اذانِ فجر کی آواز بُلند ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ہزار مہینوں سے افضل رات چمکتی صبح میں تبدیل ہو گئی۔شب بھر کروڑوں پاکستانی خالقِ حقیقی کے حضور سر بسجود تھے۔ دوسری جانب اُن کے سیاسی زعمأ رات بھر دھما چوکڑی میں مصروف رہے ۔ الزام تراشی اور عامیانہ گفتگو کا وہ بازار اتنا گرم ہوا کہ دیکھنے اور سننے والے توبہ توبہ کرتے رہ گئے۔ ہاہا کار کا یہ سلسلہ چند روز سے جاری ہے ۔ اب تھانوں میں مقدمات کے اندراج کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے ۔ آغاز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر مقدمات درج کرانے سے ہوا۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور وزیر ِ دفاع خواجہ آصف کے خلاف بھی پرچے کٹ رہے ہیں۔ یہ صورت ِ حال سیاست کے پیشہ ور کھلاڑیوں کے لئے پریشانی کا سبب نہیں ہے ۔یہ کھیل اُنہیں روز ِ اول سے بے حد مرغوب ہے۔ سیاست کا کھلاڑی ہر قسم کی پوچھ گچھ سے بھی خود کو آزاد تصور کرتا ہے ۔ اگر کسی ریاستی ادارے نے حال احوال پوچھنے کی جسارت کی تو ظالم کو مظلوم بنانے کے ''ماہرین‘‘ حرکت میں آجاتے ہیں۔اس مظلومانہ حرکت میں میڈیا جس کا اقبال روز بروز بلند ہو رہا ہے‘ ماہرین کی بھرپور مدد کرتا ہے ۔
وطن عزیز کے حساس ادارے موجودہ صورت ِحال کا مثالی صبر اور برداشت سے سامنا کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب ِ عضب میں بھر پور کامیابی نے اُن سیاسی اور ابلاغی عناصر کو پریشان کر دیا ہے جو پاک افواج کے در پے آزار ہیں۔ یہ عناصر فوج کے کارناموں اور کردار کو عوام کی نظر میں مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہے کہ فوج کو کسی طور تنہا کر کے دباؤ میں لایا جائے۔ دنیا میں شاید یہ انوکھی صورت حال ہو گی کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں برسر پیکار فوج کے افسروں اور جوانوں پر اُن کے ہم وطن بعض سیاسی زعمأ اور چند ابلاغی کارندے دن رات آوازیں کستے رہیں۔
کئی ہفتوں سے جاری اس مذموم مہم کا براہ راست اور بالواسطہ نشانہ ''ضرب ِعضب‘‘ میں مصروف پاک افواج اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں امن و امان بحال کرنے کی ڈیوٹی پر مامور رینجرز ہیں۔ نواز لیگ‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس نیک کام میں ایک دوسرے کاہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف کے قائدین‘ حصہ بقدر جثہ کے مترادف پوری کر رہے ہیں ۔
گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے افواج اور رینجرز کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اینٹ سے اینٹ بجانے کا رجزیہ اعلان کیا۔ اُن کی متنازع تقریر میں وہ سب کچھ تھا جس کی ایک سابق سپریم کمانڈر سے توقع نہیں تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس تقریر کے بعد زرداری صاحب دوبئی میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں ۔ اُن کے برخوردار بلاول زرداری نے والد گرامی کی ''ناجائز‘‘ تقریر سے پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی لیکن فی الحا ل ساری ذمہ داری وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے نا تواں کندھوں پر ہے۔
دوسری جانب الطاف حسین صاحب کے بین الاقوامی مسائل گمبھیر ہو گئے ہیں۔ اب لندن میں بھی عرصہ ٔ حیات دلکش نہیں رہا۔ قریبی رفقا نے مبینہ طور سے بھارتی جاسوس ایجنسی ''را‘‘ سے مالی مدد لینے کا اقرار کیا ہے ۔ اس کے بعد الطاف حسین کا لہجہ روز بروز تلخ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں اُنہوں نے افواج اور رینجرز کے بارے میں انتہائی عامیانہ الفاظ استعمال کئے۔
ایم کیو ایم بلا شبہ سندھ کے شہری علاقوں خاص طور سے کراچی کی مقبول ترین جماعت ہے ۔ اُسے یہ مقام دلانے میں بعض سرکاری عناصر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کی ایک ''ذہنیت‘‘ کے طور پر پرورش کی گئی۔ مشرف دور سے قبل بھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے ادوار میں ایم کیو ایم سے بیک وقت ''محبت اور نفرت‘‘ کا کھیل جاری رکھا۔ میڈیا بوجوہ اُس کے موقف کو سر آنکھوں پر بٹھانے پر مجبور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سچ کو قابل ِ قبول جھوٹ میں تبدیل کرنا اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ 1992ء کے آپریشن کلین اپ میں ابتدائی کامیابی کو حتمی ناکامی میں ڈھالنے میں ایم کیو ایم کی سوچی سمجھی حکمت عملی کو دخل تھا۔ ایم کیو ایم ایک خاص حکمت عملی کے تحت بھرپور حمایت کی گاجر دکھا کر پہلے فوج اور رینجرز کو کراچی کے میدان میں اتارتی ہے اور پھر نواز لیگ یا پیپلز پارٹی سے ''آنکھ مٹکا‘‘ کر کے پلٹ کر نیچے سے ''زمین‘‘ کھینچ لیتی ہے ۔ اُس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے تا حیات اپنی صفائیاں دیتے رہتے ہیں۔1992ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اُس زمانے میں نواز لیگ اچانک ایم کیو ایم کے غم میں دُبلی ہو گئی تھی اور اب پیپلز پارٹی کو اندیشہ سود و زیاں نے ڈس لیا ہے۔
میرے خیال میں رینجرز قیادت کوحالیہ آپریشن میں ایم کیو ایم کے جوابی طریقہ واردات کا بھرپور ادراک نہیں تھا ۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ جماعت نیک نیتی سے جرائم پیشہ ، بھتہ خور اور امن دشمن عناصر کی صفائی چاہتی ہے ۔ موجودہ آپریشن کے ابتدائی لمحات پُر سکون رہے اور جب رینجرز ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ''ریڈزون‘‘ میں داخل ہوئے تو بھونچال آگیا۔ فی الحال پیپلز پارٹی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایم کیو ایم کو آگے کیا ہوا ہے کیونکہ اس کے کارکن سخت ترین تنظیمی ڈھانچے کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بہتر انداز میں سامنا کر سکتے ہیں۔ رینجرز کو آنے والے ایام میں ناموافق ''گھیراؤ‘‘ کا سامنا ہو گا‘ خاص طور سے میڈیا میں منفی پروپیگنڈا اس انداز میں کیا جائے گا کہ سب ''الامان الحفیظ‘‘ پکار اُٹھیں گے ۔ کراچی میں فوج اور رینجرز کو امن و امان کی اہم ڈیوٹی میں ''ملوث‘‘ کرنے میں نواز لیگ کی قیادت پیش پیش تھی جو اب آہستہ آہستہ 1992ء کے کردار پر واپس آرہی ہے۔ فوج کے بارے میں بے سرو پا بیانات جاری کرنے میں نواز لیگ کے بعض زعمأ الطاف حسین اور آصف علی زرداری صاحب سے کم نہیں ہیں۔ حال ہی میں وزیر ِ دفاع خواجہ آصف صاحب نے از سرنو گوہر افشانی فرمائی اور انہوں نے آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام پر الزام لگایاکہ دونوں نے عمران خان کے دھرنے کی سرپرستی کرتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی ۔ سبحان اللہ۔ اگر یہ سچ ہے تو سب سے پہلے وزیر دفاع کو اپنے منصب سے مستعفی ہونا چاہیے تھا۔ چند روز قبل ہی وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے فرمایا کہ آبپارہ والی ق لیگ پارہ پارہ ہو گئی ہے ۔ سیاست کے ادنیٰ طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ آبپارہ سے کیا مراد ہے۔ پرویز رشید صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ق لیگ مُلکی سیاست کا ایک ایسا اژدہا ہے جو ناموافق موسم میں اپنے بل میں محو استراحت رہتا ہے۔ جونہی عسکری بینڈ کی موسیقی بلند ہوئی وہ اپنے بل سے بر آمد ہو گا اور سب کو نگل جائے گا۔ نواز لیگ ماضی کی طرح اژدہا کی پسندیدہ خوراک ثابت ہو گی۔
کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ایک بار پھر بازار ِ سیاست کے کوفی سنگباری کر رہے ہیں ۔ وفاق کا کردار حسب ِتوقع ''پر اسرار‘‘ ہے ۔ شاید کراچی میں انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لینے کے نام پر ایم کیو ایم سے دوبارہ ''آنکھ مٹکا‘‘ ہو جائے اور قانون نافذ کرنے والے کراچی میں چلے ہوئے کارتوسوں کی ملکیت کے بارے میں انکوائریاں بھگتتے رہ جائیں!