شاید ہی پاکستان میں کوئی ایسا ہو جو مولانا رومیؒ کو نہ جانتا ہو۔ لیکن کم ہی لوگوں کو پتا ہے کہ رومیؒ کا مدفن ترکی کے شہرقونیہ میں ہے۔ قونیہ دارالحکومت انقرہ سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ دونوں شہروں کے درمیا ن بجلی سے چلنے والی تیز رفتار ٹرین کی بدولت اب یہ وقت خاصاکم ہو کر رہ گیا ہے۔مولاناؒ کے مزار کی زیارت کے لئے اندرون و بیرون ملک سے لاکھوں زائرین اور سیاح قونیہ کا رخ کرتے ہیں۔ترک حکومت نے ان کی سہولت کے لئے ہر طرح کے اقدامات کئے ہیں۔ مولاناؒ کا مزارایک بہت بڑا کمپلیکس ہے جہاں میوزیم، ثقافتی مرکز، پارک اور ایک خوبصورت مسجد مزار کی اہمیت کا پتا دیتے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومیؒ تیرھویں صدی عیسوی میں افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے۔ منگولوں کے پے درپے حملوں کی وجہ سے روم ہجرت کرنی پڑی۔ اس وقت اناطولیہ (ترکی) کو روم کہا جاتا تھا کیونکہ یہ علاقہ مشرقی باز نطینی ریاست( Empire Byzantineّ)کا حصہ تھا جس پر ترکوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ یہاںپر چھوٹی چھوٹی ترک ریاستیں وجود میں آگئی تھیں۔ مولانا کا لقب بھی اسی وجہ سے رومیؒ پڑ گیا۔مولانا رومیؒ نے روم میں رہتے ہوئے تصوف کے کئی مراحل طے کئے۔ ان کے علم ، تصوف، اور صوفیانہ شاعری نے بے شمار لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے پر مجبور کیا۔ اس طرح مولانا کے حلقہ مریدان میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا۔مولانا کے جانشینوں نے تصوف کے سلسلہ مولوی یا ’’مولویہ‘‘ کا اجرا کیا جو تا حال جاری و ساری ہے۔ کئی سوسال تک ترکی اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان مولانا کی تعلیمات سے استفادہ کرتے رہے۔ سلسلہ مولویہ میں ذکر ـ’سماع‘ کے ذریعے ہوتا ہے۔ سماع میں مولانا رومیؒ کے مریدان ایک مخصوص ساز پر رقص کے ذریعہ ذکر الٰہی میںغرق ہوجاتے ہیں۔ ان کومغربی دنیا میںwhirling dervishes بھی کہتے ہیں۔ سلسلہ مولویہ شروع ہی سے مولانارومیؒ کے جانشینوں کے ہاتھ میں ہے۔اسے عثمانی خلافت میں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا۔اس سلسلے کے کئی گدی نشین عثمانی ترک خلفاء کے مشیر بھی رہے۔ اس تسلسل میں خلل اس وقت پڑا جب عثمانی دور کا خاتمہ ہوا۔ مصطفی کمال اتاترک نے مولوی سلسلے پر پابندی لگا دی۔ تصوف کی ہر محفل اور نشست ممنوع قرار پائی۔ ان کے اعزازات چھین لئے گئے اور سماع کا ذکرجو کہ سینکڑوں سال سے بلاناغہ جاری تھا غیرقانونی قرار دیا گیا۔ لیکن سلسلہ مولویہ ختم ہونے کے بجائے زیر زمین چلاگیا۔ انتہائی رازداری سے سماع کا انعقاد بھی ہوتا رہا اور بیعت بھی چلتی رہی۔ تقریباً تیس سال تک یہ پابندی قائم رہی۔ پھر ترک حکومت کو مولانا کے مزار کی سیاحتی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اسی لئے اسے میوزیم کے طور پر کھول دیا گیا۔جہاں اب ہرسال لاکھوں سیاح زیارت کے لئے آتے ہیں۔ مزار کے اندر موئے مبارکؐ بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ میوزیم میں مولاناؒ اور مولوی سلسلے کے گدی نشینوں اور ان سے متعلقہ اشیاء بھی نمائش کے لئے رکھی گئی ہیں۔ مولاناؒ کی شہرہ آفاق مثنوی کے کئی کاتبوں سے منسوب نسخے بھی موجود ہیں۔ دربار کے داخلی راستے میں مبینہ طور پر وہ جگہ بھی ہے جہاں مولانا رومی کی ملاقات شمس تبریزیؒ سے ہوئی تھی۔یہ وہ شخصیت تھی جس نے مولانا کی زندگی میں انقلاب برپا کیا تھا۔ دربار سے چندسو گز کے فاصلے پر تبریزیؒ کا بھی مزارہے۔ لیکن مزار کے اوپر ہی لکھا ہوا ہے کہ تبریزی کے شام اور پاکستان کے شہر ملتان میں بھی مبینہ مزارات ہیں اس لئے مزار کی حقیقت کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ پابندی اٹھنے کے بعد سماع کا اہتمام تو ہونے لگا لیکن صرف سیاحوں کے لئے۔ مریدوں کی جگہ پیشہ ور لوگوں نے لے لی۔ اب ہفتے میں ایک بار قونیہ ثقافتی مرکز میں اس کا انعقاد ہوتا ہے جہاں ہزاروں ملکی و غیرملکی سیاح اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ان لاکھوں سیاحوں میں مذہبی عقیدت رکھنے والے اور سلسلہ مولوی کے مریدان بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں صوفیاکے مزارات کے برعکس اس مزار کا ماحول مختلف ہوتا ہے۔ مزار میں نہ تو قوالی ہوتی ہے، نہ ہی ڈھول بجتے ہیں اور نہ ہی مزار کو سجدے۔ نہ ہی آپ کو بھنگ اور چرس پینے والے ملیں گے۔ مزار اور اس کا احاطہ صاف ستھرا ہوتا ہے۔ لوگ خاموشی سے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دعائیں مانگتے ہیں اور قرآن خوانی کرتے ہیں۔ لنگر تو نہیں چلتا البتہ چائے، کافی یا ٹھنڈے مشروبات سے زائرین کی تواضع کی جاتی ہے۔ یہ سب اہتمام ترک حکومت کرتی ہے۔ سارا ترکی مولاناؒ کااحترام کرتا ہے۔ یہاں پر کوئی گروہی اختلاف نہیں۔ کوئی کٹر راسخ العقیدہ گروہ بھی نہیں جو مولانا کو تنقید کا نشانہ بنائے یا ان کے مزار کو ہدف بنائے۔ مولاناؒ کی تعلیمات محبت، رواداری اور بھائی چارے پر مبنی ہیں۔ اسی لئے ہر مذہب اور مکتبہ فکر کے لوگ ان کو پسند کرتے ہیں۔ مولانا ہر طرح کے گروہی، مذہبی اور لسانی نفرتوں سے مبرا ہوکر پوری انسانیت کے امن کے داعی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مولاناؒ کی زندگی اور پردہ نشینی میں ان کے دروازے بلا تفریق ہر خاص وعام کے لئے کھلے رہے ہیں۔ان کی تعلیمات میں نفرت اور تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اسی لئے 800 سال گزرنے کے باوجود مولاناؒ کی مقبولیت اور اہمیت کم نہیں ہوسکی۔ مولانا رومیؒ کی تعلیمات اور فکر کی جتنی ضرورت مسلم دنیا کو اب ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ مسلمان اس وقت جس قدر نفرتوں اور تشدد سے دوچار ہیں، اس میںمولاناؒ ہی کے افکار سب کے لئے مشعل راہ ثا بت ہوسکتے ہیں۔