روزے ختم ہو گئے۔ ماہِ صیام یعنی روزوں کا بابرکت مہینہ رمضان المبارک اس سال بھی رخصت ہو گیا۔ یہ دراصل ہر سال مسلمانوں کو انسانیت کا سبق دینے کے لیے ایک مہینے کی ورکشاپ ہوتی ہے۔ اس ورکشاپ میں انسان کے اندر انسانیت پیدا کرنے کے لیے ہر مشق کروائی جاتی ہے اور بہترین معاشرہ اور با اصول قوم بننے کے لیے ہر سبق دیا جاتا ہے۔ یعنی صبر کا سبق… بھوک برداشت کرنے کا سبق… حلال آمدن میں زندگی گزارنے کا سبق… حرام اکٹھا کر کے اس سے زندگی کی آسائشیں حاصل نہ کرنے کا سبق… اپنے وافر رزق کے لیے دوسروں کے منہ سے نوالہ نہ چھیننے کا سبق… سچ سے پیدا ہونے والی زندگی کی مشکلات برداشت کرنے کا سبق… نظر کو حیا کے دائرے میں رکھنے کا سبق… ہاتھ پائوں کے جائز استعمال کا سبق… قدم کو بھلے کی طرف بڑھانے اور برائی کی جانب اٹھنے سے روکنے کا سبق… ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کا سبق… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے روز مرہ کے معمولات اور عادات بدلنے کی مشق کروائی جاتی ہے اس مبارک مہینے میں… میرے خیال میں کسی بھی عادت کو بدلنا یا چھوڑنا ان سب مشقوں میں زیادہ مشکل کام ہے۔ مگر الحمد للہ ہم رمضان میں اپنی کھانے پینے اور سونے جاگنے کی عادات بدلتے ہیں۔ تاہم انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے علاوہ ہم کسی بھی معمول یا عادت پر سمجھوتہ نہیں کرتے بلکہ بے شمار عادات‘ جو مذہبی حوالے سے گناہ اور انسانیت کے حوالے سے جرائم ہیں‘ اُن میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے‘ خاص طور پر اس مبارک مہینے میں… بلکہ ہمارے کئی ہم وطن تو پورے سال کی کسر اس ایک مہینے میں پوری کر لیتے ہیں۔ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ چور بازاری ہمیں پورا سال پریشان نہیں کرتی کیونکہ اب ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ مگر اس متبرک مہینے میں ان خباثتوں کا عروج انہیں زبان زدعام کر دیتا ہے۔ اس سال بھی ہم نے اس لاقانونیت سے عوام کا بھرکس نکال دیا۔ لمحہ بھر کے لیے نہیں سوچا کہ روزہ ہمیں انہی گناہوں سے بچنے کا تو کہنے آتا ہے۔ ہمیں ہر سال انہی جرائم سے بچنے کی ورکشاپ کروائی جاتی ہے۔ مگر ہم ستم شعار اسی مہینے میں اپنے وطن میں بسنے والے انسانوں کی زندگی میں ستم برپا کر دیتے ہیں۔ بمشکل پیٹ بھرنے والے کو بھوکا رہنے اور بھوکے کو مرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میز کے نیچے سے ڈرتے ڈرتے پکڑنے والے اُسی رشوت کو ’’عیدی‘‘ کا نام دے کر سربازار لوٹ مار کی دکانیں سجا لیتے ہیں۔ کیا ہم معصوم ہیں یا پاگل ہو چکے؟ کیا یہ بھی نہیں جانتے کہ نیتوں کے حال خدا جانتا ہے اور خوب جانتا ہے بلکہ صرف وہی جانتا ہے۔ وہ جس نے ہماری تقدیروں کے فیصلے کرنے ہیں۔ وہ جس کے سامنے ہم نے حاضر ہو کر اپنی گزاری ہوئی زندگی کا جواب دینا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے… ہمارے اندر ہے۔ اُٹھن بیٹھن نالے رکھے نالے جاگن سون تن دے ہجرے وچ فقیرا رہوے پروہنا کون ہم نے تو اب یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا کہ ہم کس کے بندے ہیں؟ ہم کس کے ایماء پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے؟ جس نے کلمہ حق کہنے سے پہلے اپنی تریسٹھ برس کی مبارک زندگی میں پہلے چالیس سال ہمیں انسانیت بتائی نہیں بلکہ دکھائی۔ ہم نے اُسے خود صادق اور امین کی ڈگری دی تب اُس نے کلمہ طیبہ کہا تو کیا کلمہ طیبہ سے پہلے کلمۂ حق پر کاربند ہونا ضروری نہیں؟ کیا ہم چور اُچکے، ذخیرہ اندوز، جھوٹے، بے ایمان، فراڈیے، لوٹ مار کرنے والے صحیح حالت میں کلمہ پڑھ رہے ہیں؟ کیا ہم مسلمان ہیں؟ کیا ہم اسلام سے خارج نہیں ہو چکے؟ کیا ہم جو ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے والے ہیں اُس محسنِ انسانیت کی اُمت سے خارج نہیں ہو چکے؟ جس کی چادر پر بلی سو گئی تو اُس نے بلی کو جگانے کی بجائے چادر اپنے کندھے سے اُتار دی۔ وہ شہنشاہِ دو جہاں جن کے خلفاء سے بیت المال سے ملنے والے کم کپڑے کا بڑا کُرتا سلوانے پر لوگ حساب مانگ لیا کرتے تھے۔ ہم کھانے پینے کی اشیاء میں مٹی، بورا، مُردار اور زہر ملا کر انسانوں کی انتڑیاں اور معدہ کاٹنے والے اُس کے اُمتی ہیں؟ جس کی جنگ لڑنے والے فاتحین نے دورانِ لڑائی دشمنوں کا خیمہ صرف اس لیے تباہ نہ کیا کہ اُس میں فاختہ نے بچے دیئے ہوئے ہیں۔ روزے گزر گئے… آج عید مناتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہم جیسے رمضان المبارک میں عوام کی جیبیں اور ملک کے خزانے لوٹنے والے اُمتیوں کی بخشش کے لیے سفارش کرتے ہوئے مالکِ دو جہاں، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کہیں منہ نہ پھیر لیں۔ سوچیں کہ اس سال ہم نے ’’انسانیت ورکشاپ‘‘ میں کیا سیکھا؟