مسلمانوں کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ جدید دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب دین اسلام سے دور ہٹنا ہے‘ اس لیے انہوں نے دین کی اصل تعلیمات کی طرف پلٹنے کو اس کا مداوا تجویز کیا ہے۔ لیکن بعض علما جدید دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلام کی نئی تشریح ، جو اس کے روح کے مطابق ہو کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ موخرالذکر میں ترکی کی وہ کاوش بھی شامل ہے جو اس نے پانچ سال پہلے شروع کی۔ ترک حکومت نے فیصلہ کیا کہ ترک عوام کو اسلام کے بارے میں صحیح آگہی کے لیے احادیث کا جاننا ضروری ہے۔ اس کا م کا بیڑہ مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ ’’دیانت‘‘ نے اٹھایا۔ ان کے مطابق احادیث کی پہلے سے موجود کتابوں کو عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ قدیم کتب کے علاوہ جدید تشریحاتی کتابوں پر بھی یہ اعتراض اٹھا کہ یہ ترک عوام کی دینی مسائل کا حل نہیں پیش کررہیں کیونکہ ان میں سے اکثر دوسرے ممالک میں چھپتی ہیں اور بعد میں ترکی زبان میں ترجمہ کی جاتی ہیں۔ ترک حکومت کے خیال میں اس طرح کی تشریحی کتابیں جہاں چھپتی ہیں وہیں کی مخصوص سیاسی ، سماجی اورجغرافیائی حالات کی ترجمانی کرتی ہیں جو ترک معاشرے کے لیے موزوں نہیں۔ اس لیے ’’دیانت‘‘ نے احادیث کا ایک ایسا مجموعہ تیار کرنے کا منصوبہ بنا یا جو جدید عصری اور ترکی کے خصوصی حالات کو پیش نظر رکھے۔ کئی ہزار احادیث سے اخذ کردہ احادیث کو سلیس ترکی زبان میں ایک عام آدمی کی دینی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایک کتاب کی شکل میں چھاپنا مقصود تھا۔ ’’دیانت‘‘ کے نائب صدر محمت گورمیز کے مطابق اس وقت کل احادیث کی تعداد تقریباً ایک لاکھ انسٹھ ہزار(159000) ہے لیکن ان کی ایک بڑی تعداد مکرر ہے۔ اگر ان احادیث کو نکال دیا جائے تو یہ تعدادبیس ہزار(20000) رہ جاتی ہے۔ گورمیز کی رائے میں ایک حدیث ایک بڑی تصویر کا ایک حصہ ہوتا ہے‘ اس لیے سب ٹکڑوں کو ملا کر تصویر کو دیکھنا چا ہیے۔ یہ کام جدید ٹیکنالوجی خاص کر کمپیوٹر کے ذریعے بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ دیانت کا دعویٰ ہے کہ ان کا احا دیث کو جمع کرنے کا طریقہ کار جدید سائنسی اصولوں کے مطابق ہے۔’’ دیانت‘‘ کو یہ ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بہت سی احادیث کا پیغمبرﷺ کے زمانے اور عرب کے مخصوص جغرافیے سے تعلق ہے‘ اس لیے احادیث میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن کے معنی ترک لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہے‘ لہٰذا ایسی احادیث کی روح کے مطابق ان کی آسان زبان میں تشریح ہونی چاہیے۔ یہ کام انتہائی حساس نوعیت کا تھا‘ اس لیے اسلامیات کے پروفیسرز جو پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل تھے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اب یہ منصوبہ تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور زیر طبع ہے۔ عنقریب احادیث کی یہ نئی کتاب مارکیٹ میں آجائے گی۔ لیکن اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہی سے جاری ہو گیا ہے۔ کچھ علما کے مطابق احادیث کی یہ نئی تشریح دین میں تحریف کے مترادف ہے،کیونکہ اسلام کی تعلیمات زمان و مکان کے قیود سے آزاد ہیں اس لیے کسی نئی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نئی کتاب کے حامی علما کا خیا ل ہے کہ احادیث کی نئی تشریح اس لیے ضروری ہے کہ ترکی اکیسویں صدی میں ایک جدید ملک کے حیثیت سے داخل ہوچکا ہے۔ ترکی میں حکومتی نظام سیکولرزم اور جمہوریت پر مبنی ہے جبکہ معاشرہ اسلامی ہے‘ اس لیے اس معا شرے کی ضروریات کے مطابق احادیث کی روح کے مطابق نئی تشریح کی ضرورت ہے۔ مثلاً ان کے خیال میں کچھ احادیث ایسی ہیں جو صرف پیغمبر اسلامﷺ کے دور کے لیے مخصوص تھیں جن میں اس وقت کے معاشرتی تقاضوں کومدنظر رکھا گیا تھا۔ لیکن اب اس کی ضرورت نہیں‘ اس لیے ایسی احادیث کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا جو ان کے مطابق صرف اس وقت کے لیے تھیں۔ ناقدین کے مطابق اسلام میں اپنی مرضی کی چیزیں اپنانے اور ترک کرنے سے دین کو نقصان پہنچے گا اور اسلام کی روح کے منافی فعل سرزد ہوگا۔ انقرہ یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز کے ایک پروفیسر شابان علی دُزگُن کا خیال ہے کہ عام طورپر آئمہ حدیث بہت ساری احادیث کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں جن کی جانچ ایک عام آدمی نہیں کرسکتا کیونکہ ہر آدمی کی رسائی ان کتابوں تک نہیں ہوتی۔ اس لیے ایک کتاب کی موجودگی میں وہ صرف اسی کتاب کا حوالہ دیں گے اور عام لوگ بھی اس کی تحقیق کرسکیں گے۔اس کتاب میں خواتین کے بارے میں ایک باب میں لکھتے ہیں کہ اسلام کے آغاز میں خواتین مساجد میں جایا کرتی تھیں اور روزگار کے لیے بھی گھروں سے باہر نکلتیں تھیں۔ اسی طرح ایک باب میں لکھا ہے کہ علم کا حصول اسلامی فریضہ ہے اور یہ مرد اورعورتوں دونوں کے لیے یکساں لازم ہے۔ اس منصوبے کے دفاع میں اس کے ڈائریکٹر محمت اوزاسفر کہتے ہیں کہ و ہ دین میں کوئی تبدیلی نہیں لارہے بلکہ اس کو وقت کے تقاضوں اور ترک کلچر کے آئینے میں آسان اور سلیس بنا رہے ہیں تا کہ ہر کسی کو دین کی تفہیم میں آسانی ہو۔ ان کے مطابق اسلام ہر ملک میں مقامی کلچر کے ساتھ خلط ملط ہوتا ہے اس لیے ترکوں کو اپنی ضروریات کے مطابق سوچنا چاہیے۔ ترکوں کی سوچ باقی مسلمان دنیا سے مختلف ہے اور وہ دین کے لغوی معنوں کے پیچھے نہیں جاتے ۔ باقی دنیا میں مسلمان لغوی معنوں میں الجھ چکے ہیں جب کہ ضرورت دین کی روح کو سمجھنے کی ہے۔ دیانت کے مطابق اسلام ہر دور کے مسائل کا حل دیتا ہے لیکن یہ تب ہوتا ہے جب علما نئے دور کے چیلنجز کے مطابق اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق نئی تشریحات کرتے ہیں۔ ترک معاشرہ عثمانی خلافت کے دور میں بھی مذہبی رواداری اور اعتدال پسندی کے لیے مشہورتھا اور اب بھی ترک معاشرہ دین پر بحث کرنے سے نہیں کتراتا۔ ترکی کے علاوہ اس منصوبے میں عرب ممالک خاص طور پر مصر کے علما کافی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کو خوش آئند فعل قرار دیتے ہیں۔ ایک مسلمان معاشرہ ہونے کے باوجود ترکی میں دین اسلام پر ترک علما کی لکھی ہوئی مستند کتابوںکی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ترکی نے جمہوریہ بننے کے بعدسیاسی اسلام کو دبانے کی کوشش کی ۔ کمالسٹ طاقتوں نے اسلام کو زیرزمین جانے پر مجبور کیا‘ لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہو ا کہ ترکی میں اسلامی لٹریچر کا کافی فقدان ہوگیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے باہر سے کتابیں منگوا کر ان کے تراجم کرائے گئے لیکن غیر ترکی اسلامی لٹریچر نے بھی ترک حکام کی پریشانیاں بڑھا دیں‘ کیونکہ یہ کتابیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سیاسی اسلام اور حکومتوں کے خلاف پرتشدد احتجاج کو جائز قرار دے رہیں تھیں۔ اس طرح کے نظریات نے ترک حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ اس لیے ترک حکومت نے عوام کو اسلامی تعلیم دینے کی ذمہ داری خود اٹھائی اور سکولوں میں بنیادی اسلامی تعلیم رائج کی۔ آج کل پوری اسلامی دنیا مذہبی منافرت کے لپیٹ میں ہے ۔ مذہبی رجعت پسندی بھی عروج پر ہے ۔مسلمان دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور مذہبی منافرت نے ترک حکومت کو عملی اقدام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ احادیث کی یہ کتاب بھی ایسی ہی ایک کاوش نظرآرہی ہے۔ کیا اس کاوش سے اسلام کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اس کے بارے میں تو کوئی مذہبی سکالر ہی رائے دینے کا مجاز ہے۔