دو دن سے دل پر بہت اثر ہے۔ دریائے سوات کی نذر ہو جانے والوں کی وڈیوز اور تصویریں نظر سے گزر رہی ہیں جو اس طرح دل چیر دیتی ہیں کہ مکمل دیکھنا بھی مشکل ہے۔ ایک قدرے بلند ٹاپو پر کھڑے ہوئے مرد‘ عورتیں‘ بچے جیسے بے بسی کی تصویریں۔ مٹیالا خونخوار پانی انہیں ہر طرف سے گھیر چکا۔ تلملاتا‘ بل کھاتا پانی دہشت انگیز ہے اور دریا کی غضبناک آوازوں کے سوا کوئی آواز نہیں۔ میں تصور کر سکتا ہوں‘ یا شاید تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں پر ان لمحات میں کیا گزری ہو گی۔ ایک ایک کرکے اپنے پیارے دریا برد ہوتے دیکھنا کوئی آسان ہے کیا؟ ابھی باقاعدہ مون سون کا آغاز نہیں ہوا‘ یہ پری مون سون بارشیں ہیں۔ ہمارے یہاں تو سوات کی طرف توجہ ہے لیکن بھارت میں ہماچل پردیش کی طوفانی بارشوں کی وڈیوز بھی نیٹ پر مسلسل شامل ہو رہی ہیں۔ بیاس‘ کابل اور چناب میں خاص طور پر سیلابی ریلے بہہ رہے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی چناب کا سیلابی ریلا ہیڈ مرالہ سے گزرا ہے۔ عطا آباد کی نیلی جھیل پر بنے ہوٹل تک بھی نالے کا سیلاب پہنچا اور سیاحوں کو کشتیوں کے ذریعے نکالنا پڑا۔ ہم میں بہت سے لوگوں کو دریا کا غیظ وغضب دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی بہت سی وڈیوز موجود ہیں۔ انسان کی تو پُرسکون دریا کے سامنے بھی کچھ حیثیت نہیں اور بپھرے ہوئے دریا کے سامنے مضبوط ترین عمارتیں اور کنکریٹ کے پل نہیں ٹھہرتے‘ انسان تو کیا ٹھہر سکتا ہے۔
یہ جو سوات میں سانحہ ہوا اور جانیں ضائع ہوئی ہیں‘ یہ ایک نہیں‘ کئی مقامات پر کئی حادثات کا مجموعہ ہے۔ موٹر وے سے سوات میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے چک درہ آتا ہے۔ یہیں دریائے سوات کی پہلی جھلک نظر آتی ہے۔ چک درہ کے علاقے گھوڑا گھٹ میں بھی نوجوان ڈوبے ہیں۔ آگے چل کر مینگورہ بائی پاس پر فضا گھٹ کا سیاحتی مقام آتا ہے۔ یہیں ڈسکہ کا خاندان دریا برد ہوا۔ یہ سب زیریں سوات کے حصے ہیں‘ جہاں پہاڑ نسبتاً دور ہیں اور دریا کا پاٹ چوڑا ہے۔ یہاں بالائی سوات کی نسبت پانی کی رفتار کم ہوا کرتی ہے لیکن دریا کا قہر وغضب ہو تو یہاں بھی رفتار قیامت بن جاتی ہے۔ بظاہر اس خاندان نے اپنے ہوٹل سے نکل کر دریا کنارے ناشتہ کیا اور پھر تصویروں کیلئے مزید آگے دریا کے قریب خشک جگہ چلے گئے۔ یہاں کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ یہ لگ بھگ صبح نو بجے کا وقت تھا۔ انہیں اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ بالائی سوات سے ایک خوفناک سیلابی ریلا انہیں لپیٹ میں لینے کیلئے راستے میں ہے۔ آناً فاناً سیلاب نے ان کے تمام راستے بند کرکے انہیں گھیر لیا۔ کچھ ہی دیر میں ڈسکہ کے اس خاندان نے اپنے نو پیارے کھو دیے۔ مردان کے دو افراد ان کے علاوہ تھے۔ بالائی سوات میں بھی کئی حادثات ہوئے۔ بالائی وادی میں کالام سے آگے چل کر اتروڑ‘ اشو اور گبرال آتے ہیں اور گبرال پر ایک پہاڑ وادیٔ سوات کو بند کر دیتا ہے۔ یہیں شاہی باغ کے نام سے نہایت خوبصورت مقام ہے۔ شاہی باغ میں بھی کشتی کا حادثہ ہوا ہے۔ کُل 19 افراد کے ڈوبنے یا لاپتا ہونے کی خبریں ہیں۔ ان میں سیاح بھی ہیں‘ مقامی لوگ بھی اور وہ رہائشی بھی جن کے سیلابی ریلے میں مکان بہہ گئے۔ محمد ہلال نامی ایک مقامی شخص کو انعام ملنا چاہیے کہ اس نے اپنی کشتی سے کئی جانیں بچائی ہیں۔
ایک سال پہلے جب سوات گیا تھا تو میں نے اپنے کالموں میں سوات کے نہایت سنگین مسئلوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ مقامی لوگوں کے بیان بھی سامنے آ رہے ہیں جو بتاتے ہیں کہ حکومت ایسے حادثوں کی بڑی ذمہ دار ہے۔ دریا سے ریت نکالنے کا کام بھی دریائی راستہ خراب کرنے کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں بھی بحرین کی طرف راستے میں جگہ جگہ ایسی تعمیرات نظر آئیں جو غالباً ہوٹل تھے‘ اور انہیں دریا کے راستے (ریور بیڈ) میں بنایا گیا تھا۔ یہ تعمیرات قدرتی منظر کا بھی ستیاناس کرتی ہیں اور نہایت خطرناک بھی ہیں۔ یہ ہوٹل بااثر لوگوں کے بتائے جاتے تھے۔ بااثر لوگوں کو ہر قسم کی اجازت آسانی سے مل جاتی ہے‘ کیونکہ اوپر تک کمائی پہنچتی ہے۔ پھر جب دریا دیوانگی میں آتا ہے اور اپنی جائیداد کا قبضہ واپس لیتا ہے تو کروڑوں روپے کی عمارتیں اس غصے کے سامنے ٹھہر نہیں پاتیں۔ دیوانوں کا راستہ بند کرنا ہمیشہ نقصان دیتا ہے۔
کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روک
کہ سیلِ آب کو قبضے چھڑانے آتے ہیں
ہر سال بپھرے سیلاب اور گرتی عمارتوں کی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں لیکن نہ قبضہ کرنے والوں کو ہوش آتا ہے‘ نہ اجازت دینے والوں کو۔ حالانکہ دریا جو سب کو روزگار بخشتا ہے‘ سب سے زیادہ احترام کا حقدار ہے۔ لیکن ان طالع آزمائوں نے دریا کا احترام کبھی نہیں کیا۔ کیا کبھی ان بااثر لوگوں کے خلاف کارروائی ہو گی؟ بہت سی وجوہات میں حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوش سے بھرے ہوئے کئی سیاح پہلی پہلی بار ان علاقوں میں جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ رس کشید کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ شوق کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ میں خود بھی تصویریں بنوانے کا یہ شوق بھگت چکا ہوں۔ لڑکپن کی بات ہے‘ ہم اپنے مرحوم چچا جان مفتی محمد رفیع عثمانی کے ساتھ پہلی بار سوات کی سیر کو گئے تھے۔ بحرین میں پہاڑوں سے ایک نالا اتر کر دریائے سوات میں ملتا ہے۔ اس پہاڑی نالے کا نام دارال ہے جو دارال اور سید گئی جھیلوں سے نکل کر آتا ہے۔ ایک شام ہم سب دارال کنارے ٹہلنے نکلے۔ شام کا وقت تھا۔ ہم تین کزن لڑکپن اور کم عقلی سے چھلکتی عمروں میں تھے۔ میں نے نالے کے بیچوں بیچ ایک بڑی چٹان پر پہنچنے کی ٹھانی‘ جہاں مجھے پوز بنا کر کھڑا ہونا تھا۔ اس چٹان تک پہنچنے کیلئے کئی خشک اور گیلے پتھر تھے۔ میں ان پر پائوں رکھ کر گزرتا رہا حتیٰ کہ نالے کے تقریباً بیچ میں پہنچ گیا۔ اب بڑی چٹان تک ایک پتھر درمیان میں تھا جس کے اوپر پانی گزر رہا تھا اور اس پر مدتوں کی کائی جمی تھی۔ میں نے اس پر پائوں رکھا اور اگلی بات مجھے یہی یاد ہے کہ میں پیٹ کے بل نہایت ٹھنڈے‘ پُرشور پانی میں تھا۔ میں نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی لیکن ڈھلان پر اترتا منہ زور پانی مجھے کئی فٹ آگے لے گیا۔ ٹھنڈا پانی ہڈیوں کا گودا جمائے دے رہا تھا۔ میں نے ایک پتھر کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن کائی پر ہاتھ پھسل گئے اور پانی گھسیٹ کر مجھے کئی فٹ نیچے لے گیا۔ اس لمحے میں نے کنار ے پر کھڑے ساتھیوں کی چیخیں سنیں۔ ایک لمحے کیلئے رخ اس طرف ہوا تو میں نے سب کے پریشان چہرے دیکھے۔ میں انچ انچ نیچے پھسل رہا تھا اور لگتا تھا کہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ اس بار خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ میں کسی پتھر کی جڑ پکڑوں کیونکہ اوپر تو کائی ہے۔ میں نے ایک چٹان کی جڑ میں ہاتھ ڈال کر اسے پکڑ لیا اور میرا پھسلنا رک گیا لیکن ابھی میرا تمام جسم یخ پانی میں تھا۔ میں نے پوری ہمت جمع کی اور ایک خشک پتھر پر چڑھنے کی کوشش کی۔ جسم ٹھنڈا اور بے جان تھا لیکن میں کسی طرح خشک پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پتھروں پر قدم جماتاکنارے پر پہنچ گیا۔ کنار ے پر پہنچنے کے بعد سب ساتھیوں کی جان میں بھی جان آئی۔ مقامی لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اللہ کا لاکھ شکر کہ آپ کی جان بچ گئی ورنہ اسی نالے میں کئی جانیں جا چکی ہیں۔ اب بھی ایسا کوئی حادثہ سنتا ہوں تو یہ دہشت ناک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔
ہر سال اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں اور بھلا دیے جاتے ہیں۔ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے‘وہ پی ٹی آئی جس کا انتخابی دعویٰ تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی نقشہ بدل دیں گے۔ تین چار افسروں کو معطل کردینے سے کیا ان کی ذمہ داری پوری ہو جائے گی؟ لگتا یہی ہے کہ دریائی راستوں میں عمارتیں بھی اب دریا ہی گرایا کرے گا۔ رہی حکومت تو مجید امجد نے کہا تھا: ''سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘۔