پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی کہانیاں اور ان پر گزرنے والی مشکلات پر با رہا لکھا جا چکا ہے لیکن یہ کہانیاں کم ہونے کی بجائے بڑھ ہی رہی ہیں۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بہتر معاش کی تلاش میں دیار غیر کا رخ کرتے ہیں۔ان کی بہت بڑی تعدادغیر قانونی طریقوں سے باہر کا رخ کرتی ہے۔ پاکستان میں قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے انسانی سمگلر یہ کام کھلم کھلا کرتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد ترکی کا بھی رخ کرتی ہے‘ لیکن ان کی اصل منزل یورپ ہوتا ہے۔ ترکی سے وہ براستہ یونان شینگن ممالک میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان کی ایک کثیر تعداد ترک ایران سرحد پر پکڑی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں، خاص کر استنبول اور یونانی سرحد پر بھی ترک پولیس ان کو پکڑ لیتی ہے۔ بعض دفعہ یونان کی سرحدی پولیس ان کو پکڑ کر ترکی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ ترکی کی جیلوں میں ہر وقت پانچ ہزار سے لے کر آٹھ ہزار پاکستانی تارکین وطن قید رہتے ہیں۔ ان کو پاکستان واپس بھیجنے کی ذمہ داری پاکستانی سفارت خانے کے سر ہوتی ہے۔ جتنے پاکستانی وطن واپس بھیجے جاتے ہیں تقریباً اتنی ہی تعدا د میں ایران سے سرحد پارکرکے ترکی آنے کی کوشش میں پکڑے جاتے ہیں۔ اسی لئے جیلوں میں ان کی تعداد کبھی کم نہیں ہوتی۔راقم نے ایسی ہی ایک جیل کادورہ کیا جہاں قیدیوں میں سے اکثر پاکستانی تھے۔ تقریباً ان سب کا تعلق گجرانوالہ اور گجرات سے تھا۔ انسانی سمگلنگ کے اس نیٹ ورک میں علاقے کے کچھ بااثر سیاسی لوگ بھی ملوث ہیں اسی لئے وہ کبھی قانون کے شکنجے میں نہیں آتے۔ جیل کے افسر نے راقم کو بتا یا کہ ان تارکین وطن میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ سرحد عبور کرنے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ قیدیوں کی زیادہ تعدا د غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو اپنا گھر یا زیورات بیچ کر لاکھوں روپے خرچ کرکے دیارغیر میں قسمت آزمائی کرنے اپنی جانوں کو جھوکم میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے تارکین وطن بھی ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ملک کے نا مساعد حالات سے تنگ آکر باہر کا رخ کرتے ہیں اور کچھ صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی رختِ سفر باندھ لیتے ہیں؛ حالانکہ پاکستان میں ان کی گذر بسر کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ راقم نے جب ان لوگوں سے دریافت کیا کہ انہوں نے کیوں اتنے پیسے خرچ کرکے اور اپنی زندگی مصیبت میں ڈال کر باہر کا رخ کیا تو ان میں سے کئی لوگوں نے جواب دیا کہ ان کے اڑوس پڑوس میں ایسے لوگ ہیں جو ان غیرقانونی طریقوں سے یورپ گئے اور ان کی تقدیر بدل گئی۔ اس طرح کی کامیاب مثالیں بے شک موجود ہوں گی لیکن ان سے کہیں زیادہ ناکام مثالیں ہیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ ترک جیلوں میں ان کے ساتھ سلوک نہایت ہی اچھا ہوتا ہے۔ اس بات کا اقرار خود قیدیوں نے بھی کیا اور ترک حکام نے بھی راقم کے سامنے یہی دعویٰ کیا۔ جیل کے افسر نے راقم کو بتا یا کہ وہ پاکستانیوں کی دل سے عزت کرتے ہیں ، اسی لئے ان کے ساتھ نہا یت ہی اچھا برتائو کرتے ہیں۔ تاہم ترک حکام کے اچھے رویے کے باوجود قیدیوں کو کئی سہولتیں دستیاب نہیں کیونکہ ترکی میں اتنی جیلیں ہی نہیں جتنی تعداد ان قیدیوں کی ہے۔ کبھی کبھار عارضی جیل کا بندوبست کیا جا تا ہے جہاں ایک ہی کمرے یاہال میں سینکڑوں لوگوں کو رکھا جاتا ہے۔ ترکی میں غیرقانونی طریقے سے آنے والے پاکستانیوں کے باعث دو بڑے نقصانات کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے وقار کا ہے۔ ترکی واحد ملک ہے جہاں پاکستانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں ان کو وہ عزت ملتی ہے جس کا کسی اور ملک میں تصور بھی مشکل ہے۔ لیکن ان تارکین وطن کی وجہ سے ترک حکام کا فی پریشان رہتے ہیں ۔ ان کی معیشت پر اضافی بوجھ پڑتا ہے اور یورپی اتحاد کے ساتھ تعلقات پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ ترکی کے لئے یورپی اتحاد میں شمولیت خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے لیکن ان کا ملک جب انسانی سمگلنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس طرح ان کی بدنامی ہوتی ہے۔ ترک عوام پاکستان کو ایک باوقار قوم سمجھتے ہیں لیکن اس طرح کے غیرقانونی کاموں سے پاکستان کا یہ تصور بری طرح خراب ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ جب پاکستانی ترک ایران یا ترک عراق سرحد عبور کرتے ہیں تو کچھ راستوں پر کرد دہشت گرد تنظیم پی کے کے، کے شدت پسندوں کا راج ہوتاہے۔ انسانی سمگلر ان کو رشوت دیے بغیر راستہ عبور نہیں کرسکتے ۔ یوں غیرقانونی پاکستانی دہشت گردوں کی کمائی کا ایک معقول ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس بات کا علم ترک حکام کو بھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک ترک عہدیدار نے راقم سے اسی بات کا رونا رویا۔ اُن کے بقول ترک حکومت ہر طرح سے دہشت گردوں کے مالی وسائل ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے لیکن انسانی سمگلرز ان کے لئے مسلسل دردسر بنے ہوئے ہیں۔انسانی سمگلنگ پاکستان کے لئے ایک خارجہ پالیسی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے دوست مما لک میں اس کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔ اسی لئے پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ مسئلہ سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے اور انسانی سمگلنگ کے گروہوں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کو قانون کے دائرے میں لانا چاہیے ورنہ بیرونی دنیا میں پاکستان کا بچا کھچا مثبت تاثر بھی ختم ہو کر رہ جا ئے گا۔