"SSC" (space) message & send to 7575

ہندوستان‘ برطانوی سامراج اور مزاحمت: حیدر علی… (2)

حیدر علی کو جس دن کا انتظار تھا وہ آ ہی گیا۔ اسی دن کے لیے اس نے اپنی فوج کو اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت اور جدید اسلحے سے لیس کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس بار ان کا پالا ایسی فوج سے پڑنے والا ہے جو عسکری تربیت میں ان کے ہم پلہ ہے‘ جس کی عسکری تربیت ماہر فرانسیسی جرنیلوں نے کی ہے‘ جس کے پاس ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے بہتر اسلحہ ہے اور جس کی قیادت حیدر علی کررہا ہے جو عسکری داؤ پیچ اور وار سٹرٹیجی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
ابھی تک ایسٹ انڈیا کمپنی کا واسطہ سراج الدولہ‘ شاہ عالم ثانی‘ میر قاسم اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ کی فوجوں سے پڑا تھا جن کو ناقص جنگی پلاننگ‘ روایتی تربیت‘ دقیا نوسی اسلحے اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے شکست ہوئی۔ ان پے در پے فتوحات سے ایسٹ انڈیا کمپنی کا اعتمادآسمان کو چھو رہا تھا۔ بنگال اور اودھ کے نوابوں اور دہلی کے مغل بادشاہ کو زیرنگیں کرنے کے بعد ان کے خیال میں میسور جیسی ریاست کو فتح کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔
ایک طرف ایسٹ انڈیا کمپنی ایک کے بعد ایک ریاست کو زیرِ تسلط لا رہی تھی دوسری طرف حیدر علی تیزی سے میسور کی ریاست کو معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں حیدر علی کو ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی تھی اور اس رکاوٹ کو ہٹا کر اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہ رہی تھی۔ ایسٹ انڈیا کی نظر کرناٹک اور کورومینڈل (Coromandel) کی بندگاہ پر تھی۔
میسور کی معاشی خوشحالی دیکھ کر ایسٹ انڈیا کمپنی اسے اپنے اگلے ہدف کے روپ میں دیکھ رہی تھی لیکن انہیں شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ حیدر علی نے میسور کی ریاست کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کو بھی اعلیٰ تربیت اور جدید اسلحے کی بدولت ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے حیدر علی کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے دو اہم ہمسایہ طاقتوں کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔ یہ دو اہم طاقتیں مرہٹے اور نظام آف حیدرآباد تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ مرہٹوں اور نظام آف حیدرآباد کے گٹھ جوڑ کا بنیادی مقصد حیدر علی کے بڑھتے ہوئے اثرو نفوذ کو روکنا تھا اور اس میں ان تینوں طاقتوں کا مفاد تھا۔ حیدر علی ایسٹ انڈیا کمپنی کے عزائم سے بے خبر نہ تھا۔ اس کا جدید طرز پر قائم سراغ رسانی کا ادارہ اسے پل پل کی خبر دے رہا تھا۔ حیدر علی کو تین فوجوں کے اتحاد کا سامنا کرنا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے اس سے پہلے جنگوں میں خود سے کئی گنا بڑی فوجوں کو شکست دی تھی۔
1767ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور میسور کی فوجوں کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو مرہٹوں اور نظام آف حیدرآباد کی حمایت حاصل تھی۔ دوسری طرف حیدر علی اکیلا تھا لیکن ایک بہادر اور نڈر جرنیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذہین سفارت کار بھی تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جہاں تلوار کی کاٹ ختم ہوتی ہے وہیں گفتگو کا جادو اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اس نے خفیہ طور پر نظام آف حیدرآباد سے رابطہ کیا اور اسے کچھ رقم اور زمین دینے کے عوض اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ نہ دے۔ نظام آف حیدرآباد پر حیدر علی کی گفتگو کا جادو چل گیا اور اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ نظام آف حیدرآباد کا یک لخت اتحاد سے الگ ہونا ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ حیدر علی نے سفارت کاری کے میدان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو شکست دے دی تھی۔
حیدر علی برق رفتاری اور حیرت (Surprise) پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کا انتظار اور اپنا دفاع کرنے کے بجائے فیصلہ کیا کہ وہ جارحانہ سٹرٹیجی اختیار کرے گا۔ اس نے اپنی فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا اور تیزی سے مدراس کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ حیدر علی کا نوجوان بیٹا ٹیپو سلطان بھی اس معرکے میں اس کے ہمراہ تھا‘ وہی ٹیپو سلطان جس نے آنے والے وقت میں بہادری‘ شجاعت اور مزاحمت کا استعارہ بننا تھا۔ اس کی قیادت میں فوج کا ایک حصہ مالابار پر حملہ آور ہوا۔ یہ سب کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی توقع کے برعکس تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ حیدر علی تک پہنچتے حیدر علی کی فوج ان کے سروں پر پہنچ چکی تھی۔ اس کی عسکری سٹرٹیجی یورپی اور مقامی داؤ پیچ کا امتزاج تھی۔ حیدر علی اس سے پہلے کئی مقامی معرکوں میں اپنی ذہانت اور شجاعت کے جوہر دکھا چکا تھا۔ آج اس کی صلاحیتوں کا اعتراف اس کے حریف بھی کر رہے تھے۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو اپنی برق رفتاری اور ماہرانہ سٹرٹیجی سے حیران کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس اب صلح کے معاہدے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ یوں 1769ء میں صلح کا معاہدہ طے پایا۔ اس کو معاہدۂ مدراس (1769ء) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت طے ہوا کہ مقبوضہ علاقے واپس کر دیے جائیں گے اور آئندہ جنگ کی صورت میں فریقین ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی اور میسور کی اس جنگ میں حیدر علی نے اپنی شجاعت اور بہادری کی دھاک بٹھا دی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج جسے پلاسی اور بکسر کی فتوحات کے بعد ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا‘ حیدر علی کی جنگی حکمتِ عملی کے باعث بے بس ہو گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا امیج بُری طرح متاثر ہوا۔ اس شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی حیدر علی سے انتقام لینے کا موقع تلاش کر رہی تھی۔
معاہدۂ مدراس کے مطابق فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنا تھا اور کسی تیسرے فریق کی طرف سے جنگ مسلط کرنے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنا تھی۔ لیکن یہ معاہدہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے مجبوری کے عالم میں کیا تھا۔ درونِ خانہ وہ حیدر علی کا نام و نشان مٹانے کے درپے تھے۔ اسی لیے جب 1771ء مرہٹوں نے میسور پر حملہ کیا تو معاہدے کے مطابق حیدر علی کی مدد کرنے کے بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی نے چپ سادھ لی۔ یہ معاہدۂ مدراس کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ اس موقع پر حیدر علی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بدعہدی پر سخت ناخوش ہوا۔ مرہٹوں سے فارغ ہو کر حیدر علی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔
حیدر علی ایک نڈر جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذہین سفارت کار بھی تھا۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے انتقام لینے کے لیے بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ خاموشی سے مرہٹوں اور نظام آف حیدرآباد کو ایک اتحاد میں شامل کرنے کا کام کرنے لگا۔ مرہٹوں اور نظام سے اتحاد کے ساتھ ساتھ اس نے فرانسیسیوں سے بھی مدد طلب کی۔ ایک ماہر سفارت کار کے طور پر اسے معلوم تھا کہ بین الاقوامی سیاست کی بساط پر انگریز اور فرانسیسی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔
وہ 1780ء کا سال تھا جب انگریزوں اور حیدر علی کی فوجوں کے درمیان پولیلور (Pollilur) کے مقام پر دوسری بار ٹکراؤ ہوا۔ اس جنگ میں بھی انگریزوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور حیدر علی کے حصے میں فیصلہ کن فتح آئی۔ اس جنگ میں فتح سے حیدر علی کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ اس کے بعد حیدر نے علی ارکاٹ کا محاصرہ کر لیا اور کرناٹک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس نے متعدد قلعوں اور شہروں کو تسخیر کر لیا۔ انگریزوں نے حیدر علی کی پیش قدمی روکنے کے لیے جوابی حملہ کیا اور پورٹو نووو (Porto Novo) کے مقام پر سخت لڑائی ہوئی۔ اسی دوران حیدر علی بیمار پڑ گیا اور سات دسمبر 1782ء کو انتقال کر گیا۔ حیدر علی کی موت کے بعد اس کے نوجوان بیٹے ٹیپو سلطان نے کمان سنبھال لی۔ بہادر باپ کے بہادر بیٹے نے مزاحمت کا عَلم ہر قیمت پر بلند رکھنا تھا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں