فاتح ٹیم کے کپتان سرفراز احمد آئی سی سی چیمپئن شپ کی ٹرافی تھامے اپنے گھر کی بالکونی پر آئے تو ہزاروں کی تعداد میں موجود نوجوانوں نے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے استقبال کیا۔ یہ کراچی کے ضلع وسطی کے ایک علاقے کا منظر تھا‘ جہاں فاتح کپتان کا مسکن ہے۔ نعرے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سرفراز احمد کی قیادت میں قومی کرکٹ ٹیم نے شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔ سب سے ولولہ انگیز کامیابی فائنل میچ میں بھارت کی شکست تھی۔ کھلاڑیوں نے کراچی سے خنجراب اور کوئٹہ سے کشمیر تک پرچمِ ستارہ و ہلال کے شیدائیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ سرفراز الیون میں شامل کھلاڑیوں کا تعلق وطنِ عزیز کے مختلف صوبوں، شہروں اور قصبات سے ہے۔ کپتان جدی پشتی کراچی کا باسی ہے۔ یہ کھلاڑی جب میدان میں اُترے تو علاقے، زبان، لہجے اور رنگ و نسل کے امتیاز ختم ہو گئے۔ سب نے قومی پرچم کے سائے تلے کارنامے انجام دیئے اور میٹھی عید سے پہلے ہر پاکستانی کا منہ میٹھا کر دیا۔ فاتح ٹیم کے کھلاڑی اپنے اپنے شہروں اور قصبات کو واپس چلے گئے ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق اُن کا استقبال کیا جا رہا ہے۔ ہر جگہ نوجوان استقبالی جلوس میں نمایاں نظر آئے ہیں۔
میری نگاہ کئی روز گزرنے کے باوجود کراچی کے ضلع وسطی میں سرفراز احمد کی رہائش گاہ کے قرب و جوار پر ہی مرکوز ہے۔ اس علاقے میں سکون اور خوشی کی یہ کیفیت برسوں کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔ لہٰذا خوشگوار منظر کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہو رہا ہے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے یہ نوجوان کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ یہ اٹھارہ، بیس سے پچیس برس کے جوان سال سپوت ہی ہمارا مستقبل ہیں ۔ کرکٹ ٹیم کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے۔ کہ ہر شعبے میں پیش قدمی کے لیے نوجوانوں پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ کپتان سرفراز احمد کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہے۔ کراچی کے گلی محلے میں پلے بڑھے اور پڑھے اس نوجوان نے ثابت کر دیا کہ شہر کے نا مساعد اور نا موافق حالات کا تسلسل بھی اس کے عزمِ صمیم کو شکست نہیں دے سکا ہے۔
کراچی میرے بچپن اور لڑکپن میں بھی سمایا ہوا ہے۔ والدِ گرامی محکمہ دفاع کے ایک ذیلی سول ادارہ میں ملازم تھے اور ہم ٹیونیشیا لائنز میں دو کمرے والے سرکاری گھر میں رہتے تھے۔ قریب ہی ڈی پی نیشنل ہائی سکول تھا۔ اُنیس سو سینتالیس میں میں قیام پاکستان کے بعد دہلی سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ اس سکول میں جماعت اول میں داخلہ ملا اور تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا جو کلاس نہم تک جاری رہا۔ اس کے بعد والد صاحب کی لاہور پوسٹنگ ہو گئی تو میٹرک ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون سے پاس کیا۔ بہرحال کراچی میں سکول کا دور صرف پڑھائی لکھائی تک محدود نہیں تھا۔ سہ پہر کرکٹ کے لیے وقف تھا۔ اُس زمانے میں لائنز ایریا میں وسیع و عریض میدان موجود تھے۔ اکتوبر 1958 میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور حکومت کا آغاز ہوتے ہی مہاجرین کی عارضی بستیاں ختم کرکے کورنگی میں نئے مکانات تعمیر کئے گئے۔ یہ کارنامہ مارشل لا حکومت کے وزیر بحالیات لیفٹیننٹ جنرل محمد اعظم خان نے انجام دیا۔ ہمارے سرکاری گھروں کے سامنے سے جھگیوں میں مقیم خاندان فوج کی گاڑیوں میں کورنگی منتقل ہو گئے۔ اس علاقے میں سینٹ پیڑک سکول کی ایک وسیع و عریض گرائونڈ بھی تھی جہاں ہمیں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ اس گرائونڈ میں غیر ملکی کھلاڑی بھی دکھائی دیتے تھے۔ ہماری دوڑ ٹیونیشیا لائنز سے جیٹ لائنز اور پھر جیکب لائنز تک محدود تھی۔ جیکب لائنز کے ایک گھر میں ننھیال مقیم تھا۔ میرے نانا جی دیگر مسلمان سرکاری ملازمین کی مانند آزادی کے بعد دہلی سے پاکستان کے دارالحکومت کراچی تشریف لے آئے تھے۔
بات کراچی کی گلیوں ، بازاروں اور میدانوں کی ہورہی تھی۔ والد گرامی کی پوسٹنگ کے باعث کراچی کے بعد لاہور ہمارا مسکن ہوگیا۔ اس شہر میں بھی میدان سے میدان جڑاہواتھا۔ ماڈل ٹائوں میں کرکٹ کا میلہ انٹر بلاک ٹورنامنٹ کی صورت میں سینکڑوں شائقین کو جمائے رکھتا تھا۔ دوسری جانب میٹرک ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائوں، انٹرمیڈیٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اور بی اے اسلامیہ کالج سول لائنز سے کیا۔ یہ تعلیمی ادارے بھی تعلیم و تربیت کے ساتھ سپورٹس کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ خاص طور سے گورنمنٹ کالج لاہور سے سپورٹس مقابلے ہمیشہ تاریخی معرکے کی صورت میں برپا ہوتے تھے۔ یہ صحت مندانہ کشمکش قومی سطح پر کبھی رائیگاں نہیں گئی۔ قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں ان درسگاہوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں نے ہمیشہ نام کمایا اور بے پناہ انعامات حاصل کئے۔ البتہ ساتویں دہائی کا آغاز ہوتے ہی متحدہ پاکستان میں عوامی راج کا صور پھونکا گیا۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہم بھی لپیٹ میں آ گئے۔ ہماری مادرِ علمی پنجاب یونیورسٹی کے در و دیوار ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے کے نعروں سے آلودہ ہو گئے۔ کھیل کے میدان سے دل اُچاٹ ہو گیا تھا۔ اب ہاکی بردار زیادہ مقبول تھے‘ کیونکہ وہ آزمائش کی گھڑی میں مخالف گروپ پر بے خطر ٹوٹ پڑتے تھے۔
قصہ مختصر! طالب علمی کا دور جلد بیت گیا ۔ فوج میں کمیشن لیے بارہ برس سے زائد عرصہ ہو گیا تھا۔ سیالکوٹ ، راولپنڈی ، کوئٹہ اور لاہور میں عرصہ ملازمت گزارنے کے بعد آٹھویں دہائی کے اوائل میں کراچی جانے کا حکم صادر ہوا تو اپنی ''جماعت اول‘‘ یاد آگئی۔ اَب شہر میں کھیل کے میدان آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے تھے۔ لائنز ایریا میں بنیادی سہولیات سے عاری اسی گز کے مکانات اور بے ہنگم فلیٹس شہر کے غیر یقینی سماجی مستقبل کی چغلی کھا رہے تھے۔ آئی ایس پی آر کے دفتر میں شرف میزبانی بخشنے والے مہمانوں میں بے لوث خدمت انجام دینے کے ''عادی‘‘ سرکاری اہلکار تھے یا بے خبری میں ترتیب دی گئی خبر پر نازاں صحافی اور ابلاغی۔ سب کراچی کے بارے میں فکر مند تھے۔ تاہم قابل ِ عمل حل کے لیے جستجو کا فقدان نظر آیا۔ کراچی شہر سماجی ، سیاسی،معاشی استحصال کا شکار ہو گیا۔ خاص طور سے امن و امان کی بدترین صورتِ حال نے روشنیوں کے شہر کو اندھیروں کے حوالے کر دیا۔ متعدد بار فوجی، نیم فوجی اور پولیس آپریشن ہوئے۔ جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں سنائی گئیں ۔ تو دوسری جانب سیاسی چھتری میں معافی نامے بھی بے حساب تھے۔ کراچی کو ہر انداز سے پامال کیا گیا۔ وطن ِ عزیز کا اولین صدر مقام جو کبھی قومی سیاست کا مرکز تھا‘ جنگل بستی کا روپ اختیار کر گیا۔ اس مکروہ کھیل سے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان کی اکثر یت کا محور تعلیم و تربیت اور کھیل کے میدان نہیں رہے۔ اَب یکطرفہ جمہوری تماشے کے نام پر ایک بند گلی میں رونق تھی، افسوس کی بات ہے کہ بند گلی والے بھی محفوظ نہیں رہے۔ ایک طرف چائنہ کٹنگ ، بھتہ اور سٹریٹ کرائم والے بے لگام ہو گئے تو دوسری جانب شاہراہ فیصل کے اُس پار بڑے بڑے نقد سودے خلیجی ریاستوں کو فیض یاب کرتے تھے۔
آئین اور قوانین سے ماوراء رائج الوقت جمہوریت کو '' منکوحہ ‘‘ ثابت کرنے کے لیے انتخابی ڈرامہ بازی عروج پر تھی۔ بد ترین گورننس اور بلا روک ٹوک کرپشن نے سیاسی، اخلاقی اور سماجی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ ماضی قریب کے یہ دلدوز حالات اپنی جگہ لیکن کراچی کے سرفراز احمد کا عزمِ صمیم اور اُونچا اُڑنے کی سعی میں مصروف رہا۔ اُس نے اپنے مقصدکو کبھی نظر سے اُوجھل نہیں ہونے دیا۔ شب و روز کی کاوش رنگ لائی اور آج کراچی سرفراز احمد کی بدولت سرفراز ہو گیا ہے۔ یہ کامیابی کراچی کی جانب سے ملگ گیر پیغام بھی ہے کہ شہر قائد کے نوجوان آج بھی خود کو پرچم ِ ستارہ و ہلال سے وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کا مستقبل صرف اور صرف پاکستان ہے۔ وطنِ عزیز کے وسائل کی بے رحمانہ لوٹ کھسوٹ سے دوسرے ممالک کو سیراب کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ کراچی کے ضلع وسطی کے اس نوجوان پاکستانی سے ہی سبق حاصل کریں جو وطن سے گیا تو خالی ہاتھ تھا لیکن جب واپس آیا تو ہاتھوں میں چیمپیئنز ٹرافی تھی جو مدتوں سرفراز الیون کے حوصلے، ہمت اور پیشہ ورانہ دیانتداری کی علامت کے طور پر جگمگاتی رہے گی۔