نیوز لیکس کے حوالے سے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔ کم از کم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی دس مئی 2017ء کی پریس کانفرنس یہی خوشگوار پیغام دے رہی ہے۔ وطنِ عزیز کی معروضی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو اس سلجھائو کے سوا کوئی اور آپشن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بعض حلقے اس کیفیت کو ''بندوبستِ عارضی‘‘ قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ ان کے پیشِ نظر ن لیگ کی قیادت کا ماضی ہے جو ایک مدت سے اپنی سیاست کو اداروں سے ٹکرائو کے بل بوتے سہارا دیتی ہے۔ یہ ادارے حالات کے مطابق کبھی عسکری اور کبھی عدالتی ہو جاتے ہیں۔ نیوز لیکس کے آغاز اور انجام سے سب واقف ہیں۔ عسکری اداروں کو بخوبی علم ہے کہ وزیر اعظم ہائوس میں منعقدہ ایک اہم ترین میٹنگ سے منسوب ''معلوماتی‘‘ خبر کہاں کہاں سے گھوم پھر کر فاتحانہ انداز میں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوئی۔ ہو سکتا ہے فسادِ خلق کے خوف سے متعلقہ ادارے نے باعزت خاموشی کو ترجیح دی ہو۔ البتہ رائج الوقت جمہوریت کی بدولت برسرِ اقتدار جماعت نے سیاسی فوائد حاصل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ فوج حسبِ توقع اپنے موقف پر قائم رہی‘ جس کے باعث میڈیا کے بعض حلقے اور حزبِ اختلاف کی سرگرم سیاسی جماعتیں‘ مزید متحر ک ہو گئے۔ معاملات سلجھائو کے برعکس الجھائو کی جانب گامزن تھے۔ جمہوری حکومت اور عسکری قیادت میں فاصلے کی خبریں گردش میں تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں بحث مباحثے اور پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی آرا بھی ناخوشگوار صورتِ حال کی نشاندہی کر رہی تھی۔ ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی فوج سے اختلافِ رائے کو بنیاد بنا کر سیاسی توانائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ دونوں جماعتیں سیاست کے میدان میں ''ہم پیالہ و ہم نوالہ‘‘ ہیں۔ مینو پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک مدت سے دسترخوان ایک ہی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے مئی 1989ء میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کو ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس زمانے کی عسکری قیادت کے نزدیک یہ فیصلہ انتہائی ناپسندیدہ تھا۔ ایک مرحلے پر براہ راست ٹکرائو واضح دکھائی دے رہا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو باور کرایا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شمس الرحمٰن کی تعیناتی سے آئی ایس پی آر کو پیشہ ورانہ لحاظ سے نقصان کا اندیشہ ہے؛ تاہم وزیر اعظم پاکستان نے نظرثانی سے انکار کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شمس الرحمٰن کلو کو تکلیف دہ صورتحال کا سامنا رہا‘ اور وہ اگست 1990ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ اُس زمانے کی حاضر سروس عسکری قیادت نے صبر و سکون کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ وزیرِ اعظم پاکستان کے غیر پیشہ ورانہ طرز عمل کی ''لاج‘‘ رکھی‘ اور کسی قسم کے براہ راست تصادم سے پرہیز کیا۔
بات نیوز لیکس کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ نے واضح پیغام دیا کہ صرف ایک فریق کا موقف ہی حتمی فیصلہ نہیں کہلائے گا۔ اس کے بعد گفتگو میں مزید تیزی آ گئی اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ٹویٹ کو جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا۔ وزیرِ داخلہ کا موقف معاملات طے ہونے کے بعد بھی زیر بحث ہے۔ ایسی صورت حال میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مثبت پیش رفت کا فیصلہ کیا‘ جو یقیناً قابلِ تحسین اقدام ہے۔ نیوز لیکس کے حوالے سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے علاوہ وطنِ عزیز کے شہریوں کی بھاری تعداد بھی اس رائے کی حامی ہے کہ قومی سلامتی کے منافی اطلاعات اور افوائیں پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
وزیر اعظم کی منظوری سے پرویز رشید، طارق فاطمی اور رائو تحسین علی خان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ متعلقہ اخبار کے ایڈیٹر اور رپورٹر کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ابلاغیات اور سیاسیات کے امور میں دلچسپی رکھنے والے حیران ہیں کہ نیوز لیکس کے حوالے سے جن لوگوں کی تحقیقات گئیں‘ کیا صرف وہی افراد اس میں شامل تھے یا کچھ مزید شخصیات بھی اس حوالے سے سرگرم تھیں۔ تین افراد محض سہولت کار تھے۔ دس مئی 2017ء کو معاملات طے ہونے کے باوجود یہ سوال بار بار پوچھا جائے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مذکورہ خبر یکطرفہ انداز میں شائع نہیں ہونی چاہیے تھی۔ حکومت اور فوج کے تعلقاتِ عامہ کے ادارے کیونکر بے خبر رہے؟ میرے خیال میں یہ پیشہ ورانہ تساہل اور کم فہمی کا ناقابلِ تصور سانحہ بھی ہے۔ اللہ کرے کہ ایڈیٹر اور رپورٹر کی نیت میں کسی خاص ادارے کو پشت سے ٹارگٹ کرنا نہ ہو۔ ہم نے آئی ایس پی آر میں تیس برس گزارے ہیں۔ اکثر ''ناگفتہ بہ‘‘ اطلاعات پر مبنی خبریں شائع ہونے سے قبل تعلقاتِ عامہ کے اداروں سے منسلک پیشہ ور افسروں کے علم میں آ جاتی ہیں۔ کاش قومی سلامتی کے حوالے سے مبینہ طور پر منفی خبر شائع ہونے سے قبل ضروری ادارتی مراحل سے گزار کر مزید ''قومیانہ‘‘ انداز میں شائع ہوتی تو وطنِ عزیز ایک غیر ضروری بحث مباحثہ اور اداروں کے مابین ٹکرائو کی کیفیت سے دوچار نہ ہوتا۔ نیوز لیکس پر بحث کے دوران سویلین بالا دستی کا چرچا بھی عام ہوا۔ معاملات طے ہونے کے مبارک دن ایک اخبار نے غیر معمولی شہ سرخی سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ سویلین بالا دستی کے ذکر کی تہہ میں آوازہ کسنے کی کیفیت نمایاں ہے۔ جواب الجواب کا کوئی فائدہ نہیں۔ بعض سیاست کاروں نے قسم اُٹھا رکھی ہے کہ عوامی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے رائج الوقت جمہوریت کی آڑ میں ''سویلین بے بسی‘‘ کا پروپیگنڈا کرتے رہیں گے۔ امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ ''چورن‘‘ فروخت نہیں ہو گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی لحاظ سے بھرپور توانا اور اختیارات سے مالامال ہیں۔ تمام ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال سویلین بالا دستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایک ریٹائرڈ فوجی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گھروں میں چوبیس گھنٹے سویلین بالادستی ہے۔ والدین ہوں یا دیگر اہل خانہ‘ سب سویلین ہی ہیں۔ سب انتہائی قابلِ احترام، شفقت اور محبت کا سراپا ہیں۔ لہٰذا اُن کے بارے میں نازیبا کلمات کا تصور کرنا ہی محال ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کے مختلف شعبہ جات سے منسلک تمام خواتین و حضرات خاص طور سے اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیوں کو مثبت انداز میں بروئے کار لائیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا وغیرہ قومی امور میں امید اور امکان کے امانت دار ہیں۔ اُنہیں خلق خدا کو مایوس نہیں کرنا چاہیے۔