پریم چوپڑا کو ٹائمز آف انڈیا میں ملازمت تو مل گئی لیکن اُس کا دل اداکاری میں اٹکا ہوا تھا۔ اُسے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ اُسے دلیپ کمار کی اداکاری بہت پسند تھی۔ بالکل نیچرل۔ دلیپ کمار ساری زندگی پریم چوپڑا کا رول ماڈل رہا۔ ٹرین کے لمبے سفر پر جاتے ہوئے وہ اکثرآنکھیں بند کر لیتا اور تصور میں خود کو فلم کے پردے پر دیکھتا۔ اُس وقت اُسے کیا خبر تھی کہ ایک دن آئے گا جب اُسے اپنے محبوب اداکار دلیپ کمار کے ساتھ اداکاری کرنے کا موقع ملے گا۔ ٹائمزآف انڈیا میں ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف سٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہتا لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی۔ اُسے یقین تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب فلمی دنیا کا دروازہ اُس کے لیے کھلے گا۔ پھر وہ دن آ ہی گیا۔ اُس دن وہ ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ٹرین میں لوگوں کی ایک بھیڑ تھی۔ اسی بھیڑ میں ایک اجنبی نے پریم چوپڑا سے ہاتھ ملایا اور پوچھا: تم فلموں میں کام کرو گے؟ اُس نے اجنبی کو دیکھا اور کوئی سوال کیے بغیر اثبات میں سر ہلادیا۔ اجنبی نے پریم چوپڑا کو اپنے ہمراہ لیا اور بمبئی کی سڑکوں سے ہوتا ہوا ایک بڑی عمارت کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا جس کی پیشانی پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا ''رنجیت سٹوڈیو‘‘۔
وہ پریم چوپڑا کی زندگی کا ایک خوش قسمت دن تھا۔ اجنبی اسے رنجیت سٹوڈیو میں لے آیا تھا جہاں ایک پنجابی فلم ''چودھری کرنیل سنگھ‘‘ بن رہی تھی۔ فلم کا پروڈیوسر جگجیت سیٹھی بھی پنجابی تھا‘ اُسے اپنی فلم کے لیے ایک ہیرو کی تلاش تھی۔ جگجیت سیٹھی نے پریم چوپڑا کو دیکھا تو پہلی نظر میں ہی اسے ایسا لگا کہ اپنی فلم کے لیے اسے جس ہیرو کی تلاش تھی وہ پریم چوپڑا کی شکل میں اُسے مل گیا ہے۔ ''چودھری کرنیل سنگھ‘‘ باکس آفس پر کامیاب رہی اور اسے نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ اُسی سال پریم چوپڑا کو ایک اور فلم ''ہم ہندوستانی‘‘ میں اداکاری کا موقع ملا۔ دو سال بعد اُسے ایک فلم ''میں شادی کرنے چلا‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اسی فلم میں اُسے مشورہ دیا گیا کہ وہ فلموں میں بطور وِلن کام کرے۔ اس مشورے نے پریم چوپڑا کی فلمی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1964ء میں سسپنس پر مبنی ایک تھرلر فلم بنی جس کا نام تھا ''وہ کون تھی‘‘۔ اس فلم میں پریم چوپڑا کا منفی کردار تھا۔ یہ فلم باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔ انہی دنوں منوج کمار نے اُسے ''شہید‘‘ فلم میں کام کی پیشکش کی۔ اس فلم میں بھگت سنگھ کے ساتھی سکھ دیو کا کردار پریم چوپڑا نے نبھایا۔ یہ ایک مثبت کردار تھا۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اب فلموں کا دروازہ اُس پر کھل چکا تھا۔ اس عرصے میں اُسے سکندرِ اعظم‘ نشان‘ پونم کی رات‘ میرا سایہ‘ کنواری‘ سگائی‘ تیسری منزل‘ لاٹ صاحب اور آمنے سامنے میں کام کرنے کا موقع ملا۔
اب اُسے فلموں میں کام کرتے سات برس بیت گئے تھے لیکن وہ ابھی تک ٹائمز آف انڈیا میں ملازمت کر رہا تھا۔ اداکاری ابھی تک اُس کا جزوقتی کام تھا۔ 1967ء میں اُسے ''انکار‘‘ فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ اس فلم میں اس کا کردار ولن کا تھا۔ یہ فلم پریم چوپڑا کی زندگی میں دو اعتبار سے اہم تھی‘ ایک تو یہ کہ اسی فلم کے دوران وہ ٹائمز آف انڈیا کی ملازمت چھوڑ کر کُل وقتی طور پر فلموں سے وابستہ ہو گیا‘ دوسرا یہ کہ ''انکار‘‘ فلم کے بعد بالی وُڈ کی فلموں میں بطور وِلن اُس کی ڈیمانڈ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ پریم چوپڑا نے فلموں میں ولن کے تصور میں ایک جدت پیدا کی۔ وہ روایتی طور پر بلند آہنگ ولن کے بجائے دھیمے لہجے میں بولتا تھا۔ وہ ہر فلم میں ایک نئے رنگ اور نئے آہنگ سے آتا تھا۔ اس کے ادا کردہ مکالمے آج بھی لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔ ان میں ایک مکالمہ جو ''بولی‘‘ فلم سے تھا‘ جو بعد میں اس کی پہچان بن گیا۔ وہ مکالمہ تھا ''پریم... میرا نام ہے پریم چوپڑا‘‘۔ پریم چوپڑا کے کچھ فلمی ڈائیلاگ اَمر ہو گئے۔ میں وہ بلا ہوں جو شیشے سے پتھر کو توڑتا ہوں (سوتن)‘ میں جو آگ لگاتا ہوں اسے بجھانا بھی جانتا ہوں (کٹی پتنگ)‘ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں بتی بجھا کر کپڑے بدلتے ہیں (سوتن)۔
پریم چوپڑا نے بہت سے اداکاروں کے ساتھ کام کیا لیکن اس کی جوڑی راجیش کھنہ کے ساتھ مشہور ہوئی۔ دونوں نے ایک ساتھ کم و بیش 25فلموں میں کام کیا جن میں 20فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں پروڈیوسر اس بات کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے کہ راجیش کھنہ کے ساتھ ہیروئن کون ہے‘ ان کے لیے زیادہ اہم یہ تھا کہ راجیش کے ساتھ ولن کا کردار پریم چوپڑا ادا کر رہا ہے یا نہیں۔فلموں میں ولن کا کردار ادا کرنے والا پریم چوپڑا ذاتی زندگی میں اس کے برعکس تھا۔ ایک عام سا شخص‘ جس کی حسِ مزاح کے چرچے تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ وہ شاعری بھی کرتا تھا‘ اس کا شعری نام پریم آوارگی تھا۔ راجیش کھنہ کے علاوہ اس نے امیتابھ بچن کے ساتھ بھی کئی فلموں میں کام کیا۔ اسی طرح کپور فیملی کی چار نسلوں کے ساتھ بھی اُس نے اداکاری کی۔ اور پھر ایک دن اسے اپنے محبوب اداکار دلیپ کمار کی فلموں داستان اور بیراگ میں کام کرنے کا بھی موقع ملا۔
پریم چوپڑا نے تقریباً چار سو فلموں میں کام کیا۔ اُس کا فلمی سفر 1960ء میں شروع ہوا تھا۔ طویل عرصے تک فلمی دنیا میں اسی شان سے رہنا معمولی بات نہیں۔ اس کا راز اس کی سخت محنت اور فن کی طرف تخلیقی اپروچ ہے۔ اپنے فن کے ساتھ اُس کا رشتہ مکمل ایمانداری پر استوار ہے۔ وہ وقت کی پابندی کرتا ہے۔ کسی نے ایک بار اُس سے پوچھا کہ اتنے طویل عرصے تک فلم میں Relevant رہنے کا راز کیا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا کہ میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جب کوئی پروجیکٹ کرتا ہوں تو آخری پروجیکٹ سمجھ کر کرتا ہوں جبکہ اکثر لوگوں کو جب کامیابی ملتی ہے تو وہ Relaxed ہو جاتے ہیں اور اپنے کام پر پوری توجہ نہیں دیتے۔
2023ء میں پریم چوپڑا کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا جو اُس کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔ ممبئی میں آئے اب اُسے چھ دہائیاں ہو چکی ہیں۔ شملہ سے آنے والا نوجوان اب بالی وُڈ کا معروف اداکار بن چکا تھا۔ پھر ایک دن اُسے شملہ جانے کا موقع ملا۔ وہی شملہ جہاں اُس کی زندگی کے شب و روز گزرے تھے۔ آج وہ چھ دہائیوں بعد شملہ آیا تھا۔ وہ شملہ کے مشہور Clarkes Hotel میں ٹھہرا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے شملہ میں گزرے دنوں کو یاد کر رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ ہوٹل کا جی ایم تھا۔ اُس نے مؤدب لہجے میں پریم چوپڑا کو بتایا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوٹل کے باہر جمع ہے اور اُس کی ایک جھلک دیکھنا چاہتی ہے۔ پریم چوپڑا فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے جی ایم سے کہا کہ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ وہ جلدی سے ہوٹل کی گیلری میں آیا‘ اس کی ایک جھلک دیکھ کر لوگ ہاتھ ہلا رہے تھے۔ پریم چوپڑا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُسے اُن دنوں کی یاد آ گئی جب وہ شملہ کے ایک کالج میں پڑھتا تھا اور اپنے دوستوں کے ہمراہ کلارک ہوٹل میں ٹھہرے اداکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کو آتا تھا۔ اُسے یاد تھا کہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اداکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اسے کتنا انتظار کرنا پڑا تھا۔ آج لوگو ںکی ایک بڑی تعداد اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہوٹل کے باہر جمع تھی اور اُسے دیکھ کر دیوانہ وار ہاتھ ہلا رہی تھی۔ اُس نے سوچا وقت بھی ایک دریا کی طرح ہے‘ جس کا بہاؤ ہمیں زندگی میں کیسے کیسے معجزے دکھاتا ہے۔ (ختم)