے میں بھی عملی بے ضابطگیاں ہوں‘ بنیادی قانونی نکات کے بارے میں قانون دان ہی بتا سکتے ہیں لیکن میں نے سپریم کورٹ کے وکلا کی جو آرا پڑھی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ منی لانڈرنگ سے لے کر ٹرسٹ کے قیام اور زمینوں کی منتقلی تک مشکوک اور بے ضابطہ معاملات ہیں کہ اس معاملے کو شفاف قرار د نہیں دیا جا سکتا۔ بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاًجو رقم یوکے کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پکڑی پاکستان سے یہ کس طرح باہر گئی اور انسدادِ منی لانڈرنگ کیلئے قائم ادارے کہاں سوتے رہے؟ کوئی ایجنسی سراغ کیوں نہیں لگا سکی؟ دوسرا یہ کہ کابینہ کو اعتماد میں لینے کے بجائے ایک مہر بند لفافے کو دکھا کر اسے غیر شفاف بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ سیدھی سی بات تھی کہ ایک بڑی رقم پاکستان کو واپس ملی‘ معاہدہ کتنا ہی خفیہ ہو‘ ملک کی کابینہ سے‘ جو معتمد ترین افراد پر مشتمل ہوتی ہے‘ چھپانے کی وجہ؟ پھر یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے جرمانے کے اکائونٹ میں جمع کرانے کی کیا تاویل ہے؟ پھر اسی پراپرٹی ٹائیکون سے ٹرسٹ کے لیے زمین لینے کی وجہ؟ پھر گجر فیملی کے نام زمین منتقل ہونے کی وجہ؟ یہ کیسے ہوا کہ زمین پہلے منتقل ہوئی اور ٹرسٹ بعد میں بنا؟ سوالات اور بھی ہیں لیکن افسوس کہ عمران خان جو کرپشن پر اپنے مخالفوں پر ہر چھوٹا‘ بڑا الزام لگانے سے کبھی نہیں چوکے‘ اس پورے مشکوک عمل کی قابلِ اطمینان وضاحت نہیں پیش کر سکے۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ بیگم کی سہیلی ہو یا ٹرسٹ کی زمین‘ بالآخر انگلیاں انہی کی طرف اٹھیں گی۔
خان صاحب سے متعلق دکھوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ ان کے دورِ حکومت کی گورننس کو چھوڑ دیں‘ مخالفوں کو ہر طرح رگیدنے کے جذبے کی بھی تاویل کر لیں‘ ان کی خود رائی اور خود پسندی کو بھی ایک طرف رکھ دیں‘ امپائرز کو ساتھ ملا کر کھیلنے کی ساری کہانی بھی جھوٹی سمجھ لیں۔ پنجاب‘ کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے چنائو کو بھی بھول جائیں‘ صرف مالی معاملات کو لیجیے‘ باقی چھوڑ دیں۔ توشہ خانہ‘ پنجاب بیورو کریسی میں تعیناتیوں اور تبادلوں میں رشوتوں کی بے شمار کہانیاں‘ گجر فیملی کے معاملات اور ٹرسٹ کی زمین ایک ایسے آدمی سے حاصل کرنا جن کے بارے میں ہر خاص وعام جانتا ہے۔ خان صاحب کے ملک اور بیرونِ ملک بے شمار چاہنے والے ہیں‘ ان کے مداحوں کا دعویٰ ہے کہ خان صاحب کی ایک ٹرانسمیشن پر اربوں روپے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ توشہ خانہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے؟ ان کا تو ہمیشہ سے دعویٰ تھا کہ اللہ نے مجھے مال و دولت سے بہت نوازا ہے‘ مجھے مزید جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ القادر یونیورسٹی ایک نیک خیال سہی کیا وہ یونیورسٹی کی زمین کے لیے شفاف فنڈز حاصل نہیں کر سکتے تھے؟ کتنی تاویلیں کی جائیں؟ کتنی طرف سے آنکھیں بند کی جائیں؟ کتنے سوالات پر دروازے بند کیے جائیں؟ ان سب کے بجائے یہی کیوں نہ مان لیا جائے کہ جو موم کا پتلا ہم نے خریدا تھا‘ وہ پہلی دھوپ میں ہی پگھل گیا۔ احسان دانش نے کہا تھا:
کل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں