"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم‘ اساتذہ اور مصنوعی ذہانت

اکیسویں صدی نے ایک طرف تو ہماری زندگیوں کو بے شمار چیلنجز سے دوچار کیا ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ اَن گنت مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ ان چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج تبدیلی کے سفر کی تیز رفتاری ہے۔ پہلے زمانوں میں جو تبدیلی برسوں میں آتی تھی اب وہ مہینوں اور دنوں میں آ رہی ہے۔ تبدیلی کے عمل کی اس برق رفتاری کا براہِ راست اثر تعلیمی منصوبہ بندی پر پڑا ہے کیونکہ مستقبل کی منصوبہ بندی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں کئی ہنر اور نوکریاں متروک ہو جائیں گی جبکہ بہت سی نئی مہارتیں ناگزیر بن جائیں گی۔ نئی مہارتوں میں سب سے اہم مہارت مصنوعی ذہانت ہے۔ مصنوعی ذہانت نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے اور تعلیم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ردعمل متنوع‘ شدید اور متضاد ہے۔ آئیے سب سے پہلے ان نظریات کا جائزہ لیتے ہیں جو مصنوعی ذہانت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت مکمل طور پر قابلِ اعتماد نہیں اور بعض اوقات گمراہ کن ہو سکتی ہے۔ دوسرا مؤقف اخلاقیات کے تناظر میں مصنوعی ذہانت پر تنقید کرتا ہے کیونکہ اسے پرائیویسی کی خلاف ورزی‘ نگرانی اور نقصان دہ مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرا مکتبِ فکر مصنوعی ذہانت کو یکسر رد کرنے کے بجائے اس کے مثبت استعمال کے بارے میں پُرامید ہے اور سمجھتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا ذمہ دارانہ استعمال صحت‘ ٹیکنالوجی‘ ماحولیات‘ انجینئرنگ‘ کاروبار اور تعلیم جیسے شعبوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ یہ نقطۂ نظر مصنوعی ذہانت کو پیشہ ورانہ برتری کیلئے لازمی سمجھتا ہے۔ تاہم ایک متوازن رویہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ذمہ داری اور اخلاقی اصولوں کے تحت استعمال کیا جائے۔ پاکستان کے تعلیمی مسائل سے نمٹنے میں مصنوعی ذہانت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا تعلیمی مسئلہ دو کروڑ 51 لاکھ بچوں کا سکول سے باہر ہونا ہے (پاکستان اکنامک سروے 2024-25ء)۔ آئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت پاکستان کے تعلیمی نظام میں رسائی‘ معیار‘ مطابقت اور مساوات جیسے اہم چیلنجز سے نمٹنے میں کیسے مدد دے سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان بچوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے جو سکول یا کالج کی عمارتوں سے محروم ہیں۔ اور وہ بھی اپنی سہولت کے وقت‘ رفتار اور جگہ کے مطابق۔ یہ نظام ایک طرف تو لچکدار ہو گا اور دوسری طرف کم خرچ۔ مصنوعی ذہانت کے مؤثر استعمال سے سکولوں کی کمی اور اساتذہ کی قلت جیسے مسائل سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پیشہ ورانہ اور ذمہ دارانہ استعمال سے نصاب سازی‘ مواد کی تیاری‘ تدریسی عمل‘ انفرادی اختلافات سے نمٹنے‘ جانچ اور فیڈ بیک دینے کے عمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ نصاب سازی میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے بڑے ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کرکے طلبہ کی کارکردگی اور سماجی رجحانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس جائزے سے ہمیں ان مہارتوں سے آگاہی ہوتی ہے جو طلبہ کو مستقبل میں درکار ہوں گی۔ یوں مصنوعی ذہانت نصاب میں علم‘ مہارت اور صلاحیتوں کا مناسب توازن پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
جب نصاب تیار ہو جائے تو اگلا مرحلہ تدریسی مواد کی تیاری کا ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت نصاب کی خاکہ بندی سے انٹرایکٹو اور مقامی مواد تیار کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ مواد تعلیمی اہداف کیساتھ ہم آہنگ ہو گا۔ اس طرح مصنوعی ذہانت ابتدائی خاکہ تیار کرکے مواد سازوں کا کام آسان کر سکتی ہے تاکہ وہ ثقافتی پہلو‘ تدریسی طریقے اور موضوعاتی درستی پر توجہ دے سکیں۔ نصاب اور مواد کی تیاری کے بعد تدریس کا مرحلہ آتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے اساتذہ طلبہ کی انفرادی رفتار اور صلاحیت کے مطابق ذاتی نوعیت کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اساتذہ کو مصنوعی ذہانت کے پیشہ ورانہ اور ذمہ دارانہ استعمال کی تربیت دی جائے۔ پاکستان میں جہاں کلاسیں بھری ہوئی ہوتی ہیں‘ اساتذہ کو مصنوعی ذہانت سے بااختیار بنانا ضروری ہے‘ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے ٹیچر ایجوکیشن پروگرامز میں مصنوعی ذہانت کا مربوط ماڈیول شامل ہو۔ مصنوعی ذہانت طلبہ کی کارکردگی کا تجزیہ کرکے تدریسی حکمتِ عملی کو بہتر بنا سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے امتحانات کی خودکار جانچ پڑتال ممکن ہے‘ خواہ وہ معروضی ہوں یا تشریحی۔ یہ سکولوں کی سطح پر بھی انتظامی معاملات میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو پاکستان پائیدار ترقی کا ہدف (SDG 4) یعنی معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
آئیے اب پاکستان میں تعلیم میں مصنوعی ذہانت کے مؤثر استعمال کے راستے میں حائل چیلنجز کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ کئی علاقوں میں بجلی‘ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی سہولتیں ہی موجود نہیں۔ جہاں یہ سہولیات دستیاب ہیں وہاں انٹرنیٹ کی رفتار سست‘ غیر مستحکم اور ناقابلِ اعتماد ہوتی ہے۔ زیادہ تر اساتذہ مصنوعی ذہانت کے پیشہ ورانہ اور اخلاقی استعمال کے لیے تیار نہیں ہیں‘ جیسا کہ کووِڈ کے دوران واضح ہو گیا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ٹیچر ایجوکیشن پروگرامز میں مصنوعی ذہانت شامل نہیں ہے۔ دوسرا چیلنج ثقافتی اور لسانی ہے۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو زبان اور ثقافت کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایک اور بڑا چیلنج مصنوعی ذہانت کا اخلاقی (Ethical) استعمال ہے‘ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
نصاب کا ایک اہم جزو امتحانات کا نظام بھی ہے۔ مصنوعی ذہانت امتحانی نظام میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے بڑی تعداد میں سوالات بنائے جا سکتے ہیں۔ ایک ہی امتحان کے کئی ورژن بن سکتے ہیں اور سوالات کو کم سے کم وقت میں جانچا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اساتذہ کی جانب سے طلبہ کو دی جانے والی فیڈ بیک اکثر دیر سے‘ عمومی اور غیر مؤثر ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے فوری‘ مخصوص اور رہنمائی فراہم کرنے والی رائے دی جا سکتی ہے جو طلبہ کو اپنی خامیوں پر قابو پانے کیلئے نئی حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مسلسل فیڈبیک سے نہ صرف طلبہ کی بہتری ممکن ہو گی بلکہ یہ نصاب اور تدریسی طریقوں کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گی۔
لہٰذا پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر جیسے انٹرنیٹ‘ موبائل یونٹس اور شمسی توانائی سے چلنے والی لیبارٹریوں میں سرمایہ کاری کریں۔ ساتھ ہی ٹیچر ایجوکیشن پروگرامز میں مصنوعی ذہانت کو مربوط کیا جائے تاکہ اساتذہ کو بڑی جماعتوں سے نمٹنے کے لیے مؤثر‘ پیشہ ورانہ اور اخلاقی تربیت دی جا سکے۔ ان دونوں اقدامات کو عملی شکل دینا تبھی ممکن ہو گا جب ہمارے پاس جامع مصنوعی ذہانت پالیسی اور وفاقی و صوبائی سطح پر حکمتِ عملی کے منصوبے ہوں جو نصاب‘ تدریسی طریقوں‘ جانچ اور فیڈبیک کو مربوط کریں۔ ریاست کو چاہیے کہ مقامی زبانوں میں مصنوعی ذہانت کے کھلے ماخذ (open source) ٹولز کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں فروغ دے۔ ایک اور اہم اقدام یہ ہے کہ ریاست ڈیٹا کی رازداری اور مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال کو یقینی بنائے۔ اس مقصد کے لیے ایک مکمل مصنوعی ذہانت پالیسی کی ضرورت ہے جو مصنوعی ذہانت کے پیشہ ورانہ‘ ذمہ دارانہ اور اخلاقی استعمال کی رہنمائی فراہم کرے۔ آخر ی بات یہ کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی اساتذہ کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیے۔ مصنوعی ذہانت پالیسی سازی‘ نصاب سازی‘ تدریس اور جانچ میں معاون بن سکتی ہے‘ لیکن تخلیقی اور تنقیدی سوچ رکھنے والے اساتذہ کی ضرورت ہمیشہ موجود رہے گی تاکہ تعلیم میں جذبات‘ تخلیق اور تنقید شامل ہو سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں