"SUC" (space) message & send to 7575

ایک خوبصورت کھلاڑی کی یاد

جس کھیل کو زندگی بھر کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا لیکن اس نے ہمیشہ مسحور کیے رکھا وہ ٹینس ہے۔ ہاکی‘ کرکٹ‘ ٹیبل ٹینس‘ بیڈمنٹن وغیرہ تو ایک زمانے میں خود بھی کھیلے اور ہاکی‘ ٹیبل ٹینس میں اچھے معیار تک پہنچا‘ لیکن ٹینس کو بس دور دور سے دیکھنے کی سعادت ہی نصیب ہوئی۔ باغِ جناح جایا کرتا تو ٹینس کے کھلاڑی بھی کھیل رہے ہوتے۔ میں کچھ دیر دیکھ کر لطف اٹھاتا لیکن کم عمری ہی میں ذہن نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ کھیل میرے بس کا نہیں۔ بنیادی وجہ یہ تاثر تھا کہ یہ امیروں کا کھیل ہے۔ اتنے مہنگے ریکٹس‘ مہنگا سامان‘ نہایت مہنگے کلب ہم متوسط گھرانوں کے لڑکوں کے بس سے باہر تھے۔ رئوسا کے بیچ رہنا ایک الگ امتحان تھا اور ان سے ہمارا جوڑ بنتا ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ تو ایک پہلو تھا۔ اندازہ ہوتا تھا کہ اس کھیل میں جسمانی فٹنس بھی بہت چاہیے۔ تربیت‘ محنت بھی بہت درکار ہے۔ ایک دو بار ٹینس کا ریکٹ ہاتھ میں لیا تو حیرت ہوئی کہ اچھا! یہ اتنا بھاری ہوتا ہے۔ سائز بھی بیڈمنٹن ریکٹ سے کافی مختلف تھا۔ اس وقت ٹینس کے کلب خال خال تھے اور کھلاڑی بھی کم کم۔ ہاکی‘ فٹ بال‘ کرکٹ‘ بیدمنٹن‘ ٹیبل ٹینس وغیرہ کی نسبت جو کم خرچ تھے اور آسانی سے کھیلے جا سکتے تھے‘ ٹینس کی مقبولیت بہت کم تھی اور آگے جانے کے مواقع اس سے بھی کم؛ چنانچہ یہ امیروں کا کھیل ہی رہا‘ اسے عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ صرف پاکستان ہی نہیں دیگرترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کو بھی ٹینس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ آج بھی مغربی ترقی یافتہ ممالک ہی اس کھیل میں سرفہرست ہیں‘ کسی افریقی ملک کے کسی کھلاڑی کا نام آپ نے نہیں سنا ہو گا۔ اور تو اور عرب ممالک میں پیسے کی کمی نہیں لیکن کیا آپ نے کسی عالمی سطح کے عرب کھلاڑی کا نام سنا؟ بظاہر اس کی وجہ عدم توجہی اور ان ملکوں میں عدم مقبولیت ہے۔ بہت سے لوگوں کو تو اب تک معلوم نہیں‘ اور مجھے بھی بہت دیر میں علم ہوا کہ اس کے پوائنٹس کا نظام کیا ہے اور ضابطے کیا ہوتے ہیں۔ آج بھی جب خاص طور پر بڑے شہروں میں ٹینس کی سہولتیں پہلے کی نسبت زیادہ ہیں‘ کلب زیادہ کھل چکے ہیں‘ کئی جگہ کوچ رہنمائی کیلئے دستیاب ہیں‘ ٹینس نوجوانو ں میں کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ کسی حد تک سمجھ آتی ہے۔ سکواش بھی ایک مہنگا اور امیروں کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ اس میں بھی جسمانی فٹنس بہت درکار ہے۔ کلب اور کوچ بھی بہت کم ہیں‘ لیکن اس میں پاکستان کا نام دنیا بھر میں جگمگاتا رہا ہے۔ ہاشم خان‘ جہانگیر خان‘ جان شیر خان وغیرہ ان ستاروں کے نام ہیں جو کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ یہ بڑا سوال ہے کہ اسی ملک اور انہی سہولتوں کے فقدان کے ساتھ اگر سکواش میں پاکستان دنیا بھر میں نام کما سکتا ہے تو ٹینس میں کیوں نہیں؟ اس کی وجہ مجھے یہی نظر آتی ہے کہ سکواش کو حکومتی سرپرستی بہت بعد میں ملی۔ ان کھلاڑیوں نے اس سے پہلے اپنی محنت اور انگلینڈ میں ٹریننگ سے اپنا نام بنا لیا تھا۔ ٹینس میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی جو بھی وجہ ہو‘ حتمی نتیجہ یہ ہے کہ ٹینس کا کوئی پاکستانی کھلاڑی عالمی سطح پر شاذ ونادر نظر آتا ہے۔ ایک نام کے علاوہ کوئی نام مجھے معلوم نہیں اور یہ نام بھی بین الاقومی رینکنگ میں زیادہ اہم نہیں۔ لیکن ٹینس یہاں مقبول ہو یا نہ ہو‘ مغربی ممالک میں ٹینس کی بے پناہ مقبولیت کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔
ایک زمانے تک ٹینس سے واجبی سی دلچسپی رہی۔ بس اتنا علم تھا کہ امریکی سٹار کھلاڑی جان میکنرو بہت جلدی غصے میں آ جاتے ہیں۔ یا پِیٹ سمپراس کی سروس ظالم ہے۔ یا مارٹینا ناوراتلووا کی داستانیں مشہور ہو رہی ہیں۔ آندرے اگاسی‘ بورس بیکر اور سٹیفی گراف وغیرہ کے نام سن رکھے تھے لیکن 2001ء میں ٹی وی چینلز الٹتے پلٹتے ایک لمحہ ایسا آیا جس نے ایک زمانے تک مجھے مسحور کر کے رکھ دیا۔ ومبلڈن کا میچ جاری تھا اور لمبے بالوں والا ایک 20 سالہ خوبصورت لڑکا کورٹ میں تھا۔ اس کے سامنے عالمی چیمپئن پیٹ سمپراس تھا۔ اس نے اپنے بیک ہینڈ سے سمپراس کے بیک ہینڈ پر ایک انتہائی طاقتور شاٹ لگائی۔ شاٹ تو بیحد خوبصورت تھی ہی‘ اس بات نے حیران کر کے رکھ دیا کہ یہ شاٹ اسی دائیں ہاتھ کی طاقت سے لگائی گئی تھی جس میں ریکٹ تھا۔ دوسرا ہاتھ شامل نہیں تھا ورنہ ننانوے فیصد کھلاڑی بیک ہینڈ شاٹ کے وقت دوسرے ہاتھ کی طاقت شامل کیا کرتے ہیں۔ ریکٹ کا وزن‘ گیند کا وزن اور فاصلے کو مدنظر رکھیں تو یہ شاٹ مبہوت کن تھی۔ یہ بیڈمنٹن کا ریکٹ نہیں تھا‘ نہ ٹیبل ٹینس کی ہلکی گیند تھی۔ مجھے میچ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ نوجوان سوئٹزرلینڈ کا راجر فیڈرر تھا۔ اس کا سٹائل انتہائی خوبصورت تھا۔ اس کی سروس انتہائی تیز اور غیر متوقع زاویوں پر گرتی تھی اور مخالف کھلاڑی سروس کا جواب دینا تو کیا‘ بعض اوقات اپنی جگہ سے ہلنے بھی نہیں پاتا تھا۔ ابھرتے ہوئے گمنام کھلاڑی اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی کا میچ پڑ جائے تو نامور کھلاڑی زیادہ دبائو میں ہوتا ہے۔ فیڈرر نے سمپراس سے میچ جیتا اور روتے ہوئے کورٹ میں گر گیا۔ یہ عالمی چیمپئن کے سامنے بہت بڑی فتح تھی۔ 2001ء ومبلڈن فائنل بھی فیڈرر نے جیتا اور یہ اس کے سفر کا آغاز تھا۔ اس کے بعد میں کوشش کیا کرتا کہ فیڈرر کا کوئی میچ مس نہ کروں۔ آندرے اگاسی جیسے اعلیٰ کھلاڑی سے فیڈرر کا میچ بھی کمال تھا۔ ہر کھلاڑی اس کے سامنے بے بس نظر آتا تھا۔ راجر فیڈرر کے سبک اور خوبصورت سٹائل نے ایک دنیا کو بہت جلد اس کا گرویدہ بنا لیا۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ ٹینس بہت آسان ہے۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ نوجوان ٹینس کی دنیا کا عظیم ترین کھلاڑی ثابت ہوگا۔ اور یہ بات فیڈرر نے سچ کر دکھائی۔ ومبلڈن‘ آسٹریلین اوپن‘ فرنچ اوپن‘ یو ایس اوپن‘ شنگھائی اوپن‘ کلے کورٹ‘ گراس کورٹ وغیرہ وغیرہ۔ کون سی جگہ تھی جہاں اس نے خود کو اب تک کے ٹینس کھلاڑیوں میں عظیم ترین ثابت نہیں کیا۔ وہ 310 ہفتوں یعنی ساڑھے چھ سال تک ورلڈ نمبر ون رہا جن میں 237 ہفتے یعنی لگ بھگ پانچ سال بلا کسی وقفے کے تھے۔ کھیل کے علاوہ اس کی خوش اخلاقی‘ خوش مزاجی‘ اعلیٰ سپورٹس مین سپرٹ‘ منکسر المزاجی سب یہ ثابت کرتے تھے کہ نہ اس سے پہلے کوئی ایسا کھلاڑی تھا نہ بظاہر اس کے بعد کوئی ایسا ہوگا۔ 20 گرینڈ سلام ٹورنامنٹ جیتنا اس سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا تھا۔ بعد میں سپین کے رافیل نڈال اور سربیا کے ناواک جوکووچ نے یہ ریکارڈ توڑ دیا لیکن فیڈرر کا سحر کبھی کم نہیں ہوا۔ رافیل نڈال سے فیڈرر کا 2008ء کا فائنل مقابلہ ایک نشے کی طرح تھا جو مجھے کبھی نہیں بھول سکے گا۔ نڈال فیڈرر کے سخت حریف کے طور پر ابھرا اور فوراً بعد ہی نوواک جوکووچ نے سخت ترین حریف کی جگہ لے لی۔ ان تین بڑے کھلاڑیوں کے باہمی میچ ایسے یادگار ہیں کہ ایسے میچ ٹینس کی دنیا نے کبھی نہیں دیکھے۔ فیڈرر 2022ء میں ریٹائر ہو گیا او رنڈال نے چند ماہ پہلے ریٹائرمنٹ لے لی۔ جوکووچ اپنے کیریئر کے اختتام پر ہے اور اس کی ریٹائرمنٹ شاید چند ماہ میں ہو جائے گی۔ لیکن یہ تین بڑے کھلاڑی ہمیشہ یاد رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عہد میں ٹینس کے شائقین خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے یہ تین کھلاڑی دیکھے ہیں۔
اب ومبلڈن 2025ء کا مردوں کے سنگلز فائنل کا مقابلہ سپین کے 22 سالہ کارلوس الکاراز اور اٹلی کے 24 سالہ جینک سنر کے درمیان ہے۔ الکاراز اس وقت عالمی نمبر ون ہے جبکہ سنر 2024ء میں نمبر ون رہ چکا ہے۔ دونوں کمال ہیں لیکن الکاراز کا سٹائل زیادہ خوبصورت ہے۔ اس وقت جب میں یہ لکھ رہا ہوں‘ نتائج کا انتظار ہے اور کالم کی اشاعت تک فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ میرا گمان ہے کہ کارلوس الکاراز جیتے گا‘ اگرچہ مقابلہ انیس بیس کا ہی ہے۔ فیڈرر بھی ناظرین میں موجود ہو گا۔ سوچتا ہوں کہ الکاراز کا عہد شروع ہو چکا ہے لیکن کیا وہ فیڈرر کے عہد کو دھندلا سکے گا؟ وہ مصرع یاد آتا ہے کہ:
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں