''پاکستان‘ تعلیم اور اکیسویں صدی ‘‘کے موضوع پر کتاب لکھنے کا آغاز میں نے کئی برس پہلے کیا تھا۔ آج اس کی اشاعت کی صورت میں میرے دیرینہ خواب کی تکمیل ہو رہی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تعلیم کو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا تھا۔یہ موضوع پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اس لیے بھی انتہائی ا ہم ہے کیوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بہت سے نئے چیلنجز بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج تبدیلی کی انتہائی تیز رفتار ہے۔ تبدیلی کی رفتار میں تیزی کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی مہارتیں جو ماضی میں اہم خیال کی جاتی تھیں اکیسویں صدی میں غیر اہم ہو گئی ہیں‘ اور آج سے پچاس برس بعد کئی ایسی مہارتوں کی ضرورت محسوس ہو گی جو اس وقت ہمارے تصور سے باہر ہیں۔ اسی طرح اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں بہت سے ایسے روزگار سامنے آئیں گے جو اس وقت ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں۔ یوں اکیسویں صدی صحیح معنوں میں سخت مقابلے کی صدی ہے جس میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے ۔ یہ بات طے ہے کہ اکیسویں صدی میں معمولی درجے کی مہارتوں والے افراد کیلئے کامیابی کا سفر بہت مشکل ہو جائے گا۔ اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں کون سی مہارتیں درکارہوں گی؟ اس وقت اس کا ٹھیک اندازہ لگانا اس لئے دشوار ہے کہ تبدیلی کی رفتار تیز ہو گئی ہے ۔ اسی رفتار سے مہارتیں متعلق (Relevant) اور غیر متعلق (Irrelevant) ہو رہی ہیں ‘ لیکن کچھ مہارتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں بھی کامیابی کے سفر میں اہم کردار ادا کریں گی۔ سماجی علوم کے ماہر Harari نے اپنی معروف کتاب: 21 Lessons for the 21st Centuryمیں ان مہارتوں کا ذکر کیا ہے جو اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں بھی اہم کردار ادا کریں گی۔ان مہارتوں میں مصنوعی ذہانت ‘ تنقیدی سوچ (Critical Thinking)‘ تخلیقیت(Creativity) ‘ ابلاغ‘ اشتراک(Collaboration)اور مطابقت پذیری(Adaptability) شامل ہیں۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہمارا کلاس روم اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟کیا ہمار انظام ِ تعلیم طلباکو اکیسویں صدی کیلئے درکار مہارتوں کیلئے تیار کر رہا ہے؟ بد قسمتی سے ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آج جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے نظامِ تعلیم کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے آراستہ کر رہے ہیں ہم ابھی تک انہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن کا سامنا ہمیں قیامِ پاکستان کے وقت تھا۔ان مسائل میں کم شرحِ تعلیم ‘ اڑھائی کروڑ بچوں کی سکولوں تک عدم رسائی‘ غیر تسلی بخش تعلیمی معیار ‘ تعلیم کیلئے ناکافی فنڈز ‘ فرسودہ اور غیر حقیقت پسندانہ نصاب ‘ غیر معیاری درسی کتب‘ کلاس روم میں طلباکی کثیر تعداد ‘ سکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان‘ سکولوں سے ڈراپ آؤٹ طلبا کی کثیر تعداد‘ ناقص امتحانی نظام ‘ غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور غیر مؤثر تعلیمی قیادت شامل ہیں۔اکیسویں صدی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان بنیادی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔
پاکستانی نظامِ تعلیم سے میرا تعلق بطور استاد اور منتظم پچھلی چار دہائیوں پر محیط ہے۔ اس دوران مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ پاکستانی تناظر میں تعلیم کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے جو تحریریں میری نظر سے گزریں انہیں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1:پہلی قسم ان تحریروں پر مشتمل ہے جو بدیسی تحریروں کا چربہ ہوتی ہیں اور جن میں غور و فکر کا پہلو نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔2: دوسری قسم ان تحریروں پر مشتمل ہے جن کے لکھنے والوں کا تعلیم یا درس و تدریس کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ زیادہ تر تاثراتی تحریریں ہوتی ہیں جن کی بنیاد میں کوئی تحقیق یا عملی مشاہدہ نہیں ہوتا۔3: تعلیم کے حوالے سے تیسری قسم ان تحریروں پر مشتمل ہے جو محض تنقید پر مبنی ہوتی ہیں اور ان میں مسائل کے حل کیلئے تجاویز کاذکر نہیں ہوتا۔ ایسی تحریریں تعلیمی نظام میں بہتری کی بجائے مزیدمایوسی کا ذریعہ بنتی ہیں۔4: چوتھی قسم ان فرسودہ خیالات کی عکاس ہوتی ہیں جن میں دقیانوسی مسائل کے دقیانوسی حل دہرائے جاتے ہیں‘ یعنی جانے پہچانے سوالات کے گھڑے گھڑائے جوابات۔ ایسی تحریروں سے کسی تبدیلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ 5:پانچویں قسم کی تحریریں ان تحقیقی رسالوں میں چھپتی ہیں جن تک عام آدمی کی رسائی نہیں۔ شاید ہی یہ تحریریں عام اساتذہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
تعلیم کے حوالے سے تحریروں کی جن اقسام کا ذکر کیا گیا ہے ان میں تنقیدی زاویہ ٔ نظر سے لکھی ہوئی تحریروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ وہ ماہرینِ تعلیم جنہوں نے پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی نظریات پر کریٹیکل نقطۂ نظر کے حوالے سے لکھا ان کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے پاکستان میں اکیسویں صدی میں تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے ایسی تحریریں لکھی جائیں جن میں ایک طرف تو یہ تحریریںاعدادو شمار اور تحقیق کی بنیا د پرلکھی گئی ہوں اور دوسری طرف یہ خیالات کے نئے دریچے کھولتی ہوں۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے تعلیم اور تعلیم کے عمل سے ذہنی ‘ فکری اور عملی طور پر جُڑے ہوئے ہوں ۔ وہ تعلیم کے جدید نظریا ت سے آگاہ ہوںاور جن کی تحریریں صرف ذاتی تاثرات کی بجائے قابلِ اعتبار معلومات کی بنیاد پر ہوں۔ وہ کسی بھی تعلیمی تصور کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں اور محض صورت ِ حال پر سوالات نہ اٹھائیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ایسے متبادل جوابات تلاش کریں جو مسائل کے تخلیقی حل تلاش کرنے میں مدد کریں۔انہیں دورِحاضر کے چیلنجز سے آگاہی ہو اوروہ ان مباحث سے آشناہوں جو تعلیم کے حوالے سے کی جا رہی ہیں۔پاکستانی نظام تعلیم میں بہتری لانے اور اسے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے حکومتی سطح پر بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ جن میں تعلیم کیلئے فنڈز کی فراہمی‘ تعلیمی معیارات کا تعین‘ نصاب میں بہتری ‘ معیاری درسی کتب‘ موثر امتحانی نظام ‘ تربیت یافتہ اساتذہ اور پُر تاثیر تعلیمی قیادت شامل ہیں۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کے ماہرینِ تعلیم تواتر سے ان موضوعات پر لکھیں جو تعلیم کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں ۔ ایسی تحریریں جو سوالات کے نئے دریچے کھولیں اور تازہ امکانات کی نشاندہی کریں۔
تعلیم کے شعبے سے میرا تعلق چار دہائیوں سے ہے‘ اس دوران مجھے پاکستان کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بطور استاد اور منتظم کام کرنے کا موقع ملا۔میں نے اپنے تجربات اور محسوسات کو اپنی تازہ کتاب ''پاکستان تعلیم اور اکیسویں صدی‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس کتاب کا مقصد ان موضوعات پر بحث کرنا ہے جو اکیسویں صدی میں ہمارے لئے اہم ہوں گے۔ کتاب کو مختلف موضوعاتی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان موضوعات میں تعلیم اور جدید مباحث‘ پاکستان اور تعلیم کے بنیاد ی مسائل‘ اکیسویں صدی اور تعلیم‘ تعلیم اور سماج ‘ تعلیم اور تدریس‘ حکومت‘ تعلیم اور منصوبہ بندی‘ تعلیم اور زبان‘ تعلیم اور جامعات کا کردار‘ استاد اور تدریس‘ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق‘ تعلیم اور تبدیلی شامل ہیں۔اس کتاب میں میری کوشش رہی ہے کہ ہر موضوع کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور اس کا تجزیہ کر کے قابلِ عمل سفارشات پیش کی جائیں ۔ مجھے امید ہے کہ طلبہ‘ اساتذہ ‘ اور پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئے یہ کتاب ایک مفید دستاویز ہوگی۔