"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم کا مشینی تصور

پروفیسر گیرتھ مورگن (Gareth Morgan) نے اپنی معروف کتاب Images of Organization میں لکھا ہے کہ ہم تنظیموں کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں گویا وہ مشینیں ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ لگے بندھے‘ مؤثر‘ قابلِ اعتماد اور پیش قیاسی (Predictable) انداز میں مشینوں کی طرح کام کریں۔ پاکستان کے اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم کے اسی میکانکی ماڈل کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہ ماڈل ملازمین کی ذمہ داریوں کو چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کرتا ہے‘ جس کی جانچ پڑتال اور نگرانی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کے مشینی اور بیورو کریٹک ماڈل کا نتیجہ طاقت کا ایک نقطے پر ارتکاز ہے۔دراصل فیکٹریوں کے پیداواری یونٹوں کے لیے اس نوعیت کی انتظامیہ کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ بہتر پیداوارکو یقینی بنایا جا سکے اور جس کی نگرانی اور پیمائش آسانی سے کی جا سکے۔ یہ ماڈل کارپوریٹ سیکٹر میں مقبول ہے جہاں ملازمین کو روبوٹ سمجھا جاتا ہے اور ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خیالات اور جذبات سے عاری ہوں۔ جدید دور میں مشہور فوڈ چینز مؤثر انتظام (Efficient Management) کی بہترین مثال ہیں۔
اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب مینجمنٹ کے کارپوریٹ ماڈل کا اطلاق تعلیمی اداروں پر کیا گیا۔ کارپوریٹ ماڈل کے اطلاق کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ اس سے تعلیمی اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی لیکن ایسا کرتے ہوئے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا کہ فیکٹریاں اور تعلیمی ادارے دو مختلف اور مکمل طور پر الگ ادارے ہیں‘ جن کی ضروریات اور مقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جن کی نگرانی کے لیے مختلف نقطہ ہائے نظر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں عام طور پر اساتذہ کے لیے ایسا ماحول ملتا ہے جہاں ان کا دم گھٹتا ہے‘ جہاں ان کی حیثیت محض کٹھ پتلیوں کی سی ہے۔ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے‘ انتظامیہ کی دی گئی ہدایات پر عمل کریں کیونکہ سوچنے کا کام انتظامیہ کا ہے۔ مینجمنٹ کے اس انتہائی منظم اور بیورو کریٹک ماڈل میں اساتذہ کے تخلیقی اقدامات (Creative Initiatives) بغیر کسی تامل کے ختم کر دیے جاتے ہیں اور اساتذہ کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کا کام سوچنا‘ تجویز کرنا یا کسی نئے کام کا آغاز نہیں بلکہ وہ تو محض روبوٹک انداز میں دیے ہوئے کام کو سرانجام دینے کے لیے موجود ہیں۔
پیٹر سنجے (Peter Senge) نے اپنی معروف کتاب Schools That Learn میں مشورہ دیا ہے کہ ''ہماری اسمبلی لائن والی سوچ ہمیں انسانوں کی قدرتی اقسام کو ناگوار سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ مشین (سسٹم) کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں وقت گزرنے کے ساتھ اساتذہ اپنا جذبہ‘ شوق اور اعتماد کھو دیتے ہیں اور مرکزی نگرانی کے ماحول میں محض روبوٹ بن جاتے ہیں‘‘۔ اداروں کی انتظامیہ کا خیال ہے کہ مینجمنٹ کا یہ میکانکی نقطہ نظر ہی ایک محفوظ موڈ (Mode) ہے۔ ایسا سمجھنے میں وہ اس حد تک درست ہو سکتے ہیں کہ مخالف آوازوں کی عدم موجود گی میں ''سب اچھا‘‘ کی خبر ملتی ہے جبکہ حقیقت میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی اس نام نہاد عقلی انداز کے طرزِ عمل کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال پر گیرتھ مورگن کا کہنا ہے کہ ملازمین اور تنظیمیں‘ دونوں اس انتظام میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو ملازمین ذاتی ترقی کے مواقع سے محروم ہوجاتے ہیں‘ وہ اکثر دن میں کئی گھنٹے کام پر خرچ کرتے ہیں لیکن ایسے کام کی نہ تو کوئی وقعت ہوتی ہے اور نہ ہی اس طرح کے کام میں مسرت کا کوئی سامان ہوتا ہے۔ دوسری طرف ادارے میکانکی مینجمنٹ کی وجہ سے شخصی ذہانت اور اس تخلیقی صلاحیت سے محروم رہ جاتے ہیں‘ جو ادارے کے ملازمین ایک اچھے ماحول میں ادارے کو دے سکتے ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیمی اداروں میں سیکھنے‘ سوچنے اور مختلف امور کے سر انجام دینے کے لیے ایک کھلا ماحول مہیا کرنا ضروری ہے؟ کیا اساتذہ کو تعلیمی آزادی دینا ضروری ہے؟ ان سوالوں کے جوابات اس فلسفۂ تعلیم پر منحصر ہوتے ہیں جس پر آپ یقین رکھتے ہیں۔ اگر انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ تعلیم کا کام محض ایسے طالب علم پیدا کرنا ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی ملازمت حاصل کر کے معاشرے کا حصہ بن جائیں اور پھر معاشرے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے کولہو کے بیل کی طرح زندگی کے متعین کردہ راستوں پر چلتے رہیں تو اس کے لیے مینجمنٹ کا ایسا ہی ماڈل چاہیے‘ جہاں سے ایسی ہدایات جاری کی جائیں جو نیوٹرل اور یک رخی ہوں۔ ایسے ماحول میں اساتذہ غیر فعال (Passive) کارکنوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لیکن اگر انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف معاشرے کے مختلف حصوں میں فِٹ ہونا نہیں ہے بلکہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کے طریقوں کو بھی فروغ دینا ہے تاکہ وہ اپنے علم کو مختلف سیاق وسباق میں لاگو کر سکیں تو اسے لرننگ آرگنائزیشن کا طریقہ کار اپناناچاہیے۔
لرننگ آرگنائزیشن (Learning Organization) کا تصور کیا ہے اور تعلیمی ادارے کو لرننگ آرگنائزیشن میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ اس حوالے سے کافی لٹریچر دستیاب ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی ادارے کی اثر پذیری کے محدود تصور سے نکل کر تعلیمی اداروں کی ترقی کے ایک وسیع اور جامع نظریے کو اپنایا جائے جہاں اساتذہ کی انفرادی نمو اور ایک تنظیم کے طور پر تعلیمی ادارے کی ترقی (Organizational Development) ایک دوسرے سے منسلک ہوں۔ تعلیمی اداروں کو لرننگ آرگنائزیشن میں تبدیل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کو نظام میں اہم سٹیک ہولڈر سمجھا جائے۔ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں ملازمین کو پیشہ ورانہ اور انفرادی نشوو نما اور ترقی کے مواقع میسرہوں۔ لرننگ آرگنائزیشن تجسس اور تحقیق کے جذبے کے گرد گھومتی ہے۔ یہ جذبہ نصاب‘ درس وتدریس‘ نظامِ امتحان اور تحقیقی منصوبوں میں جھلکنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں کو مشترکہ فیصلہ سازی کے کلچر کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو باہمی ملاقاتوں اور مکالموں کے ذریعے ممکن ہے۔
انتظامیہ کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ تخلیقی کشمکش (Creative Conflict) اداروں کی نشوونما کے لیے کارآمد ہوتی ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے شعوری کوششوںکی ضرورت ہوتی ہے جہاں اساتذہ کو ایسا لگے کہ وہ محض مشین نہیں جن کی حرکات وسکنات اور سوچ پر ان کا کوئی اختیار نہیں بلکہ انہیں یہ یقین ہو کہ ان کی ملازمت ایک بامقصد کام ہے۔ مقصد کا یہ احساس کام کو مسرت آمیز اور بامعنی بنا دیتا ہے۔ یہی سازگار ماحول تخلیقی اساتذہ کی ترقی میں مدد کرتا ہے اور ایسے ہی تخلیقی اساتذہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی تدریس کے ذریعے طلبہ میں سوچ بچار اور تنقیدی سوچ کا شعور پیدا کریں اور ہمارے تعلیمی اداروں سے ایسے طلبہ نکلیں جن کا مطمح نظر محض ملازمت کا حصول نہ ہو بلکہ وہ معاشرے کے مسائل سے آگاہ ہوں اور اپنی تخلیقی سوچ اور طرزِ عمل سے اپنے معاشرے کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعلیمی اداروں میں میکانکی تنظیم سے آگے جا کر ایک جمہوری اور شراکت کار (Participatory) فیصلہ سازی کی بنیاد رکھیں‘ جہاں اساتذہ اور طلبہ فیصلہ سازی کے عمل کا بنیادی حصہ ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں