حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ہر کچھ سال بعد غیر محسوس طریقے سے آپ کی کچھ آہنی رسیاں کھول دی جاتی ہیں اور نئی فولادی زنجیریں باندھ دی جاتی ہیں۔ کیسے غیر محسوس طریقے سے پچھلے نشے‘ جن کا عادی بنایا گیا تھا‘ آپ سے دور کر کے نئے نشے آپ کی رگوں میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔ ہر ایسے موقع پر آپ کو یاد آتا ہے کہ جو پچھلی رسی باندھی گئی تھی اس پر آپ نے قدرے مزاحمت کی تھی لیکن پھر اس کو قبول کر لیا تھا۔ چند سال پہلے جو پچھلا نشہ پلایا گیا تھا اس پر بھی آپ نے اسی طرح شور مچایا تھا جس طرح اس نئے نشے کو قبول کرتے وقت مچا رہے ہیں۔ لیکن آپ کی نہ اس وقت سنی گئی تھی اور نہ اب کوئی آپ کی لڑائی کو خاطر میں لا رہا ہے۔ چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال گزرے گا کہ آپ پورے انہماک سے اس نئی زنجیر اور اس نشے کے ساتھ زندگی میں مگن ہو جائیں گے۔ پھر نیا نشہ اور نئی زنجیر۔ کچھ یاد ہے کہ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے۔ آپ کی پیدائش سے بھی قبل بلکہ آپ کے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے سے۔ لیکن ان کی زندگیوں میں یہ تبدیلیاں اتنی تیزی سے کہاں آتی تھیں جو اب آپ اور آپ کے بچے دیکھ رہے ہیں۔
چائے برصغیر میں پیدا ہوا کرتی تھی‘ چین میں بھی کسی حد تک دوا یا مشروب کے طور پر رواج تھا لیکن 1820ء میں جب انگریز تاجروں نے ہمیں اس کا عادی بنایا اور تجارتی بنیادوں پر اس کی کاشتکاری کی‘ کیا برصغیر کے لوگ اس طرح چائے کے عادی تھے؟ نسل در نسل یہ بات چلتی آئی ہے کہ انگریزوں نے منافع کی خاطر برصغیر میں مفت چائے پلائی‘ ہمیں عادی بنایا اور بہت جلد دیسی مشروبات مثلاً دودھ‘ لسی‘ شربت وغیرہ پرانی نسلوں کی یادگاریں ہو کر رہ گئے۔ آہستہ آہستہ ہم چائے کے ایسے نشئی بنے کہ ہر گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں چائے چولہوں پر چڑھی نظر آتی ہے اور یہ چائے گھروں میں بنتی چائے کے علاوہ ہے۔ اس وقت صرف لاہور میں جتنے چائے خانے ہیں‘ انہیں آپ گن نہیں سکتے۔ یہی حال پورے برصغیر کا ہے۔ اب بھارت‘ پاکستان میں جتنی چائے کی پیداوار ہے‘ اس پیداوار کی 70فیصد چائے خود یہیں پی لی جاتی ہے اور یاد رہے کہ یہ دنیا میں سب سے بڑا چائے پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ 1902ء کے لگ بھگ برطانوی نوآبادیوں کے غلاموں نے حیرت سے دیکھا کہ ان کے آقا ایک کالے توے پر سوئی رکھتے ہیں تو اس میں سے انسانی آوازیں نکلتی ہیں۔ کئی عشروں تک گراموفون کے عجوبے کی دھاک بیٹھی رہی حتیٰ کہ 1936ء میں ہندوستان میں ریڈیو نشریات شروع ہوئیں۔ اس ڈبے سے نکلنے والی آوازیں مقامی لوگوں کا دماغ بائولا کیے دیتی تھیں۔ انہیں حیرت تھی کہ اتنے سازندے‘ اتنے ساز‘ اتنے مغنی اور اتنے مقرر اس چھوٹے سے ڈبے کے اندر کیسے سمائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نشہ ہمیں لگ گیا۔ اس نشے کو 1964ء میں ایک اور نشے نے ہرن کر دیا۔ ٹی وی پاکستان میں آیا اور چلتے پھرتے انسانوں اور جانداروں کی پرچھائیوں نے صرف آوازوں کی بساط سمیٹنا شروع کر دی۔ ریڈیو سٹیشن کے ایک گوشے میں آنکھیں کھولنے والے ٹی وی سٹیشن نے پیر پھیلانے شروع کیے اور آخر اس اونٹ نے بدو کو خیمے سے نکال باہر کیا۔ یہ لت آنکھوں کو ایسی لگی کہ حقیقی زندگی پر یہ پرچھائیاں غالب آگئیں۔ ایک نئی زنجیر پیروں سے بندھ گئی تھی اور اسیر اس میں خوش تھے۔
وقت کی بہت سی زقندوں کو چھوڑتے ہیں اور پچھلے 20سال کے نشوں اور زنجیروں کی طرف آتے ہیں۔ 2004ء میں ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کی شکل میں بنایا گیا۔ تب یہ صرف ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ؍ کمپیوٹر تک محدود تھا۔ لیپ ٹاپ کم لوگوں کے پاس تھے۔ میں نے 2008ء میں جب پہلی بار فیس بک اکائونٹ بنایا تو یہ بچہ چاروں ہاتھوں پیروں پر یعنی گڈلیوں چلتا تھا۔ ابھی اس نے دو ٹانگوں پر لڑکھڑاتے چلنا نہیں سیکھا تھا اور بے شمار قاعدے ضابطے نہیں بنائے تھے۔ لیکن یہی اچنبھا کم نہیں تھا کہ ہزاروں میل دور سے مختلف خطوں اور متنوع موسموں میں اپنے اپنے دفتروں اور گھروں میں بیٹھے لوگ آپس میں منسلک تھے اور بھولے بسرے دوست آپس میں پھر جڑ رہے تھے۔ یہ نیا ذائقہ‘ نیا نشہ اور نئی زنجیر تھی۔ اور اس قید کا نشہ سب نشوں پر بھاری تھا۔ لوگ ٹی وی پر کم اور کمپیوٹر پر زیادہ وقت گزارنے لگے۔ وقت کی رفتار تیز ہوئی جاتی تھی۔ یو ٹیوب‘ ٹویٹر‘ انسٹا اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی میدان میں آ گئے۔ اب لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر سے الجھن ہونے لگی کہ یہ سائز تیز رفتار زندگی کیلئے بڑے تھے۔ سمارٹ فون آئے تو انہوں نے لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کو کافی پیچھے دھکیل دیا۔ اب سوشل میڈیا سمیت سب کچھ سات آٹھ انچ کے بولتے آئینے میں آپ کے ہاتھ میں تھا۔ سمارٹ فون کی نئی سے نئی نسلیں آنے لگیں۔ یہ پرانی زنجیر کھُلنے کا وقت تھا۔ جو لوگ باقاعدگی سے ٹی وی پروگرام دیکھتے تھے‘ ادھر ادھر ہو گئے اور ٹی وی کے سامنے صوفے خالی نظر آنے لگے۔ سب کچھ سمارٹ فونز میں سما گیا اور سمارٹ فون آپ کی ہتھیلی پر کفِ گل فروش کی طرح نظر آنے لگا۔ یہ نیا نشہ تھا جس نے پرانے نشے ہرن کر دیے۔ نئی زنجیر تھی جس سے لوگ خوفزدہ بھی تھے کہ اب آگے کیا ہے؟ پرانی دنیا فراموش ہوئی جاتی تھی اور نئی دنیا اپنی طرف خوف کے باوجود کھینچتی تھی۔ چند سال اور گزرے اور یہ سمارٹ فون بازاروں میں تبدیل ہونے لگے۔ یہیں دکانیں سج گئیں اور یہیں سودے طے ہونے لگے۔ وہ باتیں جو کسی نے چھپائی ہوئی تھیں‘ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو بتانے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے بینک اکائونٹ‘ پاس ورڈز‘ دوست‘ رشتے دار‘ گھر‘ دفتر۔ سب کچھ! لیکن ابھی بہت کچھ باقی تھا۔ ایک زقند نے مصنوعی ذہانت کو ایک نئے کاروباری دلال کی شکل میں بازار میں لا کھڑا کیا۔ اس بازار میں الگورتھم کا لفظ سنائی دینے لگا۔ الگورتھم کمپیوٹر کا وہ حساب کتاب تھا جس کے تحت وہ بہت سی چیزیں انسانی عقل سے بہتر انداز میں تجویز یا طے کر سکتا تھا۔ سعود عثمانی جو اپنے گھر یا دفتر یا گاڑی میں بیٹھا ہواہے‘ اسے کیا چیز پسند ہے‘ کیا ناپسند ہے۔ وہ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر کیا دیکھنا پسند کرتا ہے اور کس چیز سے بیزار ہے۔ کیا چیز اس کی ضرورت ہے‘ کیا چیز اسے پسند تو نہیں لیکن پسند آ سکتی ہے۔ کون سی شے اسے کس طرح پیش کی جائے کہ وہ اس کی طرف راغب ہو جائے۔ وہ کیا کام کرتا ہے‘ کس علاقے میں رہتا ہے؟ کس طبقے سے اس کا تعلق ہے اور اس کی قوتِ خرید کیا ہے؟ سعود عثمانی کے بارے میں وہ کیا باتیں ہیں جو خود اسے بھی علم نہیں؟ اسے کیسے گھیرا جائے کہ اسے خود بھی پتا نہ چلے کہ اسے گھیرا گیا ہے۔ کیسے ممکن ہو کہ اسے ایسا لگے کہ یہ دکاندار کی نہیں‘ اس کی اپنی مرضی کا سودا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بروکر نے سب کچھ طے کر دیا‘ وہ سب کچھ بھی جو سعود عثمانی خود طے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ ایک نیا نشہ اور نئی زنجیر تھی جو اسے پہنا دی گئی اور معمولی مزاحمت کے باوجود اس نے قبول بھی کر لی‘ اور اس پر بھی خوش ہے کہ اب اسے اپنے فیصلے خود نہیں کرنا پڑتے‘ اس کیلئے فیصلے کوئی اور کرتا ہے۔
نیا نشہ‘ نئی زنجیر اور نئی غلامی مبارک ہو۔ اب ہم سب الگورتھم کے غلام ہیں۔ چاہیں نہ چاہیں۔ وہ اپنی مرضی آپ پر اس طرح مسلط کر کے رہے گا کہ آپ کو لگے یہ آپ کی مرضی ہے۔ ہم پہلے نو آبادیاتی برطانوی راج کے غلام تھے‘ اب چند کمپنیاں ہم پر حکومت کرتی ہیں۔ وہ آقا کمپنیاں جنہیں ایسٹ انڈیا کمپنی بھی نہیں کہا جا سکتا نہ ان کے مظالم گنوائے جا سکتے ہیں۔ بلکہ ہم اپنے قید کرنے والوں کے حق میں مسلسل بولتے ہیں۔ ایک نظر اپنے ہاتھوں اور پیروں کی زنجیریں دیکھیں‘ اپنی آزادیوں اور خود مختاریوں اور مجبوریوں کا جائزہ لیں۔ خود فیصلہ نہ کر سکیں تو مصنوعی ذہانت اور الگورتھم کے آقائوں سے پوچھ لیں۔ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہمارے آقا بدل گئے ہیں۔ ہمارے نشے بدل گئے ہیں۔ ہماری زنجیریں بدل گئی ہیں۔ لیکن ہماری قید نہیں بدلی۔ اے بزعم خود آزاد انسان! ہماری قید نہیں بدلی۔