"SUC" (space) message & send to 7575

ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں

پاکستان تحریک انصاف خلفشار کا شکار ہے اور اپنی صفوں کے شگاف بھرنے میں اسے ناکامی ہو رہی ہے لیکن وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے عمران خان صاحب کی رہائی کے لیے 90 دن کا الٹی میٹم دے دیا ہے جس کے مطابق‘ یا اس مدت میں تحریک انصاف عمران خان کو رہا کرائے گی ورنہ وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ دیگر پارٹی رہنماؤں نے اسے پارٹی پالیسی قرار نہیں دیا۔ اگرچہ علی امین گنڈاپور نے حال ہی میں ریاستی اداروں کو بامقصد مذاکرات کرنے اور موجودہ صورتحال سے آگے بڑھنے کی بات بھی کی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مقتدرہ اب بھی مذاکرات پر رضامند نہیں ہوتی اور عمران خان بدستور حراست میں رہتے ہیں تو کیا تحریک انصاف کوئی کامیاب احتجاجی تحریک چلا سکے گی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے اور اسی سوال نے جماعت کو دھڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اسی ماحول میں آج خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا الیکشن بھی ہے۔
اگست 2023ء سے آج تک عمران خان کی اسیری کو دو سال ہونے کو ہیں۔ ابتدا میں خیال تھا کہ عمران خان عوام میں بہت مقبول ہیں اس لیے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔ پھر جب وہ گرفتار ہوئے تو گمان یہی تھا کہ چند مہینوں میں خان صاحب باہر ہوں گے اور زیادہ جوش وخروش سے پارٹی چلا رہے ہوں گے۔ 2024ء میں انتخابات ہوئے تو نتائج پر بے شمار سوال اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم انتخابات کے شفاف‘ غیر شفاف‘ فارم 45 یا فارم 47 پر پہلے کئی بار بات کر چکے۔ اس وقت بات عوامی لہر کی ہے جس کے ذریعے کوئی تحریک چلائی جا سکتی ہے۔ انتخابات کے بعد یہ لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تو یہی سمجھاگیا کہ یہ لہر نہ صرف اڈیالہ جیل کی فصیلیں بلکہ موجودہ سیاسی بندوبست کو بھی بہا لے جائے گی لیکن اس ایک سال نے ثابت کیا کہ یہ صرف ایک وقتی مدوجزر تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی بندوبست پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ مقتدرہ اور سیاسی حکمرانوں کے درمیان ہم آہنگی نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بڑے رہنما بدستور جیلوں میں ہیں اور مشکلات سے باہر نکلنے کی پارٹی کی حکمت عملی ابھی تک ابہام اور اختلاف کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی سیاسی بندوبست نے‘ خواہ اس پر کتنے ہی سوال اٹھائے جائیں‘ کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ملک معاشی گرداب سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔
مئی 2025ء کے پاک بھارت معرکے نے نہ صرف حکومت کو مضبوط بنا دیا بلکہ فوج کی ساکھ بھی بہت بہتر کر دی۔ خارجہ پالیسیوں میں بھی بڑی کامیابیاں حاصل کی گئیں‘ بین الاقومی سطح پر پاکستان کا مقام بلند ہوا اور چین‘ ترکیہ‘ آذربائیجان سے مزید قریبی رشتے قائم ہوئے۔ ایران‘ افغانستان سے بھی تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ اندرونی طور پر مہنگائی میں کمی ہوئی ہے جس نے لوگوں کی کمر توڑ رکھی تھی۔ اس وقت سب کچھ اچھا نہیں ہے لیکن سب کچھ تو پی ٹی آئی کے دور میں بھی اچھا نہیں تھا۔ کارکردگی کے نام پر پی ٹی آئی کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں اور مزید بربادی اس کے غلط فیصلوں نے کر دی ۔ شاہ محمود قریشی‘ پرویز الٰہی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں‘ ان کے مشوروں پر چلنا بہتر ہوتا۔ بہت سے لوگ جنہوں نے تحریک انصاف کا ایک زمانے تک ساتھ دیا‘ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر ان ہاتھوں میں ملک دوبارہ چلا گیا تو کیا بنے گا۔ ملک کے اندر اور بیرون ممالک میں خان صاحب کے بت ٹوٹے تو مسئلہ خان صاحب کی مقبولیت کا نہیں رہا‘ ان کی اہلیت کا بن گیا۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کو مائنس کر دیں تو پی ٹی آئی میں دم باقی نہیں رہتا مگر شریف خاندان کو مائنس ایک طرف کر دیں تو بھی مسلم لیگ بہرحال اپنی کوئی نہ کوئی حیثیت رکھے گی۔ اس میں تجربہ کار اور معروف لوگ موجود ہیں۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی ہے۔ زرداری صاحب اور بلاول کو نکال کر بھی پیپلز پارٹی میں کافی کچھ بچ جاتا ہے۔ تو کیا ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کوئی تحریک چلا سکتی ہے؟ لوگوں کو گھروں سے نکال سکتی ہے‘ بڑی ریلی‘ بڑے دھرنے اور بڑے لانگ مارچ سے حکومت کو جھکا سکتی ہے؟ اپنی شرائط منوا سکتی ہے؟ میرے خیال میں 2023ء کی نسبت 2025ء میں بہت تبدیلی آ چکی ہے اور اس وقت ایسی کوئی تحریک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
برصغیر پاک وہند کی حد تک کچھ باتیں بار بار ثابت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ عوام الناس کو بنیادی طور پر کسی خاص طرزِ حکومت‘ خاص جماعت سے غرض نہیں ہوتی‘ عام آدمی کی غرض ہوتی ہے تو یہ کہ اس کی زندگی میں کتنی بہتری آئی ہے اور یہ کہ پہلے دور سے نئے دور میں اس کی مشکلات میں کتنا اضافہ یا کتنی کمی ہوئی ہے۔ آج کے دور میں پرنٹ میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا‘ سوشل میڈیا سبھی کسی نہ کسی خاص نظریے اور بیانیے کو لے کر چلتے ہیں اور بہت حد تک لوگوں کی رائے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں لیکن آج بھی ذرا گلی محلوں میں نکل جائیں۔ تھڑوں پر بیٹھے لوگوں سے بات کریں‘ رکشہ ڈرائیوروں‘ ریڑھی والوں‘ مزدوروں یا کسانوں سے بات کریں۔ 50 سے 60 فیصد لوگ یہی کہتے سنائی دیں گے: چھوڑیں جی! کوئی آئے‘ کوئی جائے ہمیں کیا؟ ہماری زندگی تو وہی رہنی ہے۔ وہی احمد مشتاق والی بات کہ
موسمِ گل ہو کہ پت جھڑ ہو‘ بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
برصغیر کے مزاج کو عمومی اور عوامی سطح پر جمہوریت‘ سیاسی جماعتوں‘ نظام حکومت وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور زمانے کے بہت بدل جانے کے باوجود یہ مزاج بہت تبدیل نہیں ہوا۔ برصغیر کے مزاج میں شخصیت پرستی ہمیشہ سے بہت ہے‘ جماعت پرستی بہت کم۔ شخصیت پرستی کی بہت سی مثالیں بار بار سامنے آتی رہیں۔ ایک اور بات برصغیر کے مزاج میں بار بار تجربو ں سے درست ثابت ہوئی ہے۔ مغرب نے مذہب کو بطور عقیدہ ترک کر کے سیاست کو مذہب کی جگہ دے دی۔ دنیا کے موجودہ سیاسی نظام برصغیر میں باہر سے آئے لیکن برصغیر میں سیاسی نظام کبھی عقیدے اور مذہب کی جگہ نہیں لے سکا۔
پاکستان میں کتنے وزیراعظم‘ کتنے صدر‘ کتنے ڈکٹیٹر گزرے۔ ایوب خان‘ ضیا الحق اور مشرف کے ادوار کی مجموعی مدت لگ بھگ 30 سال بنتی ہے۔ 78 سال کی عمر میں ملک کے 30 سال فوجی اقتدار رہا۔ ان میں سے جنرل ضیا الحق کا دور سب سے طویل تھا اور اس دور میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر بھی لٹکایا گیا جو عوا م میں مقبول لیڈر تھے۔ اگر کسی عوامی تحریک سے فوجی اقتدار کا تختہ الٹا جا سکتا تو اس وقت یہ ہو جانا چاہئے تھا لیکن یہ نہیں ہو سکا۔ شہروں میں سناٹا ضرور تھا اور وہ بھی کچھ دن تک لیکن تحریک کوئی نہیں اُٹھ سکی۔ اب کتنی ہی یادگاریں قائم کر لی جائیں‘ کتنی ہی باتیں بنا لی جائیں‘ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت سب نے خاموشی ہی میں عافیت جانی تھی اور اپنی کھال بچانا زیادہ ضروری سمجھا تھا۔
پی ٹی آئی کتنی ہی جوشیلے نوجوانوں پر مشتمل ہو‘ اسے اپنی قوت پر کتنا ہی بھروسا ہو‘ خان صاحب عوام میں کتنے ہی مقبول ہوں‘ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے جس پر ایک سال پہلے تھی۔ ٹرمپ سے امیدیں پوری نہیں ہوئیں اور یہ دور جنرل باجوہ کا نہیں‘ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا ہے۔ کے پی حکومت پی ٹی آئی کا ایک ٹھکانہ ہے لیکن عدم اعتماد کے ذریعے اگر یہ ٹھکانہ بھی اس سے چھن گیا تو زمین اس کے پیروں تلے سے نکل جائے گی۔ بڑی تحریک کے لیے بڑا نعرہ بھی چاہیے۔ خان صاحب کی رہائی کا نعرہ کام نہیں کر سکے گا۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے پاس اس وقت مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کوئی بھی جذباتی فیصلہ تبدیلی نہیں لا سکے گا اور جماعت کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہو سکتی ہے۔ میری مانیے شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی صاحب سے مشاورت کیجیے۔ صرف خان صاحب کی رہائی کی کوشش کریں‘ ان سے ہدایا ت نہ لیں۔ پہلے ان ہدایات سے کیا ہوا جو اَب ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں