بیتے ہوئے دن یا د آتے ہیں …(1)

شوکت جاوید
(سابق انسپکٹر جنرل پولیس)

 

بیتے ہوئے دن ایک ایسا خوبصورت اثاثہ ہیں‘ جس سے انسان مسلسل توانائی اور تقویت پاتا ہے۔ بیتے ہوئے دن وہ خوبصورت گلدستہ ہیں‘ جس کی خوش رنگی و خوبصورتی اور جس سے اٹھنے والی مہک اور خوشبو انسان کو تروتازہ رکھتی ہے۔ 
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
میں ایک متوسط اور لوئر مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوا۔ تعلق دیہات سے تھا لیکن والد محترم ملازمت کی غرض سے شہر لاہور چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ میں ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور پہلی اولاد تھا‘ سو محبت کا زم زم بے پایاں بہتا تھا۔ 
سنٹرل ماڈل سکول لاہور‘ جو اس وقت کے مغربی پاکستان کا سب سے منفرد اور اعلیٰ تعلیمی ادارہ کہلاتا تھا‘ سے اپنی سکول کی تعلیم کا آغاز کیا اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے 1970ء میں گریجوایشن مکمل کی۔ گورنمنٹ کالج یقینا اپنے ٹاور سے بھی بلند قامت اور قد آور تعلیمی ادارہ ہے۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنا بجائے خود ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ حکیم الامت شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال، سید پطرس بخاری اور ڈاکٹر نذیر کا گورنمنٹ کالج، ہمیشہ سے رگوں میں دوڑنے والے خون کو تیز تر اور سوچ کو توانا کر دیتا ہے۔ 
کالج میں داخلہ لیتے وقت خواہشات انتہائی مختصر اور روایتی سی تھیں۔ ایک ڈھب کی نوکری، ایک اچھی سی کار اور ایک خوبصورت سی جیون ساتھی۔
گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں ماسٹرز کرنے کی غرض سے داخلہ لیا اور اس دوران پبلک سروس کمیشن کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحان میں بھی شرکت کی۔ روایتی مقررہ مدت پوری ہونے کے باوجود اس امتحان کا نتیجہ ''انتظارِ یار‘‘ بن گیا اور یوں ہمارے دل کی دھڑکنیں ہر آنے والے دن تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ انتظار کی اِن گھڑیوں کا سلسلہ طویل تر ہوتا جا رہا تھا کہ اسی اثنا میں پنجاب یونیورسٹی میں پاک فوج کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم گریجوایٹ کورس کے لیے افسران کے چنائو کے لیے آ پہنچی۔ ہم نے آئو دیکھا نہ تائو۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق گریجوایٹ کورس کے حوالے سے فوجی افسر بننے کی خاطر سلیکشن کے عمل میں کود پڑے۔ پھر کیا تھا۔ گریجوایٹ تھے اور تازہ و توانا نوجوان بھی۔ پہلے ہی مرحلے میں منتخب کر لیے گئے۔ اور پھر ایک دو ماہ میں ضابطے کی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد 1971ء کے اوائل میں ملٹری اکیڈمی بھجوائے جانے کے لیے چن لیے گئے۔
میرے والدِ گرامی اور والدہ محترمہ کی ترجیح سول سروس تھی اور وہ مقابلے کے امتحان کے نتائج پہ اصرار کرتے رہے‘ جس میں ابھی کچھ وقت تھا۔ ایک باادب بیٹے کی طرح میں نے والدین کے اصرار پر جب پبلک سروس کمیشن سے حتمی جواب چاہا تو بتایا گیا کہ مشرقی پاکستان میں جاری بے چینی اور سیاسی رسا کشی کے باعث وہاں کے امیدواروں کے انٹرویو نہیں ہو سکے‘ لہٰذا مکمل نتیجہ بتانے سے قاصر ہیں۔ جواب ملنے کے بعد میں نے والدین کی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا کہ فوج میں شمولیت اختیار کر لوں‘ لیکن ساتھ ہی ایک چٹھی لکھ کر فوج کو مطلع کر دیا کہ جس روز پبلک سروس کمیشن نتائج کا حتمی اعلان کرے گا۔ اُس روز میں پاک فوج کو چھوڑنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔ 
میں پی ایم اے چلا گیا‘ لیکن اس دوران مشرقی پاکستان کے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ ہمارے کورس کو مختصر کر دیا گیا اور نومبر 1971ء میں پاسنگ آئوٹ طے پائی۔ اسے حُسنِ اتفاق کہیے یا قسمت کی دلفریبی کہ پاسنگ آئوٹ سے ایک ہفتہ قبل پبلک سروس کمیشن نے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا اور مجھے پولیس سروس آف پاکستان کے لیے چن لیا گیا۔ 
والدین نے فورا استعفیٰ دینے پر اصرار کیا‘ لیکن ملٹری اکیڈمی میں قیام کے دوران ہونے والی تراش خراش، جذبوں اور ولولوں سے لبریز فوجی ٹریننگ نے مجھے یکسر بدل دیا اور اب میں جواں حوصلوں کے ساتھ دشمن سے نبرد آزما ہونے والا ایک تازہ دم نوجوان تھا‘ جس میں ملک و ملت کے لیے فرائض ادا کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ اسی جذبے کی وجہ سے میں نے پبلک سروس کمیشن کا نتیجہ اور پولیس سروس میں تعیناتی کی نوید ملنے کے باوجود فوج سے رشتہ استوار رکھنے کو ترجیح دی۔ والدین کو یہ بات باور کرانے کے لیے مجھے اچھی خاصی کوشش کرنا پڑی۔ میرے والد نہ صرف میرے والدِ گرامی تھے بلکہ وہ ایک انتہائی معاملہ فہم اور روشن دماغ دوست بھی تھے اور اسی طرح میری والدہ تو تھیں ہی مجسمہء شفقت و ایثار۔ انہوں نے میری بات مان لی اور پھر پاسنگ آئوٹ میں شرکت کے لیے میرے والد، والدہ اور چار چھوٹی بہنیں تشریف لائیں۔ لیکن اسے حُسنِ اتفاق کہیے یا ایمان و ایقان کا امتحان کہ پاسنگ آئوٹ کے فورا بعد میری پوسٹنگ 6 پنجاب رجمنٹ مشرقی پاکستان کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان کے دِگرگوں حالات کے پیشِ نظر میرے والدین پوسٹنگ کے بارے میں خاصے متفکر تھے۔ اسی لیے انہوں نے ایک بار پھر استعفیٰ دے کر سول سروس میں شمولیت پر اصرار کیا‘ لیکن اب میں ایک مختلف شوکت جاوید تھا۔ میں نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ اس ملک کو آج مجھ جیسے نوجوانوں کی بے حد ضرورت ہے۔ اسے مبالغہ نہ جانیے بلکہ یہ ایک سچی حکایت ہے کہ میری بہادر اور عظیم ماں نے‘ جس کا میں اکلوتا بیٹا تھا‘ انتہائی جرأت و بہادری سے میرے خیالات کی تائید کرتے ہوئے مجھے مشرقی پاکستان کے لیے رخصت کیا۔ آنکھوں میں آنسوئوں کے بجائے چہرے پہ عقیدت، محبت اور شفقت کی روشنی تھی۔ مشرقی پاکستان پہنچنے پر پتا چلا کہ ہماری یونٹ حالتِ جنگ میں ہے اور یہ سیکٹر جیسور تھا۔ پاک فوج کے نامور مجاہد میجر راجہ نادر پرویز میرے قافلہ سالار اور کمپنی کمانڈر تھے۔ میں نے اُن کی کمانڈ میں کمپنی افسر کا چارج سنبھالا۔ 
اسے قسمت کا ہیر پھیر کہیے یا ایک بھیانک حقیقت کہ تازہ جذبوں اور ولولوں سے لبریز قوم پہ نثار ہونے والے ایک نوجوان فوجی افسر کو ڈیڑھ ماہ کی نوکر ی کے بعد 16 دسمبر 1971ء کے خون آشام دن کھلنا کے مقام پر بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ بھارتی سرکار نے اپنے اِن قیدیوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور ان میں سے ہماری گاڑی تین دن کے سفر کے بعد اتر پردیش میں فتح گڑھ کے مقام پر کیمپ نمبر45 کے سامنے جا کر رُکی‘ جہاں میں نے اپنے شباب کے اگلے 22 ماہ اِس کیمپ کی بلند و بالا فصیلوں کے اندر گزارے۔ 22 ماہ کے بعد جنگی قیدیوں کی واپسی کا سفر شروع ہوا اور میں پاکستان واپس پہنچا۔ جنگی قیدیوںکے کیمپ میں گزرے ہوئے صبر آزما ماہ و سال کی ایک خوبصورت حکایت اور جر أت و بہادری سے جڑی ایک داستان میں آخر میں عرض کروں گا۔ پاکستان پہنچنے پر پتہ چلا کہ اس عرصہ میں میرے ہم عصر ساتھی فوج میں کپتان بن چکے ہیں۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ شوکت جاوید کو بھی ضابطے کی کارروائیاں مکمل کر کے کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اس عرصہ میں میں نے پہلی بار والدین کے اصرار پر پاک فوج کو اپنی سبکدوشی کے لیے درخواست دی تاکہ سول سروس میں شامل ہو سکوں۔ اس عمل میں ایک سال صرف ہوا۔ فوج سے علیحدگی کے بعد میں ٹریننگ کی غرض سے سول سروسز کے فرسٹ کامن گروپ سے وابستہ ہو گیا؛ تاہم اِس طرح میں نے سنیارٹی کے دو سال ضائع کر دیے۔ یہ لیٹرل اینٹری نہیں تھی بلکہ فوج سے پولیس میں آنے کا منفرد اور انوکھا کیس تھا۔ اب شوکت جاوید کیپٹن شوکت جاوید سے اے ایس پی شوکت جاوید بن چکا تھا۔ ASP/UT کی حیثیت سے شیخو کی بستی شیخوپورہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا‘ جہاں اُس وقت چوہدری عبدالخالق ضلعی پولیس کے سربراہ تھے۔ وہ نچلے عہدوں سے ترقی کر کے اس منصب تک پہنچے تھے۔ میں نے پولیس سروس میں اُن سا پیشہ ور، ایمان دار اور دیانت دار افسر کم کم ہی دیکھا ہے۔ بعدازاں میں قربان لائنز لاہور ٹرانسفر کر دیا گیا؛ تاہم گلبرگ سرکل لاہور کی ذمہ داریاں بھی میرے پاس تھیں۔ اپنے دفتر کی نشست کے عقب میں لگی ہوئی پیش رو افسران کی فہرست میں جب صاحبزادہ رؤف، فضلِ حق اور رائو رشید جیسے افسران کے نام دیکھتا تو دل میں ایک خواہش چپکے چپکے انگڑائی لیتی کہ یہ سب تو آئی جی کے منصب تک جا پہنچے لیکن کیا میں بھی یہ منصب حاصل کر پائوں گا؟ (جاری) 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں