"SUC" (space) message & send to 7575

وائی کنگز کے ملک میں …(4)

سہ پہر کے وقت جب خنک ہوا میں دھوپ کے پھول کِھلے ہوئے تھے اور نرم کرنیں پانیوں پر بنتے دائروں میں سنہرا رقص کرتی تھیں‘ میں کوپن ہیگن کے دوستوں کے ساتھ ''لین جیلینی پرومینیڈ اینڈ پارک‘‘ پہنچا۔ پرومینیڈ ایسے راستے کو کہتے ہیں جو کسی تفریحی مقام‘ خاص طور پر ساحل کے کنارے پیدل چلنے کیلئے بنایا گیا ہو۔ انسانی فطرت میں پانی کے قریب رہنا ہے۔ صرف جسم کی تشنگی مٹانے کیلئے نہیں بلکہ جمالیاتی پیاس بجھانے کیلئے بھی۔ سمندروں‘ دریائوں‘ جھیلوں اور بڑے آبی ذخیروں کے کنارے ایک گوشے میں بیٹھ کر پانی کو تکتے رہنا اور اس میں لہریں اٹھتے دیکھنا ایک خوبصورت تفریح ہے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ کنارِ آب کے آراستہ بنگلے‘ گھر‘ کاٹیج ہوں یا کٹیائیں اور جھونپڑیاں‘ انسان ہمیشہ ان کی آرزوکرتا رہتا ہے۔
لین جیلینی پارک ساحلِ سمندر کے ساتھ ایک بڑا‘ سرسبز اور حسین پارک ہے۔ پارکنگ کی جگہ سے بل کھاتا راستہ ہمیں سرخ اینٹوں سے بنے پُل تک لے آیا جس کے نیچے نہر بہتی تھی اور اس نہر میں چھوٹی کشتیاں اور لانچیں کھڑی تھیں۔ یورپ کے مخصوص طرزِ تعمیر کے ایسے پُل ہر یورپی ملک میں نظر آتے اور الگ خوبصورتی رکھتے ہیں۔ یہی بل کھاتا راستہ آگے چل کر ہمیں ساحلِ سمندر تک لایا اور ایک موڑ مڑتے ہی ہمیں ساحل کی ایک چٹان پر بیٹھی جل پری دور سے نظر آنے لگی۔ یہ جل پری ''لٹل مرمیڈ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
میرے ذہن میں دراز قامت‘ سنہرے بدن اور سنہرے لمبے بالوں والی جل پری تھی مگر کوپن ہیگن والی لٹل مرمیڈ اس سے بہت مختلف تھی۔ کانسی کی یہ جل پری ایک چٹان پر دوزانو بیٹھی تھی اور اس کا مچھلی جیسا نچلا دھڑ جسم سے ایک طرف دکھائی دیتا تھا اور وہ گردن موڑے ایک طرف دیکھ رہی تھی۔ ڈنمارک میں ہینس کرسچین اینڈرسن کی 1837ء میں لکھی ایک اساطیری کہانی معروف رہی ہے‘ جس میں ایک جل پری کا ذکر بار بار آتا ہے۔ 1909ء میں جب کارل جیکب سن نے‘ جو اس کہانی سے مسحور تھا‘ اس کہانی کی جل پری کا مجسمہ بنانے کی منظوری دی تو مجسمہ ساز ایڈورڈ ایرکسن کو یہ کام سونپا گیا۔ اداکارہ ایلن پرائس کو ماڈل کے طور پر منتخب کیا گیا۔ مجسمہ کانسی سے بنانے پر اتفاق ہوا؛ چنانچہ جل پری کے سر پر کام شروع کیا گیا۔ ایلن پرائس نے مجسمے کیلئے برہنگی سے انکار کیا تو ایڈورڈ ایرکسن نے باقی جسم کیلئے اپنی بیوی ایلین ایرکسن کو بطور ماڈل چنا۔1913ء میں یہ مجسمہ مکمل ہوا جو چار فٹ اونچا اور 175 کلوگرام وزنی تھا۔ رفتہ رفتہ یہ کوپن ہیگن کی ایک پہچان بنتا گیا اور اسے دنیا بھر میں مختلف نمائشوں کیلئے بھی بھیجا جاتا رہا۔ 1964ء میں اس مجسمے کا سر توڑ کر چرا لیا گیا‘ جو کبھی بازیاب نہ ہو سکا چنانچہ ایک نیا سر بنایا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جل پری کے اس مجسمے کی کئی بار توڑ پھوڑ کی گئی۔ اگر آپ اس کی تاریخ پڑھیں تو حیرت ہو گی کہ یورپ کے ایک متمدن ملک میں اس مجسمے کو کتنی بار توڑ پھوڑ سے گزرنا پڑا اور ہر بار الگ وجوہات تھیں۔ اسے ہر بار مرمت کرکے پھر نصب کر دیا گیا۔ یہ بہرحال آج بھی کوپن ہیگن کی علامت اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
میں بچپن سے جل پری کے سحر میں رہا ہوں اور اپنے تیسرے شعری مجموعے کا نام بھی جل پری رکھا تھا۔ کوپن ہیگن والی جل پری میرے تصورات سے مختلف سہی‘ لیکن کچھ سوال ضرور چھوڑ جاتی ہے۔ مجھے ان سوالوں کے جواب کبھی نہیں مل سکے۔ اگر کبھی مل سکیں تو دیرینہ تشنگی دور ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جل پری نام کا کوئی وجود کسی سمندر‘ کسی دریا‘ کسی جھیل میں نہیں پایا جاتا۔ نصف عورت اور نصف مچھلی والا کوئی پیکر دنیا کے کسی خطے‘ کسی ملک میں نہیں لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جل پری کا تصور قدیم زمانوں سے دنیا کی ہر بڑی زبان کے ادب میں موجود ہے۔ میں ایک زمانے میں علم الحیوانات کی قدیم عربی کتاب ''حیات الحیوان‘‘ پر تحقیقی کام کرتا رہا ہوں۔ یہ کتاب دو جلدو ں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب میں بھی مصنف علامہ کمال الدین دمیری جل پری جیسی ایک مخلوق کا ذکر کرتے ہیں۔ ہندی کہانیوں اور داستانوں میں‘ انگریزی ادب میں‘ اس کے علاوہ یورپی زبانوں کی قدیم کہانیوں میں بھی جل پری کا ذکر موجود ہے۔ مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آ سکا کہ ایک فرضی وجود پر دنیا کے تمام خطوں اور زبانوں کے لوگ کیسے متفق ہوگئے کہ ایسا ایک پیکر سمندروں اور دریائوں میں ہوتا ہے؟ کیسے یہ ممکن ہوا کہ دنیا کی ہر داستان میں جل پری ایک ہی طرح کے خدوخال اور جسمانی ساخت رکھتی ہے‘ اوپری نصف دھڑ حسین عورت کا اور نچلا دھڑ خوبصورت مچھلی کا۔ ہر داستان میں یہ خوبصورت بھی ہے‘ لمبے بالوں والی بھی اور سریلی بھی۔ جب وہ چٹانوں پر بیٹھ کر گاتی تو اس کے گیت ہوا کی لہروں پر دور دور تک جاتے اور ملاح اسے سنتے۔ کیسے یہ ممکن ہوا کہ دنیا کی سب زبانیں اس تصور پر ہم آواز ہیں۔
جو بات میرا دل پکڑ لیتی ہے‘ وہ جل پری کا دکھ ہے۔ ایک فرضی مخلوق کا دکھ محسوس کرنا فضول سی بات ہے‘ لیکن کیا کروں کہ یہ ہمیشہ سے میرے دل میں ہے۔ وہ جل پری جو نہ مکمل انسان ہے‘ نہ مکمل مچھلی‘ نہ وہ خاکی مخلوق ہے‘ نہ آبی۔ نہ اسے انسانوں کی مکمل ہم نشینی میسر ہے نہ مچھلیاں اسے اپنے میں شمار کرتی ہیں۔ اس کی دو دنیائیں ہیں‘ خاک اور آب۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی ایک دنیا بھی نہیں۔ وہ دونوں کیلئے اجنبی ہے۔ ذرا یہ دکھ اپنے دل پر سہہ کر دیکھیے‘ دل چیر دے گا۔ سوچتا ہوں تو شکر کرتا ہوں کہ یہ فرضی پیکر ہے‘ حقیقی نہیں۔ لیکن ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ ہر خواب دیکھنے والا آدمی جل پری کی طرح دو دنیائوں کا باشندہ ہے جن میں کوئی ایک دنیا بھی اس کی اپنی نہیں۔ میری نظم ''جل پری‘‘ اسی دکھ کی ترجمان ہے:
نیم خاک و نیم آب؍ میں ترا دکھ جانتا ہوں میری دوست؍ کوئی تجھ سا ہے نہ مجھ سا اور ہے؍ ایک دنیا میں بسر کرتا ہوں میں؍ پھر بھی میری اصل دنیا اور ہے؍ اصل دنیا‘ کون سی دنیا میں ہے؟؍ اے جہانِ زود ہجر و دیر یاب؍ کچھ لکیریں میری پابندی نے بھی؍ کھینچ رکھی ہیں حدِ ادراک پر؍ نیل گُوں قلزم سے میں بھی دن ڈھلے؍ لوٹ آتا ہوں سنہری خاک پر؍ کاٹتا ہوں دو جہانوں کی تھکن؍ جھیلتا ہوں دو زمانوں کے عذاب
اس دن عصر کے وقت جب افق پر زرد‘ سرخ تھال سمندر میں کچھ دیر بعد اترنے کو تھا اور لٹل مرمیڈ گردن موڑے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ ہم نے اسے الوداع کہا‘ کہ ہمیں ایک اور ساحل کی طرف جانا تھا۔ ہیلسن بورگ نامی کوپن ہیگن کا وہ ساحل جہاں سے سویڈن قریب ترین ہے اور ایک راستہ بنا کر دونوں ملکوں کو آپس میں ملا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف سویڈن کا شہر مالمو ہے۔ کوپن ہیگن کے شمالی کونے سے 16 کلومیٹر لمبے Oresund پُل‘ زیر آب سرنگ اور مصنوعی جزیرے کے ذریعے دونوں ملکوں کو جوڑا گیا ہے۔ یہاں پہنچے تو انتہائی سرد ہوا کے جھونکوں نے استقبال کیا۔ اس فضا میں چند منٹ کھڑے ہونا بھی مشکل تھا۔ لیکن اس منظر کی خوبصورتی اسے تکتے رہنے کا مطالبہ کرتی تھی۔ اسی دوران میں نے حیرت سے دیکھا کہ کافی فاصلے پر ایک لکڑی کے چبوترے پر ایک آدمی تمام کپڑے اتارکر سمندر میں چھلانگ لگا رہا تھا۔ میں نے کئی بار سنا تھا کہ سرد ترین ملکوں میں سرد پانی سے غسل بھی ایک روایت ہے لیکن اُس دن پہلی بار یہ منظر دیکھ کر جھرجھری آ گئی۔
ہم رات گئے اپنے گھروں کو لوٹے‘ تھکن سے برا حال سہی لیکن ایک بھرپور دن میرے حصے میں آیا تھا اور اس کی آسودگی ذہن سے جسم تک ہر گوشے کو سرشاری فراہم کرتی تھی۔ اُس ایک دن میں کوپن ہیگن نے اپنے کئی رنگ میرے سامنے بکھیر دیے تھے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں