عراق کے شمال میں خودمختار کردستان قائم ودائم ہے اور اب شام میں ترک سرحد کے قریب بھی اسی طرح کا ایک خودمختار کردستان بننے جارہاہے۔ برسوں پہلے امریکہ میں Greater Middle East کے نام سے جو نقشہ تیا رہوا تھا اس میں آزاد کردستان کی ایک نئی ریاست بھی تھی جو شام، ترکی، عراق اور ایران سے کّردوں کے علاقے کاٹ کر بنائی گئی تھی۔ کیا یہ نیا خود مختار کردستان اس نقشے کی جانب ایک اور قدم ہے؟ اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے کچھ تاریخی پہلوئوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کُردوں کی ایک کثیر تعداد ترکی میں آباد ہے،اسی لیے ترکی کے حوالے سے اس کا جائزہ زیادہ موزوں لگتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران ترکی نے مشرق وسطیٰ سے دور رہنے کی پالیسی اپنائے رکھی کیونکہ ترکی خود کو یورپ کا حصہ سمجھتا رہا۔ اس کی ساری پالیسیوں کا جھکائو مغرب کی طرف رہا۔ صرف کُرد وں کا مسئلہ ایسا تھا جس نے ترکی کو مشرق وسطیٰ میں ا ٹکائے رکھا۔ کُرد قوم ایران، عراق، شام اور ترکی کی سرحدوں پر آباد ہے۔ یہ لوگ آزادی اور خودمختاری کی طرف مائل ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں برسر پیکار ہیں۔ ان کا زیادہ تر حصہ ترکی میں آباد ہے ۔ ترکی میں ان کی ایک شدت پسند تنظیم پی کے کے نے گذشتہ تین دہائیوں سے اودھم مچا رکھا ہے۔ اس تنظیم کے نہ صرف سرحد کے پار کرد تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں بلکہ اس نے وہاں اپنے کیمپ بھی بنا رکھے ہیں۔ اسی لیے ترکی کا ان ملکوں کے ساتھ تعلقات کا محور پی کے کے ہی رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد غیر وابستگی کی یہ پالیسی ترک کردی گئی۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی نئی حکومت نے مشرق وسطیٰ کے متعلق پیش عملی کی پالیسی بنائی۔ پڑوسی مما لک کے ساتھ تعلقات میں کافی بہتری لائی گئی۔ اس طرح ان ممالک کے ساتھ تجارت کا حجم کافی بڑھ گیا اور ترکی میں عرب ممالک کے سیاحوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ عرب ممالک میں ترک سرمایہ کاروں نے اربوںڈالر کی سرمایہ کاری کی ۔ ساتھ ہی ساتھ عرب دنیا اور ترک قوم کے درمیان دیرینہ نفرت میں خاصی کمی بھی آئی اور ایسالگنے لگا کہ عرب عوام ترکی کا جمہوری ماڈل اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ عرب دنیا میں اٹھنے والے عوامی انقلاب کے بارے میں بھی کچھ مبصرین کا یہی خیال ہے کہ عرب عوام ترکی کی طرح ایک جمہوری نظام چاہتے ہیں جس میں ترقی ہو اور انسانی حقوق کا تحفظ بھی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت گرنے کے بعد ترکی کے لیے کُرد مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو گیا، کیونکہ عراق کے شمال میں کُردوں نے ایک خودمختار علاقہ بنا لیا تھا جس کو امریکی تحفظ حا صل تھا۔ اس وقت ترکی نے کُر د باغیوں کے تعاقب میں خودمختار کردستان پر وقتاًفوقتاً فضائی حملے کیے۔ لیکن امریکی مداخلت اور ترک حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کی بدولت اب خودمختار کردستان کے ساتھ ترکی کے تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔ طے یہ پایا کہ کردستان پی کے کے ،کے باغیوں کو پناہ نہیں دے گی جس کے بدلے میں ترکی کردستان میں تیل کی تلاش، ترسیل اور برآمد میں سرمایہ کاری کرے گا۔ شام کے ساتھ ترکی اپنے تعلقات معمول پر لے کر آیا اور شامی حکومت نے بھی ترکی کو یہی گارنٹی دی کہ وہاں سے ترکی پر حملے نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ایران کا بھی ترکی نے کافی ساتھ دیا‘ خاص طور پر ایران کے جوہر ی پروگرام کے تناظر میں مغرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ضمن میں، ترکی نے کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بدلے میں ایران نے کرد باغیوں کی کمین گاہیں تباہ کیں اور ترکی کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا۔ یہ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق چل رہا تھا کہ اچا نک عرب دنیا کے گلیوں میں ایک عوامی آندھی آئی جس نے ترکی کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ جب عرب دنیا میں حکومتیں گرنے لگیں تو ترکی نے عوام کا ساتھ دیا۔ تیونس، لیبیا اور مصر میں عوامی انقلاب نے آمروں کا تختہ الٹ دیا تو نئی حکومتوں کے ساتھ ترکی نے ہر طرح کا تعاون کیا اور وہاں پر اپنے سیاسی اور تجارتی مفادات کو محفوظ بنایا، لیکن مصر میں صورت حال نے اس وقت ایک نئی کروٹ لی جب فوج نے محمد مورسی کی حکومت کو ختم کیا۔ ترکی نے ایک اخلاقی موقف اپنایا اور فوجی بغاوت کی کھل کر مخالفت کی۔ ترکی اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے اور محمد مورسی کی حمایت سے نہیں کترا رہا۔ حالانکہ ترکی کے مغربی اتحادی ترکی کے ساتھ متفق نظر نہیں آتے۔ مصر کی اس نئی حکومت کے ساتھ ترکی کیسے اپنے معاملات سلجھاتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصر سے بڑھ کر ترکی کے لیے تشویش ظاہر کرنے والا ملک اس کا پڑوسی شام ہے۔ شام میں بغاوت کو دوسال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے آثارنظر نہیں آتے۔ ترکی نے شام میں بھی باغیوں کا ساتھ دیا لیکن شام کے داخلی سیاسی ماحول کا صحیح تجزیہ نہیں کیا‘ نہ ہی اپنے مغربی اتحادیوں کے ارادوں کو بھانپ سکا۔ شام نے جواباً ترکی کی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت شروع کردی۔ ساتھ ہی ساتھ ایران نے بھی شام کی حمایت میں ترکی کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرلیا اور پی کے کے، کے باغیوں کی پشت پناہی شروع کی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بشارالاسد نے ترک سرحد کے قریب سات اضلاع میں کرد باشندوں کو داخلی خودمختاری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ شامی کُرد ان علاقوں میں القاعدہ سے منسلک النصر فرنٹ کے ساتھ برسرپیکار ہیں اور انہوں نے اپنے علاقے کو ہر طرح کے باغیوں سے پاک رکھا ہے۔ اس طرح وہ حکومت کے اتحادی بن گئے ہیں۔اس کے بدلے میں بشارالاسد ان کو داخلی خودمختاری دینے میں خوش ہیں۔ ترکی کی سلامتی کو شام کے اس اقدام سے کافی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اسی لیے ترکی نے اس منصوبے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ ترکی کو یہ بھی ڈر ہے کہ مغربی ممالک شام کے اند ر خودمختار کردستان کی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ کُرد اس علاقے سے القاعدہ کو دور رکھ رہے ہیں۔ اس طرح بشارالاسد ترکی پر دبا ئو ڈال سکتا ہے تا کہ وہ باغیوں کی حمایت تر ک کرے۔ ترکی نے پی کے کے، کے ساتھ امن کا عمل شروع کیا ہے اور شام کے اس اقدام سے یہ عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ترکی کی سرحد پر کردوں کی دوخودمختارحکومتیں ترکی کے اندر کردوں کو ضرور متاثر کریں گی۔ ترکی کے کردوں میں پہلے سے موجود آزادی اور خودمختاری کے مطالبات کو مزید شہ ملے گی۔ کم از کم آزاد کردستان کے حوالے سے امریکی نقشے کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں،لیکن آزاد کردستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کے لیے کئی ایک اور عوامل کا تجزیہ درکار ہوگا۔