شغل میلے ختم… پچھلے پیسے ہضم… ماحول ایک بار پھر سنجیدہ اور میدان تپیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ نیا سیاسی جمہوری میلہ جو سجنے کو ہے یہ امر بھی یقینی ہوتا جا رہا ہے کہ انتخابات ہوں گے تبھی تو سیاسی بچے جمورے قوم کو نئے کرتبوں سے محظوظ کرنے کے لیے عوام دوست فلاحی منشور اپنی اپنی پٹاریوں میں سجا کر سیاسی میدان کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہر چند کہ اسٹیبلشمنٹ کی تھالی کے بینگنوں اور ہمارے غیر ملکی آقائوں کے سدھائے ہوئے فصلی بٹیروں نے مفادات کے گھونسلوں سے باہر نکل کر جمہوری ثمرات پر خوب چونچیں چلائیں نیز قوم کا مال کھانے اور ملت کا خون پینے والے ان کے بغل بچوں نے بھی پورا ’’ٹِل‘‘ لگایا کہ ایک مرتبہ پھر انہیں بغیر ’’پدّے‘‘ باری مل جائے لیکن وطن کے خیر خواہوں اور ملت کے بہی خواہوں کی دعائیں ایجاب ہوئیں اور تمام تر جمہوری آلودگیوں کے باوجود ہمارا جمہوری سفر جاری و ساری ہے اور ہم بڑھ رہے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسم بامسمیٰ بنانے کی جانب! اللہ پاک میرے پاکستان کو اسلامی جمہوریت کے رنگ میں رنگ دے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور والی اسلامی جمہوریت کے رنگ میں… اللہ پاک میرے پاکستان کو حضرت عمر فاروقؓ جیسا حکمران عطا کرے۔ پیارے قارئین! گزشتہ پانچ سالہ منتخب عوامی جمہوری نظام میں مار دھاڑ اور ایکشن سے بھرپور ’’ٹاک شوز‘‘ دیکھ کر آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہوگا کہ جمہوری دور کی آلودگیاں آمرانہ دور کی قباحتوں سے کسی طور کم نہیں ہوتیں۔ دور آمریت کا ہو یا جمہوریت کا‘ بڑے پیٹوں والے سدابہار ہیں اور ہر دور کی پیداوار ہیں البتہ جمہوری دور میں آپ ان کے پیٹ اور ان کے کھابوں پر نظر رکھ سکتے ہیں مگر آمرانہ دور میں آپ آمروں کی سیاہ کاریوں پر نظر رکھنے کی جرأت تو کر سکتے ہیں مگر آپ صرف ایسی نظر رکھ سکتے ہیں جو رانجھا ہیر کے لیے رکھتا تھا یا پنوں سسی کے لیے استعمال کیا کرتا تھا۔ پیارے قارئین! حرام خور پیٹو لمبے کھابوں کے لیے آمریت کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ آمرانہ دور کی خوش خوراکیوں کی بعد ازاں پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی جبکہ جمہوری دور کی لوٹ مار کے سائیڈ ایفیکٹس اور آفٹر شاکس کا زیادہ خدشہ رہتا ہے۔ مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ آمریت کے دور میں کرپشن کے یاجوج ماجوج سرکاری زمینیں کوڑیوں کے بھائو نگل گئے۔ پورے ملک کے دریا پی گئے۔ جونکیں عوام کا خون چوس چوس کر مگرمچھ بن بیٹھیں مگر کیا مجال کہ کسی نے ان کے احتساب کی جسارت کی ہو۔ یہ جمہوری دور ہی کا اعجاز ہے کہ لٹنے والا کم از کم چیخ چنگھاڑ تو سکتا ہے جیسے چنگ چی رکشہ الٹنے یا گھوڑے کے بدکنے سے سواریاں غوغا کرنے لگتی ہیں لیکن آمریت تو ایسی کار ہے جس کی سواریاں کرپشن کے حادثات کا شکار ہو کر نہایت خاموشی سے بے نوائی کی قبر میں اتار دی جاتی ہیں۔ جمہوری دور کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بڑے پیٹوں والوں پر نظر ہی نہیں رکھی جا سکتی بلکہ ان کے پیٹ پر لات بھی ماری جا سکتی ہے۔ ایک نابالغ سیاسی کارکن کی حیثیت سے وطن عزیز کی سیاست کا جس قدر مطالعہ میں کر سکا ہوں اس کا نتیجہ میری دانست کے مطابق یہی ہے کہ جمہوریت کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ دکھانے والا ’’پیٹو‘‘ ہے جو احتساب کی آڑ میں خوراک کا نعرہ لگا رہا ہے۔ ریاست کے بجائے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جمہوری دور میں ایسے لوگ او ایس ڈی یعنی کھڈے لائن لگا دیے جاتے ہیں اور اپنی اپنی ’’بلوں‘‘ سے جرنیلوں کو Miss Bells دے رہے ہوتے ہیں۔ کال اس لیے نہیں ملاتے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں۔ ہاں اگر اُدھر سے جوابی کال آ جائے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان پر اللہ پاک کا کرم دیکھیے کہ اس بار ان Miss Bell دینے والوں کو دوسری جانب سے جھڑکیاں سننا پڑ رہی ہیں کہ: The number you have dialed is not responding at the moment, Please try later. بلکہ ہمارے جرنیل صاحب تو بذریعہ ایس ایم ایس سیاست سے اعلان لاتعلقی بھی کر چکے ہیں اور انتخابات کے انعقاد کا یقین بھی دلا چکے ہیں۔ پیارے قارئین!آپ کی طرح مجھے بھی یقین ہے کہ وطن عزیز‘ جمہوریت کی جانب گامزن رہے گا لیکن پاکستانی عوام نے جمہوریت کی منزل تک جس گاڑی کے ذریعے پہنچنا ہے اس کی حالت زار ذرا ملاحظہ فرما لیجیے کہ کرپشن کے کیل کانٹوں سے سٹپنی سمیت پانچوں ٹائر جگہ جگہ سے پنکچر پڑے ہیں۔ بیرونی مداخلت، دہشت گردی و طوائف الملوکی انتہا پر (یعنی دروازوں کے لاک خراب ہیں) اور ہر کوئی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ توانائی کا شدید بحران (یعنی بیٹری ختم)۔ ریڈی ایٹر میں پانی ندارد (دریا خشک ہو چکے ہیں) اسٹیئرنگ فری اور پہیئے بے قابو (عدالتی احکامات سے لاپرواہی) پٹرول ختم ہونے کی وارننگ دینے والی لائٹ جل رہی ہے (خزانہ خالی ہو چکا ہے) ہیڈ لائٹس بند (یعنی مستقبل اندھیر نظر آ رہا ہے) اور اسی حالت میں ہم نے پانچ سالہ سفر طے کیا ہے کہ ؎ نہ انجن میں خوبی نہ کمال ڈرائیور چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے پیارے قارئین! ڈرائیور کا کام صرف گاڑی چلانا ہی نہیں اس کی دیکھ بھال (MAINTENANCE) کا خیال رکھنا بھی ہے۔ کیا موجودہ حکمرانوں نے ایسا کیا؟ پیارے پاکستان کی حالت پہلے سے بہتر ہے یا ابتر؟ الیکشن آ چکے۔ ڈرائیور کی مدت ملازمت پوری ہو چکی چونکہ ہم نے سفر اسی گاڑی میں طے کرنا ہے لہٰذا نیا ڈرائیور ہمیں یہ سوچ سمجھ اور جان بوجھ کے رکھنا ہے کہ اسی بوسیدہ اور خراب حال گاڑی میں ہمیں منزل مقصود تک بھی پہنچائے اور اس کی حالت بھی سنوارے۔ اب ہماری قسمت اور ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ہمیں یہ جان کر چنائو میں حصہ لینا ہوگا کہ اگر ہم نے اس مرتبہ بھی ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا اور ذاتی کی بجائے ملکی مفادات کو مقدم نہ جانا تو شاید ہی آئندہ کبھی اس طرح کھلے بندوں جمہوریت کو پنپنے کا پھر موقع مل سکے۔ یاد رکھیے ’’پیٹوئوں‘‘ کے پیٹ نہیں بھرتے۔ وہ پھر اسی طرح ہمارے اموال اور ملکی املاک ہڑپ کرنے لگیں گے جیسے صدیوں کے بھوکے ہوں۔ پیارے قارئین! آئندہ چنائو سے قبل یہ موقع ہے کہ ہم سوچیں… کیا ہمارا مستقبل اپنے حلقے کے منتخب عوامی نمائندے کی سفارش سے اپنا بچہ اسکول یا کالج داخل کروانے سے روشن ہو سکتا ہے یا پورے وطن کے نونہالوں کو جدید تعلیمی سہولیات کی فراہمی سے۔ کیا گیس اور بجلی چوری یا بدعنوانیوں اور گھپلوں کی ناجائز کمائی سے خریدا ہوا کوئی پلاٹ یا گھر ہماری اگلی نسل کو پناہ دے سکتا ہے یا سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی اور رفاہی حوالے سے شفاف اور ترقی یافتہ مستحکم پاکستان ہمارے نونہالوں کے لیے بہترین پناہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں ہم صرف اپنے اپنے بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی عارضی خوشیاں اور وقتی سہولتیں ڈھونڈھتے رہیں گے یا ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ورثہ میں ایک جنت نظیر ملک دینا ہے۔ یہی وقت ہے فیصلے کا۔ یہی گھڑی ہے جانچنے کی۔