سعدی‘ حافظ اور خیام کی زمین پر آسمان سے آگ برس رہی ہے۔ خورس اعظم کی سلطنت لہولہان ہے۔ ہر طرف دھماکوں کی آوازیں ہیں اور باردو کی بُو۔ کوہ البرز اور کوہ دماند سے آنے والی ہوائیں ایرانی بستیوں میں داخل ہوتی ہیں تو بارود اور خون کی بُو ان کا سانس روکنے لگتی ہے۔ رات اترتی ہے تو اپنے ساتھ آتشی گولے لاتی ہے۔ دن چڑھتا ہے تو نئے حملوں اور نئی مسمار عمارتوں کی خبر لاتا ہے۔ نوشیرواں کا ایران آگ اور خون میں نہا گیا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کی طرف پوری دنیا کی توجہ ہے۔ اسرائیل کے پہلے حملوں میں فوجی قیادت کے کئی اہم لوگ ختم کر دیے گئے۔ منتخب جوہری سائنسدان مار دیے گئے۔ ایٹمی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا اور ایسا لگا جیسے پورے ملک میں کوئی دفاعی نظام اور فضائیہ موجود نہیں۔ مسلم ممالک اور اسرائیل مخالف پورا دن صدمے کی کیفیت میں رہے۔ اگلی رات ایران نے جوابی حملہ کیا اور کم از کم یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے میزائل تل ابیب سمیت اسرائیلی شہروں پر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران سے داغے گئے میزائلوں کو اسرائیل تک پہنچنے کے لیے عراق‘ شام یا اردن کے اوپر لمبا سفر کرنا پڑتا ہے اور ان ملکوں میں امریکی فوجی نظام نے انہیں روکنے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ خود اسرائیل کے پاس دفاع کے کئی نظام ہیں۔ ڈیوڈ سلنگ اور آئرن ڈوم ان میں سے دو نظاموں کے نام ہیں۔ بہت سے ایرانی میزائلوں کو راستے میں یا اسرائیل کی حدود میں روک لیا گیا۔ اگر ان سب چھلنیوں سے گزر کر کچھ ایرانی میزائل اسرائیل میں قیامت بپا کر سکتے ہیں تو یہ ان کی طاقت کا ثبوت ہے۔ کافی علاقوں میں عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ سینوں میں کچھ ٹھنڈ تو پڑی لیکن ابھی اس بڑی خبر کا بہرحال انتظار ہے جوفوجی اڈوں‘ آئل ریفائنریز‘ میزائل ذخائر یا جوہری تنصیبات کی تباہی کا منظردکھائے یا بڑی فوجی یا سیاسی قیادتوں کے مارے جانے کی اطلاع دے۔ خبریں ہیں کہ ایران نے ایف 35 سٹیلتھ طیاروں سمیت کئی اسرائیلی جہاز گرائے ہیں۔ ایران دس سے زیادہ طیارے مار گرانے کا دعویٰ کر رہا ہے اور تین پائلٹوں کی گرفتاری کا بھی۔ ایرانی حوالوں سے یہ دعوے بین الاقوامی میڈیا پر بھی آ گئے ہیں‘ لیکن ان کی آزادانہ تصدیق کا انتظار ہے۔ اگر یہ خبریں درست ہیں تو یہ بڑی ایرانی کامیابی ہے۔ یاد کیجیے کہ چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھی ابتدا میں چھ بھارتی طیارے گرانے کے پاکستان کے دعووں کا ذکر محتاط انداز میں کیا گیا تھا‘ رفتہ رفتہ آزاد ذرائع نے ان کی تصدیق کی۔ بھارت اعتراف کے باوجود‘ اب تک گرنے والے جہازوں کی تفصیلات اور تعداد بتانے سے انکاری ہے۔ اس بار تو معاملہ امریکی طیاروں اور اسرائیلی فضائیہ کا ہے‘ وہ ہر قیمت پر اسے چھپانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم ابھی ایران کی طرف سے طیاروں کے ملبے کی تصاویر اور پکڑے جانے والے پائلٹس کی وڈیوز جاری نہیں ہوئیں اور اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ تام دم تحریر ایسا لگتا ہے کہ ایران نے زیادہ زخم کھائے ہیں اور اسرائیل کا اتنا بڑا نقصان نہیں ہوا‘ جتنا ہونا چاہیے تھا۔
پاکستان نے ایران کی مکمل حمایت کا اعلان کرکے درست قدم اٹھایا اور ایک اور بڑی سفارتی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک طرف ازلی دشمن اسرائیل کو مضبوط پیغام پہنچایا گیا ہے۔ دوسری طرف ایرانی عوام اور فیصلہ سازوں کی ہمدردیاں حاصل ہوئی ہیں۔ تیسری طرف بھارت کو ایک مشکل صورتحال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ بھارت ایران کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں مصروف رہا اور ایران کو اپنا حلیف تصور کرتا ہے اب ایرانی آزمائش میں بھارت کی مکمل خاموشی نے ایران سے اُس کے تعلقات مجروح کیے ہوں گے۔ بھارت کی مشکل یہ ہے کہ وہ ایران کی حمایت کرے تو اسرائیل ناراض ہوتا ہے جو اس کا واحد حمایتی رہا ہے؛ چنانچہ اس نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ پاکستان کی طرف سے ایران کی حمایت کے اعلان سے بھارت کو نئے مسئلوں سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں اس جنگ کے بارے میں چھ بنیادی سوالات اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا اسرائیل نے اپنے وہ کثیر جہات اہداف حاصل کر لیے جن کیلئے اس نے ایران پر حملہ کیا تھا؟ دوسرا یہ کہ کیا وہ ایران کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا؟ تیسرا یہ کہ کیا وہ نیوکلیئر تنصیبات کو اس درجہ تباہ کرنے میں کامیاب رہا کہ ایران جلد جوہری ہتھیار نہ بنا سکے؟ چوتھا سوال یہ کہ کیا موجودہ ایرانی حکومت کو کمزور کرکے نیا نظام لانے کی کوشش بار آور ہوتی نظر آ تی ہے؟ پانچواں سوال ایران کے حوالے سے یہ کہ کیا وہ اسرائیل کواتنا نقصان پہنچا سکا ہے کہ وہ آئندہ کسی حملے سے باز رہے؟ چھٹا سوال یہ کہ کیا ایران جلد جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو سکے گا؟ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں تو پہلا جواب یہی ہوگا کہ میرے خیال میں اسرائیل نے اپنے موجودہ اہداف کافی حد تک حاصل کر لیے ہیں۔ اس نے امریکہ ایران مذاکرات سبوتاژ کر دیے ہیں اور امریکہ خواہی نخواہی اسرائیل کی حمایت پر مجبور ہو گیا ہے۔ برطانیہ‘ فرانس سمیت دنیا کی توجہ نہتے غزہ کی مظلومیت سے ہٹا کر ایٹم بم والے ایران کی طرف کروا دی گئی ہے۔ اسرائیل نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایران کے اندر اور باہر سے ایرانی قیادت کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیز اس نے کچھ مدت کے لیے ایرانی ایٹمی پروگرام کو پیچھے دھکیل کر مزید وقت حاصل کر لیا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اسرائیل ایران کو خوفزدہ نہیں کر سکا۔ ایسا نہیں ہوا کہ ایران آئندہ ڈر کر اسرائیل اور امریکہ کی من مانی شرائط پر مفاہمت کر لے گا۔ بڑے نقصانات کے باوجود ایران اس تکلیف سے گزر جائے گا۔ تیسرا جواب یہ کہ جوہری تنصیبات اور یورینم افزودہ کرنے کے سینٹری فیوجز‘نظنز، فردو اور اصفہان میں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہیں ہوا۔ سطح پر موجود بجلی کی تنصیبات اور کچھ اور عمارتوں کو نقصان ضرور ہوا لیکن اصل اثاثے محفوظ رہے۔ یہ نقصان کچھ مدت کے لیے کام بند تو کروا سکتا اور مطلوبہ مقدار تک یورینیم افزودگی کو کچھ عرصہ پیچھے بھی دھکیل سکتا لیکن ختم نہیں کر سکتا۔چوتھا جواب یہ کہ ایرانی عوام میں موجودہ سیاسی قیادت کے خلاف ایک بے چینی اور اضطراب موجود ہونے کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ اس جنگ کے نتیجے میں نظام تبدیل ہو جائے گا‘ بلکہ شاید یہ موجودہ قیادت کے حق میں جائے کہ عوام کا غم وغصہ اسرائیل کے خلاف بڑھ جائے گا۔ اس لیے ایران میں فی الحال کسی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پانچواں جواب یہ کہ اسرائیل نیوکلیئر ایران کو اپنی بقا کا مسئلہ سمجھتا ہے اور ایران اس کا اتنا نقصان نہیں کر سکا کہ وہ ڈر کر آئندہ حملے سے باز رہے۔ اس لیے جب تک ایران جوہری صلاحیت اور اس کا ترسیلی نظام اعلانیہ طور پر حاصل نہ کر لے‘ اسرائیل حملوں سے باز نہیں آئے گا۔ چھٹا جواب یہی ہے کہ بظاہر تمام مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود ایران جوہری ہتھیاروں کے اتنا قریب آ چکا ہے کہ اب وہ اسے ترک نہیں کرے گا اور شاید ایک ڈیڑھ سال کے اندر جوہری صلاحیت حاصل کرکے اس کا اعلان بھی کر دے۔
لیکن اس وقت ایران کے لیے سیکھنے کے کئی سبق ہیں۔ ایرانیوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہمسایہ ممالک پا کستان‘ ترکیہ اور آذربائیجان نے ماضی میں ایرانی رویے اور مخالفت کے باوجود اس وقت اس کی حمایت کی ہے۔ یہ ہمسایے اس کے لیے اہم ہیں۔ خاص طور پر نیوکلیئر طاقت پاکستان‘ جو بھرپور روایتی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ایران کو پاکستان سمیت کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف کسی کوشش میں مددگار نہیں ہونا چاہیے۔ ایران کو چاہیے کہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانے۔ یہ جانے کہ اس آزمائش میں کس نے سکوت اختیار کیا اور کس نے کھل کر حمایت کی۔ شیخ سعدی کا قول یاد کرے کہ
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست؍ در پریشاں حالی و درماندگی
(دوست وہ ہے جو پریشاں حالی اور آزمائش میں ہاتھ تھامنے والا ہو)