دو برس قبل 15 مارچ کو شام میں بغاوت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔دوسال بعد اسی روز دنیا کے کچھ ملکوں نے شامی صدر بشارالاسد کے مخالف باغیوں کے ساتھ اظہارِیکجہتی کا دن منایا۔ ان دو سالوں میں تقریباً ستر ہزارلوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ لاکھوں لوگ ملک کے اند رہی بے گھر ہوئے ۔ شام میں زندگی مفلوج ہوگئی ہے اور ابھی تک اس بحران کا کوئی واضح حل نظر نہیں آرہا ۔ شامی حکومت کے خلاف کسی قسم کا کوئی اقدام فی الحال زیر غور نہیں، لیکن برسلز میں منعقدہونے والے یورپی اتحاد کے سربراہی اجلاس میںفرانس اور برطانیہ حزبِ اختلاف کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی اٹھانے کے لئے رکن مما لک کو آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کا خیال ہے کہ بشارالاسد کی حکومت پر اس طریقے سے دباو ڈالا جا سکتا ہے۔ مئی کے مہینے میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس پابندی میں توسیع کے لیے ووٹنگ ہوگی اور برطانیہ نے اس کو ویٹو کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ان دونوں ملکوں کا موقف ہے کہ شام پر ہتھیاروں کی پابندی کا کوئی مؤثر نتیجہ اس لیے سامنے نہیں آتا کیونکہ شامی حکومت کو روس اور ایران سے اسلحہ ملتا ہے جب کہ صرف حزبِ اختلاف پر پابندی کا اطلاق ہو رہا ہے جس سے اس تنازع کا حل مشکل ہوتا جا رہاہے۔ دوسری طرف شام کا بحران پڑوسی ملکوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔یہ تنازع اب لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ترکی حزب اختلاف کے مختلف دھڑوں کو استنبول میں اکٹھا کرکے اس بحران کے حل کے لیے تگ ودو کررہا ہے۔ پیر کے روز منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں مخالف گروہ نگران وزیراعظم کو منتخب کرنے کی کوشش کر یں گے تا کہ مخالفین کے قبضے میں جو علاقے ہیں وہاں افراتفری اور سکیورٹی کی ابتر صورت حال پر قابو پا یا جا سکے اور اگر بشارالاسد کی حکومت اقتدا ر کی منتقلی پرآمادہ ہوتی ہے تو نگران حکومت کی موجودگی میں یہ کام آسانی سے ہو پائے۔ اگر چہ مخالف جماعتوں نے شام کے بیشتر حصے پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن بشارالاسد کی گرفت ابھی بھی کمزور نہیں ہوئی اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو مستقبل قریب میں اس کی حکومت ختم ہونے والی نظر نہیں آتی۔ اس انسانی بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی برادری وقتاً فوقتاً مداخلت کرتی رہی ہے لیکن شام کے معاملے میں روس اور چین اس کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ انسانیت کے خلاف مظالم کو روکنے کے لیے مغربی مما لک نے’’ Humanitarian Intervention ‘‘کا استعمال کیا ہے، جیسا کہ لیبیا میں انسانی بحران کے خاتمے اور کرنل قذافی کی حکومت گرانے کے لیے فوجی مداخلت کی گئی ،لیکن انسانی مداخلت کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سرد جنگ کے دوران ایسا بہت ہی کم ہوا ۔ اقوام متحدہ کے بننے سے لے کر 1988ء تک صرف تیرہ مرتبہ انسانی بنیادوں پر مداخلت ہوئی، لیکن اس کے بعد صرف پچیس سالوں میں چوّن مرتبہ انسانی بحران کو جواز بنا کر مغربی ممالک نے دوسرے ملکوں میں مداخلت کی۔ اس کی وجہ توروزِ روشن کی طرح عیا ں ہے۔ سرد جنگ میں سوویت یونین امریکہ کے ٹکر کی طاقت تھی اسی لیے اس طرح کی کوئی بھی مداخلت عالمی اور ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا احتما ل تھا۔ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی اور دونوں طاقتوں کے اتحادیوں پر فوج کشی ان طاقتوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاسکتی تھی۔لیکن سرد جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے شروع ہوا اور یوں امریکہ کی مخالفت کی کسی میں سکت نہیں رہی۔ امریکہ نے دنیا کے نئے نظام کا سیاسی نقشہ تیار کرلیا۔ اس نئے نظام کے خدوخال بظاہر کتنے ہی اخلاقی کیوں نہ ہوں اس میں ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنے مفادات کاتحفظ کا خیا ل رکھا۔ اسی لیے انہی ملکوں میں مداخلت کی گئی جہاں ان کو اپنا مقصد حاصل کرنا تھا۔ انسانیت کے خلاف مظالم کو روکنا نہایت ہی معقول اقدام نظر آتا ہے لیکن اس کے ناقدین کے خیال میں ایسا صرف چُنے ہوئے مما لک میں کیا جا تا ہے اور بسا اوقات فوجی مداخلت انسانی بحران کو روکنے کی بجائے اس کومزید ہوا دیتی ہے۔ اسی لیے اس سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ملتا۔ ساتھ ہی ساتھ کسی ملک میں مداخلت سے اس کی حاکمیت کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے، لیکن اقوام متحدہ نے حا کمیت کو انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے سے مشروط کر دیاہے۔ ایک ریاست کی حا کمیت تب تک قائم رہتی ہے جب تک وہ اپنے شہریوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو نہیں روکتا۔ بصورت دیگر اس کی حاکمیت یا خودمختاری کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور بین الاقوامی برادری کا فرض بن جا تا ہے کہ معصوم انسانوں کو بچانے کی ذمہ داری نبھائے۔ اس کو معصوم انسانوں کی حفاظت کی ذمہ داری (Responsibilty to Protect) یا R2P کہتے ہیں۔ R2P ایک ایسا مو ضوع ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عا لمی سیاست میں کافی اہمیت اختیا ر کر گیا ہے۔ 2005 ء اقوام متحدہ کے زیرنگرانی کینیڈا میں R2P کے خدوخال وضع ہوئے۔ خودمختاری یا sovereignty کی نئی تعریف کی گئی، جو کہ اب ایک حق نہیں رہا بلکہ ذمہ داری ہے۔ اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری۔ اگر حکومت اس میں ناکام رہتی ہے تو پھر اقوام متحدہ اقدام اٹھانے پر مجبو ر ہوگی۔ انسانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر جرائم میں چار بڑے جرائم شامل ہیںـ: نسل کشی، نسلی صفائی،جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم ۔ان جرائم کوروکنے کے لیے اقوام متحدہ کئی طریقے اپنا سکتی ہے جن میں ثالثی کی کوششیں، اقتصادی پابندیاںاور عسکری مداخلت شامل ہیں۔ فوجی مداخلت کے لیے کچھ شرائط کا خیال رکھنا پڑتا ہے جیسا کہ مداخلت کی وجہ انصاف پرمبنی (just cause) ہونی چاہیے،ارادہ صرف انسانیت کے خلاف مظالم روکناہو اور کوئی اپنا ملکی مفا د نہ ہو،باقی سارے حربے ناکام رہے ہوں،جائز اتھارٹی ہو،طاقت کا استعمال متناسب ہو اور بحران کے حل کے مناسب امکانات ہوں۔ لیکن اقوام متحدہ کوئی عالمی حکومت نہیں جس کہ اپنی فوج ہو کہ اپنا فیصلہ لاگو کرسکے ،اسی لیے اس کو امریکہ اور نیٹوپر انحصارکرنا پڑتا ہے۔ اس طرح فیصلہ لاگو کرنے کا اختیا ر مغربی مما لک کو مل جا تا ہے اور وہ اپنے مفا دات کو سامنے رکھ کر کوئی اقدام کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق شام میں R2P کا اطلاق ہو تا ہے لیکن آخری فیصلہ بڑی طاقتوں کا مرہونِ منّت ہوگا۔