سبھی جانتے ہیں کہ جمہوری طرزِ حکومت مغربی تہذیب کی دین ہے۔ قوموں کا نظام حکومت ان کے مخصوص معاشی، سیاسی اور ثقافتی حا لات کا ترجمان ہوتا ہے۔ یہ سینکڑوں سال کے ارتقا کے ذریعے پروان چڑھتی ہے۔ مغربی دنیا میں بھی جمہوری نظام حکومت سینکڑوں سالوں کے تجربوں سے وجود میں آیا۔ قبل مسیح کے قدیم یونانیوں کا ورثہ بھی اس میں شامل ہے۔ جمہوریت اب مغربی معاشروں کا حکومتی کے ساتھ ساتھ معاشرتی نظام بھی ہے۔ ان کا معاشرہ جمہوری طورطریقوں اور فیصلہ سازی کا عکا س ہے ۔ اس کے مقابلے میں مشرقی تہذیبیں مطلق العنانی کے تحت چلتی رہیں۔مشرق کا معاشرہ نظام مراتب کا آئینہ دار رہا اور اب بھی ہے۔ خاندان کا سربراہ عام طورپر مرد ہوتا ہے اور وہی ہرطرح کے فیصلے کرتا ہے۔ یہی صورت پھر ملکی سطح پر بھی ہوتی ہے۔ فرد واحدیا ایک خاندان کی حکومت ہوتی ہے‘ یا پھر کسی مخصوص طرز فکر کے حامل اقلیتی ٹولے کی۔ وہی پوری قوم کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہے۔ آمرانہ ادوار میں بھی قومیں ترقی کرسکتی ہیں‘ خاص کر مادی ترقی لیکن انسانی سوچ کے ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ جمہوریت میں فیصلو ں کا محور عام انسان ہوتا ہے۔ ایک شہری اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے فیصلے کا حق اپنے نمائندے کو منتقل کرتا ہے، جو اس کی طرف سے حکومتی پالیسی سازی میں حصہ لیتا ہے۔ جمہوریت انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ان کو کسی بھی قانون سازی کے ذریعے معطل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود جمہوری نظام پر کئی طرح کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ چونکہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور عام لوگوں کے ذریعے ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ عام لوگ حکومت اور سیاسی تکنیکی مسئلوں سے واقف ہوں۔ اس کے جواب میں جمہوریت کے حامی کہتے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ سیاسی فیصلے کس طرح کیے جائیں۔ اس نظام میں اقلیتوں کو اس طرح محفوظ بنایا جاتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو۔ اسی لیے سیاسی ماہرین جمہوریت کو ایک بہتر نظام حکومت گردانتے ہیں۔ مشرق میں اور خاص طور پر مسلمان ممالک میں بادشاہی نظام صدیوں سے چلتا آ رہا تھا‘ لیکن اٹھارویں اور انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب نے دنیامیں طاقت کا توازن مغرب کے حق میں کردیا۔ ایک کے بعد ایک‘ مسلمان مما لک ان کے قبضے میں چلے گئے لیکن ان نو آبادیاتی طاقتوں نے مقبوضہ علاقوں میںبنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے نظام کو نہیں اپنایا۔ مسلمان مما لک کو جب آزادی ملی تو اس دن سے لے کر آج تک وہ اس مخمصے کا شکار ہیں کہ کون سا نظام حکومت اپنائیں۔ کہیں مغربی ماڈل کا اس طرح اطلاق کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سیکولر انتہاپسندی کے قریب ہوئے۔ کہیں پر شرعی نظام کے تجربے ہوئے اور کہیں پر جمہوریت اور شریعت کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ مسلمان ممالک طویل تغیر (Transition) سے گذر رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی عثمانی خلافت اور سلطنت کا زوال شروع ہوچکا تھا۔ اس جنگ میں ترکی کی عثمانی خلافت نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کھائی۔ نتیجے کے طورپر استنبول سمیت ترکی کے کئی حصے مغرب کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ترک وہ قوم تھی جس نے سینکڑوں سا ل مشرقی اورجنوبی یورپ پر حکومت کی تھی۔ ترکوں کے لیے یہ ایک غیر یقینی صورت حال تھی۔ خلیفہ کا استنبول میں مغرب کے ہاتھوں مقید ہونا پوری قوم کے لیے کسی اذیت سے کم نہ تھا۔ اس صورت حا ل میں کسی مسلم ملک نے ترکوں کا ساتھ نہ دیا۔ عرب ممالک ،جو عثمانی خلافت کا حصہ رہے تھے ،نے اپنی آزادی کے لیے تاج برطانیہ کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔ ہرطرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ترکی کو مصطفی کمال نے اپنی قیادت میں آزاد کرایا۔ یہاں پر یہ بتانا بے جا نہ ہوگا کہ اس کٹھن دور میں صرف برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کا ساتھ دیا جس کے لیے ترک قوم اب بھی پاکستان کی شکر گزار ہے اور اسی لیے پاکستانیوں کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتی ہے۔ ایک زندہ قوم کو اپنی تاریخ یاد رہتی ہے اور ترکوں کا بچہ بچہ اپنی تاریخ سے واقف ہے‘ لیکن مصطفی کمال اور ان کے ساتھی انقلابیوں نے محسوس کیا کہ صرف مذہب کی بنیاد پر قوم کی تعمیر نہیںہوسکتی۔ یہ سوچ رکھنے والے مغربی اقدارسے متاثر تھے کیونکہ ان میں سے کئی ایک مغربی درس گاہوں سے فیض یاب ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کو یقین تھا کہ ترکی اگر مغربی طرز حکومت اپنائے، تعلیم ، سائنس اور صنعت میں ترقی کرے تب جاکر اس کی بقا ممکن ہوگی۔ ترکی کا مخصوص جغرافیہ‘ جو مشرق اور مغرب کا سنگم ہے‘ اس کی بقا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ اسی لیے سیکولرازم، جمہوریت اور صنعتی ترقی کو محور بنا کر ایک جدید ترکی کی قومیت سازی شروع کی گئی۔ اس کی بنیاد ترک قومیت پر رکھی گئی۔ جس طرح کہ مغرب میں ریاست بربنائے قومیت (Nation State) کا نظام رائج تھا۔ لیکن ترک معاشرہ ایک قدامت پسند مشرقی معاشرہ تھا ۔ اس معاشرے کو ازسرنو ایک مغربی نظریہ کے مطابق تبدیل کرنا آسان نہیںتھا ۔ اسی لیے حکومت نے کچھ سخت اور غیر جمہوری قدم اٹھائے۔ سیاسی مخالفت کی بیخ کنی کی گئی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے کمال ازم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور مصطفی کمال اتاترک کا personality cult اپنا لیا۔ کمال ازم کے بنیادی نظریے کی نئی تشریحات ہوئیں اور مصطفی کمال کے نام پر ایسے کام کیے گئے جس کی شاید وہ خود کبھی اجازت نہ دیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس سوچ کے لوگوں نے deep state کی حیثیت اپنا لی۔ انہوں نے کسی بھی جمہوری اور متبادل سیاسی سوچ کو پنپنے نہیں دیا۔ بانیٔ قوم‘ جس نے جمہوریت کا درس دیا تھا‘ کا نام غیر جمہوری کامو ں کے لیے استعمال ہوا۔ لیکن باوجود اتنی طاقت کے کمال ازم کو عوام میں مقبولیت نہ ملی۔ ترکی میں موجودہ مظاہرے، حزب اختلاف اور آرمی کا کردار، اور اسلامی سوچ کی حامل حزب اقتدا ر کی سیاست اس تغیر کا حصہ ہیں جس سے ساری مسلم دنیا دوچار ہے۔یہ وہی تغیر ہے جس میں مسلمان مما لک مغربی غلبے کے ردعمل میں اپنی سیاسی سمت متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔