کالج یونیورسٹی کے زمانے میں سینما عروج پر تھا۔ اْس زمانے میں اکثر سینما نئی فلمیں دکھایا کرتے تھے لیکن بعض اوقات سینما مالکان پرانی مقبول فلمیں بھی نمائش کے لیے لگایا کرتے تھے۔ یہ بھی خاصا رش لیتی تھیں اور شاید کاروباری تقاضے بھی پورے ہو جاتے تھے۔ پرانی مقبول فلموں کی پبلسٹی کے لئے قد آور اشتہارات میں ''شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ لازمی لکھا جاتا تھا‘ جو معمر فلم کو پُرکشش بنانے کے لئے کافی تھا۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات میں بھی برسوں پرانی فلموں کے ساتھ ''شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ لکھا جاتا تھا۔ اب روایتی سینما ہال، اخبارات میں فلمی اشتہارات کے ڈھیر اور افتتاحی شو کے دیوانے قصۂ پارینہ ہو چکے ہیں۔
''شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ کی یاد ایم کیو ایم کے حوالے سے تازہ ترین خبروں نے تازہ کی ہے۔ ان خبروں میں ''انکشاف‘‘ کیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے صف اول کے بعض لیڈر بھارت سے مالی امداد وصول کرتے رہے ہیں اور قائد تحریک الطاف حسین بھی اس آمدنی سے آگاہ تھے۔ انکشاف کا سر چشمہ طارق میر اور محمد انور نامی ایم کیو ایم کے دو رہنمائوں کے تصدیقی بیانات ہیں‘ جن پر بی بی سی نے ایم کیو ایم کے بارے میں اپنی تازہ ترین نیوز ڈاکومنٹری استوار کی ہے۔ بی بی سی کے انکشافات کے بعد ملکی سیاست اور صحافت میں ہلچل کی کیفیت ہے۔ نیوز چینلز کے کرنٹ افئیرز پروگراموں میں مباحثے جاری ہیں۔ ایم کیو ایم کے ترجمان حسب توقع تردید اور وضاحت پر کمربستہ ہیں۔
میرے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ حالیہ صورتحال کو انکشاف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور شاید اقدامات بھی اسی پیرائے میں کیے گئے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ منظرنامہ دیکھ کر پرانی مقبول فلموں کے اشتہارات پر لکھا ہوا ''شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ یاد آتا ہے۔ ماضی میں بھی بھارت سے مالی امداد کا واویلا اعلیٰ ترین سطح پر بھی اٹھایا گیا تھا۔ مہینہ اور سال جون 1992ء تھے۔ سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کلین اپ آپریشن شروع کیا گیا۔ وفاق میں حکومت میاں نواز شریف صاحب کی تھی۔ آپریشن کے پلان کے مطابق سندھ کے بڑے شہروں میں بھی ریاست دشمن عناصر کا قلع قمع کرنا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باوثوق معلومات کی بنیاد پر کارروائی کا آغاز کیا‘ تو وفاق نے دودھ میں مینگنیاں ڈالنا شروع کر دیں۔ سب سے پہلے ن لیگ کے لیڈروں نے گلوگیر انداز میں پریس کانفرنس کی۔ الفاظ وہی تھے جو آج کل بھی کسی
کامیاب چھاپے کے بعد سنائی دے رہے ہیں کہ ''ادارے کو آئین کے دائرہ میں رہ کر کا م کرنا چاہیے‘‘۔ اس کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو ''بانیان پاکستان‘‘ کی اولاد یاد آ گئی‘ حالانکہ اردو بولنے والوں کی بھاری اکثریت قانون شکن لونڈے لپاڑوں سے خود عاجز آ چکی تھی‘ لیکن محلے میں عزت کس کو عزیز نہیں ہوتی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات مشکل ترین ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ دوسری جانب سیاست کی ترجیحات تھیں۔ دراصل پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیمابی طبیعت کے حامل وفاقی حکمران کراچی کے بنیادی اسلوب سے ہی ناواقف نکلے‘ یوں روشنیوں کے شہر کا امن غارت کرنے والے مطلوب عناصر ریاستی اداروں کو جُل دے کر سیاست کی پتلی گلی سے نکل گئے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے پریس ریلیز زمینی حقائق کی عکاسی کر رہے تھے۔ کراچی اور حیدر آباد میں فوج کو ایک ایسا فرض سونپ دیا گیا تھا‘ جس کی انجام دہی میں انہیں ''اپنے ہی دوستوں‘‘ کی مخالفت کا سامنا تھا۔ آج کل جون 1992ء کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے تفصیلات بیان کرنے کا منفرد انداز ہے۔ بدقسمتی سے کوئی سرکاری ادارہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اْن افسروں اور جوانوں کو یاد نہیں کرتا‘ جو آپریشن کے دوران ریاست کا پرچم تھامے اپنی جان سے گزر گئے۔ آپریشن کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو چن چن کے نشانہ بنایا گیا۔ فوج والے اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ ریاستی بے عملی کی اصل قیمت سندھ پولیس کے اْن افسروں اور جوانوں نے ادا کی جو ریاست اور امن کے دشمنوں کی پکڑ دھکڑ میں نمایاں تھے۔ سیاسی ترجیحات کو اولیت دینے کی دوڑ میں کراچی کا حْسن ہمیشہ کے لئے خون آلود کر دیا گیا۔ لسانیت، فرقہ واریت اور علاقائیت کے نام پر ووٹ گردی کرنے والوں کو کھلی چھٹی تھی۔ ہر ایک نے اپنے اپنے علاقے سمیٹ لئے یوں کراچی کے پڑھے لکھے عوام کو خوف کے عفریت نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ اْس زمانے کے اخبارات کے صفحات گواہ ہیں۔ حالیہ انکشافات تب بھی اس انداز میں نمایاں ہوتے تھے‘ لیکن منطقی انجام مزید خونریزی، افراتفری اور لاقانونیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ سن بانوے میں بھی غیر ملکی ایجنٹوں کی موجودگی کا تذکرہ ہوا۔ بھارت سے خصوصی طور پر
''درآمد‘‘ شدہ تربیت یافتہ گرفتار ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والوں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ کارنامے انجام دیے‘ لیکن آپریشن کے بعد گرفتار شدہ ''باعزت‘‘ قرار پائے اور ریاستی اہلکاروں کو جان بچانا مشکل ہو گیا۔
کراچی سمیت سندھ میں سابق آپریشن کی تاریخ اور تفصیلات تکلیف دہ اور کسی حد تک شرمناک بھی ہیں۔ میں بانوے میں ہونے والے آپریشن کا عینی شاہد ہوں۔ شاید اسی لئے آج کل کراچی کی روداد سن کر ''شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ کے الفاظ بار بار یاد آ رہے ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی زعما نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کراچی کے ساتھ سرعام زیادتی کا سیاسی کھیل جاری رکھنا ہے اور اس کے شہریوں کی آنے والی نسلیں بھی ''بچہ جمہورا‘‘ نظام کی یرغمالی رہیں گی تو کم از کم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معاف کر دیں۔ انہیں بار بار المناک صورتحال سے دوچار مت کریں۔ کراچی میں امن ایک پیچیدہ عمل ہے‘ خاص طور سے ایسے حالات میں کہ جب بین الاقوامی پاوندے اور وطن عزیز کے ارد گرد سے تربیت یافتہ اہلکار مختلف لبادوں میں شہر کے بیچوں بیچ موجود ہیں۔
سیاسی عزم میں ناپختگی، عدم تسلسل اور خام خیالی سے قانون نافذ کرنے والوں کا اعتماد، جذبہ اور ربط باہمی مجروح ہو سکتا ہے۔
یاد رکھیے! اگر 1992ء کی مانند آج بھی مطلوب عناصر کو سیاست کی پتلی گلی سے نکالنا مقصود ہے‘ تو بلند بانگ دعوے اور انکشافات پر مبنی پرانی مقبول فلم کو ''شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ کے ساتھ دوبارہ پیش نہ کیا جائے۔