پاکستان کا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2025-26ء 10 جون کو پیش کیا گیا۔ روایت کے مطابق اکنامک سروے 2024-25ء بجٹ سے ایک دن قبل یعنی 9 جون کو جاری کیا گیا۔ اکنامک سروے ایک اہم سرکاری دستاویز ہے جو ترقی کے مختلف پہلوئوں کے معتبر اعداد وشمار فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پچھلے سال (2023-24ء) کے اکنامک سروے میں پاکستان کی شرحِ خواندگی 62.8 فیصد بتائی گئی تھی‘ تاہم حالیہ سروے کے مطابق‘ جو مردم شماری 2023ء پر مبنی ہے‘ شرحِ خواندگی کم ہو کر 60.65 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ ایک حیران کن اور تکلیف دہ انکشاف ہے کہ شرحِ خواندگی میں اضافے کے بجائے نمایاں کمی ہوئی ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کی شرحِ خواندگی 2015ء میں 58 فیصد تھی۔ دس سال گزرنے کے بعد اس میں محض 2.6 فیصد ہی اضافہ ہو سکا۔ شرحِ خواندگی کا معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ہم اکنامک سروے میں جنس (Gender) کی بنیاد پر دیے گئے اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں مردوں کی شرحِ خواندگی 68فیصد جبکہ خواتین کی شرحِ خواندگی 58.2فیصد بتائی گئی ہے‘ جو 15.2فیصد کا بڑا فرق ظاہر کرتی ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کی بنیاد پر بھی نمایاں فرق ہے۔ شہری علاقوں میں شرحِ خواندگی 74.09 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 51.56 فیصد ہے۔ اسی طرح صوبوں کے درمیان بھی واضح فرق نظر آتا ہے۔ پنجاب میں شرحِ خواندگی 66.25 فیصد‘ سندھ میں 57.54 فیصد‘ خیبر پختونخوا میں 51.09 فیصد اور بلوچستان میں محض 42.01 فیصد ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 2017ء میں ناخواندہ افراد کی تعداد چھ کروڑ دس لاکھ تھی‘ جو مردم شماری 2023ء کے مطابق‘ اب بڑھ کر چھ کروڑ نوے لاکھ ہو گئی ہے۔
پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں رسائی‘ معیار اور مطابقت کے حوالے سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اکنامک سروے کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق دو کروڑ اکیاون لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پاکستان میں سکولوں‘ اساتذہ اور سہولتوں کی شدید کمی ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے کیلئے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کی سفارشات کے مطابق تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد حصہ خرچ ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے بلند بانگ حکومتی دعوؤں کے باوجود تعلیم کے شعبے کو کبھی مناسب فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ تعلیمی اخراجات کے رجحان کو سمجھنے اور اکنامک سروے میں درج اعداد وشمار کا تنقیدی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم پر جی ڈی پی کے تناسب سے اخراجات میں سال بہ سال مسلسل کمی ہوئی ہے۔ 2018-19ء میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 2.0 فیصد‘ 2019-20ء میں 1.9 فیصد‘ 2020-21ء میں 1.4 فیصد‘ 2021-22ء میں 1.7 فیصد اور 2022-23ء میں 1.5فیصد بجٹ مختص کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر 2023-24ء کے مالی سال کیلئے تفصیلی اخراجات کے اعداد وشمار فراہم نہیں کیے گئے‘ جو نہ صرف حیران کن امر ہے بلکہ شفافیت اور تعلیمی منصوبہ بندی کی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ 2024-25ء میں تعلیمی اخراجات جی ڈی پی کا محض 0.8 فیصد ہیں‘ جو اب تک تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم کی کم ترین سطح ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق یہ اعداد وشمار جولائی 2024ء سے مارچ 2025ء تک کے ہیں اور آخری سہ ماہی (اپریل تا جون) کے اعداد وشمار دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ تناسب بڑھ بھی سکتا ہے‘ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ 2022-23ء کے تناسب یعنی 1.5 فیصد سے کم ہی رہے گا۔ یہ اس لیے بھی تشویشناک صورتحال ہے کہ ہم نہ صرف یونیسکو کے مقرر کردہ چار فیصد کے عالمی معیار سے کہیں پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ اس ضمن میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بھی ہماری صورتحال بہتر نہیں ہے۔ 2024-25ء کے وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص رقم 65 ارب روپے تھی جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 125.126 ارب روپے کی درخواست کی تھی‘ یوں طلب کردہ رقم سے 60.13 ارب روپے کی کم رقم مختص کی گئی۔ دوسرے لفظوں میں طلب کردہ رقم اور حکومت سے ملنے والی رقم میں 48 فیصد کا تفاوت ہے۔ طلب اور رسد میں یہ بڑا فرق اعلیٰ تعلیم کے معیار اور پائیداری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
اکنامک سروے کے اعداد وشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جاری فنڈز‘ جو زیادہ تر تنخواہوں وغیرہ پر خرچ ہوتے ہیں اور ترقیاتی فنڈز‘ جو انفراسٹرکچر اور نئے منصوبوں کے لیے اہم ہوتے ہیں‘ میں بھی بڑا فرق ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی اس حد تک کمی انفراسٹرکچر‘ تعلیمی وسائل اور ٹیکنالوجی کی جدید کاری میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یونیسکو کا Institute for Statistics (UIS‘ مانٹریال‘ کینیڈا) پائیدار ترقی اہداف (SDG) کے تناظر میں جنوبی ایشیائی ممالک کے تعلیمی بجٹ کی صورتحال کا موازنہ پیش کرتا ہے‘ جو انتہائی تشویشناک ہے۔ 2015ء میں تعلیم کے بجٹ کا تناسب اس طرح تھا: بھارت 16.3 فیصد‘ بنگلہ دیش 12 فیصد‘ نیپال 12.8 فیصد اور پاکستان 13.2 فیصد۔ آٹھ سال بعد 2023-24ء میں تعلیم کے بجٹ کا حصہ‘ بھارت میں 14.2 فیصد‘ بنگلہ دیش میں 11.6 فیصد‘ نیپال میں 12.8 فیصد اور پاکستان میں محض 8.3 فیصد۔ یعنی آٹھ برس میں پاکستان میں تعلیمی بجٹ میں تقریباً چھ فیصد کی نمایاں کمی ہوئی ہے اور 2024-25ء کے بجٹ میں یہ شرح مزید کم ہو گئی۔ اکنامک سروے کے حالیہ اعداد وشمار سے صاف ظاہر ہے کہ شرحِ خواندگی اور تعلیم پر اخراجات میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے اور جنس (Gender)‘ صوبوں اور شہری؍ دیہی تفریق کی بنیاد پر تعلیمی عدم مساوات مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ صورتحال فوری‘ سنجیدہ اور عملی اقدامات کی متقاضی ہے‘ جن میں تعلیمی بجٹ کو کم از کم جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانے‘ صوبوں میں استعدادِ کار میں اضافہ‘ تعلیمی نصاب اور ڈھانچے میں تبدیلیاں لا کر شمولیتی تعلیم کو فروغ دینا اور بین الصوبائی رابطوں کو مضبوط کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے خوش نما اعلانات کے بجائے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ خوش رنگ وعدوں کے تو ہم عادی ہو چکے۔
زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب 30 اپریل 2024ء کو وزیراعظم نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ اس کا نوٹیفکیشن ایک ہفتے بعد‘ سات مئی کو جاری ہوا تھا۔ اس نوٹیفکیشن میں چودہ اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا اور ان پر عملدرآمد کی تکمیل کیلئے مختلف ڈیڈ لائنز مقرر کی گئی تھیں۔ ٹاسک فورس کے قیام کیلئے پندرہ دن کا وقت دیا گیا تھا لیکن یہ ٹاسک فورس 48 دن بعد‘ 25 جون 2024ء کو تشکیل دی گئی۔ تعلیم کیلئے بجٹ (وفاقی؍ صوبائی) کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانے کی کوشش کی جانی تھی۔ دلچسپ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود تعلیم پر اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہو گئے ہیں۔ (جیسے پہلے بیان ہوا کہ جولائی تا مارچ تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 0.8 فیصد خرچ کیا گیا)۔ اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کو ایک سال سے زائد عرصہ بیت چکا‘ اس دوران اس کا صرف ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس واحد اجلاس میں بھی ٹاسک فورس کے صدر نشین‘ جناب وزیراعظم اپنی مصروفیات کی بنا پر شرکت نہیں کر سکے۔ ٹاسک فورس نے تین ماہ کے اندر نیشنل ایکشن پلان بنا کر وزیراعظم کو پیش کرنا تھا مگر یہ پلان ایک سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بن سکا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان بھی ایک سراب تھا جس نے کچھ دیر کیلئے اپنی چمک دمک دکھائی اور پھر ہمیشہ کیلئے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ تعلیمی ایمرجنسی پر عملدرآمد تو دور کی بات‘ اب تو کوئی اس کا ذکر بھی نہیں کرتا۔ گویا رات گئی بات گئی۔