"SAC" (space) message & send to 7575

’’بات ہے رسوائی کی‘‘

جس طرح جاہل آدمی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ ’’میں جاہل نہیں ہوں‘‘ اپنی جہالت کے مزید کئی ثبوت مہیا کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہمارے کئی سیاستدان اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے کے لیے ایسے ایسے بیان داغ دیتے ہیں جو خود ان کے لیے باعث ندامت ہوں۔ شاید یہ سلسلہ کافی پرانا چل رہا ہے مگر اب کم از کم سوشل میڈیا ڈھکی چھپی بات بھی ’’ننگی‘‘ کر دیتا ہے اور پھر برقی پیغام رسانی کے ہتھے چڑھ کر بات لمحوں میں زبان زدعام ہو جاتی ہے۔ صحافتی مسابقتی دوڑ نے عوام کو کافی حد تک باشعور کر دیا ہے‘ چند سال پہلے پورے علاقے میں دو یا تین دانشور پائے جاتے تھے‘ اب صرف گرم حمام پر ہی تین چار بیٹھے ہوتے ہیں اور اس موسم میں تو ہر جامن کے درخت پر بھی ڈیڑھ درجن سے زائد چڑھے ہوتے ہیں۔ بحث کے لیے موضوعات اتنے کہ حمام کے ہر بنچ اور درخت کی ہر شاخ پر علیحدہ بحث چھڑی ہوتی ہے اور ہر مبصر الگ زاویے سے تبصرہ فرما رہا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عقلمند کہتے ہیں کہ ’’اس سے سستی صرف خاموشی‘‘… لیکن سیاست کے شاہد آفریدی شارٹ مارنے سے باز نہیں آتے اور وکٹ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ نئی حکومت کی بدقسمتی کہ اس کے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہی ’’بجٹ فلم‘‘ شروع ہو گئی۔ اس پہ سوا یہ کہ ابھی پہلا سین سمجھنے کے لیے آنکھیں سکیڑ رہے تھے کہ ٹکٹ چیک کرنے والا آن ٹپکا… ارے… لائٹ چلی گئی۔ عوام کی چیخیں… جن میں شدید گرمی اور سابقہ حکومت کی مسلسل ناکامی نے بے پناہ اضافہ کیا ہوا ہے۔ میاں صاحبان نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا ’’فوراً باہر نکل کر لائٹ کا پتا کرنے چین چلے گئے‘‘۔ چینی فلم شروع ہو گئی… وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف اور وزیراعظم چین کی ملاقات… محبتوں کے انگریزی میں تبادلے اور اس میں میاں شہباز شریف کی حصہ داری… ’’بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ چینی حکمرانوں کی خادم اعلیٰ کے ’’پنجابی کارناموں‘‘ کی تعریفیں… شہباز شریف کا پھولنے کی بجائے نندی پور پراجیکٹ میں سابقہ دورِ حکومت کی بیوروکریسی کے غلط رویے کی وجہ سے روٹھ کر چلے جانے والے چینیوں کو منانا… ہمسایہ ملک کے ساتھ دو درجن سے زائد خوبصورت پراجیکٹ کے معاہدوں کی عوام کے کانوں تک پہنچنے والی تہنیتی صدائیں… پاکستان کی تاریخ میں وطن عزیز کو کسی بھی غیر ملک کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی پیشکش پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ ’’چین تیرا شکریہ‘‘ ناکامی کی سڑک پر چلتے چلتے ناامیدی کی دہلیز پر پہنچ جانے والے عوام ایک دفعہ پھر خوشگوار آرزوئوں کی پٹڑی پر چڑھ چکے ہیں۔ ق لیگ کے خوبصورت انداز والے وسیع النظر سیاست دان مشاہد حسین نے بھی میاں صاحبان کے چینی دورے کو کامیاب اور ثمر بار قرار دیا ہے۔ دوسری طرف بجٹ پیش ہو چکا‘ اسحق ڈار صاحب اندرون و بیرونِ ملک سے سرمایہ اکٹھے کرنے پر ’’تل‘‘ چکے۔ اندرونِ ملک ٹیکس اور بیرونِ ملک سے قرضہ مانگا جا رہا ہے۔ جس پر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’ہمارا کشکول تو ڈیڑھ فٹ کا تھا موجودہ حکومت کا ڈیڑھ گز کا ہے‘ ہم اڑھائی سال بعد آئی ایم ایف کے پاس مانگنے گئے تھے مگر ن لیگ والوں سے تو ایک مہینہ بھی نہ نکلا‘‘… اب خورشید شاہ صاحب کو کون بتائے کہ شاہ جی! ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ حضور آپ اڑھائی سال بعد اس لیے گئے کہ مشرف حکومت خزانے میں کافی کچھ چھوڑ کر اُٹھی تھی اور اب کہ حکومتی گدّی سے آپ اُٹھے ہیں۔ موجودہ حکومت کو کیوں فوراً مانگنے کے لیے نکلنا پڑا؟ عوام اس کی وضاحت آپ سے ہی چاہتے ہیں۔ دوسری طرف نئی حکومت کے کئی بائولر بھی گگلی کراتے ہوئے گیند کم گھماتے ہیں اور کلائی زیادہ۔ پچھلے دنوں خواجہ سعد رفیق وفاقی وزیر برائے ’’برباد ریلوے‘‘ نے ایک کڑوی گولی پر میٹھا چڑھانے کی کوشش کی۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ہم ریلوے کی آمدن میں چار ارب کا اضافہ کریں گے یعنی بائیس ارب کے بجائے ہم چھبیس ارب آمدن حاصل کریں گے۔ خواجہ صاحب اگر ساتھ چونسٹھ ارب کے ٹوٹل اخراجات بھی بتاتے تو عوام کو یہ معلوم ہو جاتا کہ آپ جناب نقصان میں چار ارب کمی کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔ ریلوے رہے گی اسی طرح ’’بلوری گھاٹے‘‘ میں… احسن اقبال صاحب نے تو گیند کرانے کی بجائے غصے میں نیچے ہی پھینک دی۔ چین سے واپس آتے پی آئی اے کے ہاتھوں کھجل ہونے پر طیش میں آ گئے اور یوں گویا ہوئے کہ ’’پی آئی اے والے خود ہی ٹھیک ہو جائیں ورنہ اس کی نجکاری لازم ہو جائے گی‘‘… احسن صاحب! ادارے کہنے سے ٹھیک نہیں ہوتے انہیں ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ سابق ڈی جی پاسپورٹ ذوالفقار چیمہ سے ’’بوٹی‘‘ حاصل کر سکتے ہیں۔ موصوف صرف تین مہینے میں ہاتھ اور محکمہ دونوں سیدھے کر دیتے ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں میں بھی بیانات کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ اکثر صحافی ایم کیو ایم کے حوالے سے ’’بے خوف‘ بے باک اور نڈر‘‘ ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں (یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ بندہ‘ الطاف بھائی سے پہلے بھی ڈرتا تھا اور اب بھی ڈرتا ہے) ان چند موقع شناس جرأتمندوں سے گزارش ہے کہ شورش یا وارث بننے کی کوشش پر پابندی نہیں مگر اس کوشش میں ’’رنگ بازی‘‘ نہیں ہونی چاہیے۔ روشنیوں کے شہر کا ایک مقامی اخبار جو روزِ اوّل سے کراچی کے حالات و واقعات اور سیاست کو دلیری اور سچائی سے چھاپ رہا ہے اُس کی پرانی شہ سرخیوں کو ’’ذاتی اور نئے انکشافات‘‘ کہہ کر ڈھٹائی سے اپنے ٹی وی پروگراموں میں پیش کرنا ’’رنگ بازی‘‘ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ جاگیردارانہ ذہنیت والے صحافی سمجھتے ہیں کہ بھینس اُسی کی ہے جس کے کلے سے بندھی ہو مگر مہذب معاشروں میں یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ کس کے کلے سے کھول کر باندھی گئی۔ دوسرے لفظوں میں بھینس چوری کی تو نہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق اور سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں