"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت‘ سیاست اور حکومت … (9)

یہ جون کے مہینے کی 21تاریخ تھی اور 1757ء کا سال۔ کلائیو اپنی فوج کے ہمراہ سراج الدولہ کے مقابلے پر آ گیا تھا۔ کلائیو کو یقین تھا کہ سراج الدولہ کی فوج میں اہم عہدوں پر فائز سپہ سالار درصل انگریزوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھیں کہ اچانک تیز بارش شروع ہو گئی جس سے سراج الدولہ کی فوج کا گولہ بارود ناکارہ ہو گیا۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے اپنے گولہ بارود کو اچھے طریقے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ دونوں فوجوں میں دوسرا اہم فرق ایسٹ انڈیا کمپنی کا جدید اسلحہ تھا جس کا جواب سراج الدولہ کی فوج کے پاس نہ تھا۔ اس صورتحال میں میر جعفر‘ جو دراصل انگریزوں کے ساتھ ملا ہوا تھا‘ نے نواب کو منصوبے کے مطابق پسپائی کا مشورہ دیا۔ نواب نے اپنے سپہ سالار کے مشورے پر عمل کیا اور فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ عین اسی وقت کلائیو نے سراج الدولہ کی فوج پر حملہ کر دیا جس سے سراج الدولہ کی فوج تتر بتر ہو گئی اور پسپائی کا راستہ اختیار کیا۔ کلائیو‘ جگت سیٹھ‘ میر جعفر اور اومی چند کی سازش رنگ لے آئی ۔ سراج الدولہ کو اب نوشتۂ دیوار صاف نظر آ رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جیتے جی انگریزوں کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس نے چند وفاداروں اور خاندان کی خواتین کو ہمراہ لیا اور ایک اونٹ پر سوار ہو کر دشمن سے نظر بچا کر رات کی تاریکی میں گُم ہو گیا۔ اس کی منزل مرشد آباد تھی جو کبھی اس کی طاقت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ وہ تیزی سے منزلیں طے کرتا ہوا جب مرشد آباد پہنچا تو پتا چلا کہ یہ وہ مرشدآباد نہیں جو وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ اب مرشد آباد اس کے لیے اجنبی بن گیا تھا۔
سراج الدولہ کے لیے یہ صورتحال پریشان کن تھی۔ اسے یقین تھا کہ اب تک اس کے تعاقب میں کلائیو کے فوجی مرشد آباد کی طرف روانہ ہو گئے ہوں گے اور جلد ہی یہاں پہنچنے والے ہوں گے۔ ضروری تھا کہ کلائیو کے سپاہیوں کو روکا جائے۔ سراج الدولہ نے اپنی فوج کے کچھ سپہ سالاروں سے کہا کہ وہ کلائیو کے فوجیوں کو کچھ دیرکے لیے مصروف رکھیں لیکن سپہ سالار جان چکے تھے کہ کھیل ختم ہو چکا ہے اور اب کلائیو کی فوج سے لڑنے کا کوئی حاصل نہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو یہ مشورہ بھی دیا کہ سراج الدولہ کو خود کو کلائیو کی فوج کے حوالے کر دینا چاہیے۔ یہ تجویز سُن کر سراج الدولہ ششدر رہ گیا اور سختی سے اس تجویز کو مسترد کر دیا‘ پھر کچھ وزیروں کے مشورے پر نواب نے زر و جواہر کی کثیر تعداد اپنے سپہ سالاروں اور دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دی لیکن شاید قسمت اس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی اور اس کی ہر تدبیر الٹی پڑ رہی تھی۔ لوگوں نے نواب کے خزانوں میں سے اپنا حصہ لے لیا لیکن پھر اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ سراج الدولہ اپنی بیگم لطف النسا اور کچھ ساتھیوں کے ہمراہ گنج محل کی طرف روانہ ہو گیا۔
ادھر میر جعفر‘ اومی چنداور جگت سیٹھ نے اس دن کے لیے طویل انتظار کیا تھا۔ آج ان کے راستے کی آخری دیوار سراج الدولہ شکست سے دوچار ہو چکا تھا۔ اب اس معاہدے پر عملدرآمد کا وقت آگیا تھا جس کے مطابق میر جعفر کو سراج الدولہ کی جگہ نواب کی کرسی پر بٹھایا جانا تھا۔ میر جعفر اب اس کام میں کوئی تاخیر نہیں چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کلائیو اسی روز اس کے نواب بننے کا اعلان کر دے گا لیکن کلائیو سراج الدولہ کی آتشِ شوق کو کچھ اور بھڑکانا چاہتا تھا۔ کلائیو نے ایک خط کے ذریعے میر جعفر کو مبارکباد دی اور لکھا کہ یہ کامیابی میری نہیں آپ کی ہے۔ اس نے خط میں مزید لکھا کہ اگلے روز داؤد پور میں ملاقات ہو گی۔ داؤد پور مرشد آباد سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ میر جعفر کے پاس اس تجویز پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ چشم فلک یہ عجیب نظارہ دیکھ رہی تھی کہ ایک طرف تو نواب سراج الدولہ شکست کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے کوششیں کر رہا تھا اور دوسری طرف اس کی فوج کا سپہ سالار میر جعفر اسی غداری کے عوض کلائیو سے اقتدار کی بھیک مانگ رہا تھا۔
24جون 1757ء کو داؤد پور میں کلائیو نے میر جعفر کو اذنِ باریابی بخشا۔ اس ملاقات میں اقتدار دینے کے عوض میر جعفر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بہت سی مراعات کا اعلان کیا۔ اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ میر جعفر جب بنگال کا گورنر بنے گا تو وہ جنگ کے دوران ہونے والے تمام اخراجات ایسٹ انڈیا کمپنی کو ادا کرے گا۔ دوسری اہم شق یہ تھی کہ میر جعفر ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ 75لاکھ روپیہ ادا کرے گا۔ ان دو اہم شقوں کی رضا مندی کے بعد میر جعفر کو نوابی کا اذن دیا گیا اور کلائیو نے اسے جلد از جلد مرشد آباد پہنچے کا کہا تاکہ وہ اقتدار کے مرکز پر جا کر انتظامات سنبھال لے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو دی جانے والی رقم کے علاوہ کلائیو کو ذاتی طور پر 27 ہزار پاؤنڈ اور جاگیر دینے کا معاہدہ ہوا۔ میر جعفر کو بنگال کا نواب بننے کے بعد پتا چلا کہ خزانے میں صرف ڈیڑھ کروڑ کی رقم باقی ہے‘ یوں ایسٹ انڈیا کمپنی اور کلائیو کو رقم دینے کے لیے میر جعفر نے عوام سے ٹیکسوں کے ذریعے سے رقم اکٹھی کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو 232ملین پاؤنڈ ادا کیے۔ اس رقم سے 22 ملین پاؤنڈ کلائیو کے لیے تھے۔
سراج الدولہ اس سے ایک روز پیشتر ہی مرشد آباد سے کوچ کر چکا تھا۔ کل تک جو لوگ اس کے ایک اشارے پر اپنی جان نثار کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے اب وہی لوگ اس سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ نواب کے ساتھ سفر میں رہنے والوں کی تعداد ہر دم گھٹتی جا رہی تھی۔ میر جعفر کے سپاہی سراج الدولہ کی تلاش میں تھے کیونکہ میر جعفر کو یقین تھا کہ جب تک سراج الدولہ زندہ اور اس کے اردگرد موجود ہے میر جعفر کے اقتدار کو خطرہ باقی رہے گا۔ میر جعفر کے بیٹے میرن نے طے کیا کہ وہ خود سراج الدولہ کو تلاش کرے گا۔ دوسری طرف میر جعفر کا داماد میر قاسم بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ نواب سراج الدولہ کی تلاش میں تھا۔ کسی ذریعے سے اطلاع ملنے پر میر قاسم وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کے ہمراہ نکل پڑا اور گنج محل پہنچ کر سراج الدولہ کی رہائش کا محاصرہ کر لیا۔ سراج الدولہ کو گرفتار کر کے مرشد آباد لایا گیا۔ مسلسل سفر اور جاگتے رہنے کی وجہ سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ کل تک اس محل کا نواب آج وہیں پر ایک بے بس قیدی بن کر آیا تھا۔ وہ کئی دنوں سے مسلسل سفر میں تھا لیکن مرشد آباد میں ایک اور سفر اس کا منتظر تھا۔ کہتے ہیں محمدی بیگ‘ جو سراج الدولہ کا ساتھی ہوا کرتا تھا‘ محل میں آیا۔ اس سے پہلے کہ سراج الدولہ اس سے گفتگو کرتا محمدی بیگ نے خنجر نکالا اور سراج الدولہ پر پے در پے وار شروع کر دیے۔ سراج الدولہ فرش پر گر پڑا۔ اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں حیرت مجسم ہو گئی تھی۔محمدی بیگ تو کبھی اس کا وفادار ہوا کرتا تھا لیکن وقت ایک سا نہیں رہتا۔ سراج الدولہ کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے اور ان ٹکڑوں کو ایک ہاتھی کی پشت پر لادکر شہر بھر میں اس کی نمائش کرائی گئی۔ یہ دو جولائی 1757ء کا دن تھا۔ اس دن بنگال کا آخری آزاد نواب اپنوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ مرتے وقت سرج الدولہ کی عمر صرف 25 برس تھی۔ سراج الدولہ کی موت کے ساتھ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے راستے کی بڑی مزاحمت ختم ہو گئی تھی اور ہندوستان میں غلامی کے طویل دور کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں