14 اگست 2013ء جناب محترم قائداعظم! سلامِ مسنون کے بعد عرض ہے کہ یہاں سب خیریت ہے اور ہم سب کو بھی آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے! آپ کے جانے کے بعد جو گھر آپ نے ہمیں اکٹھا رہنے کے لیے لے کر دیا تھا اُس کا نظم و نسق چچا جان ناظم الدین نے سنبھال لیا۔ اُن کے ساتھ چچا جان لیاقت علی خان بھی گھر کی دیکھ بھال کے لیے فعال تھے کہ محلے کے کسی شخص نے ہمارے گھر میں گھس کر چچا جان لیاقت علی خان کو گولی مار دی۔ تفتیش ابھی جاری ہے۔ باقی سب خیریت ہے! چچا جان ناظم الدین نے چچا لیاقت علی خان کی کرسی لے لی اور چچا غلام محمد جو گھر کے خرچے کا حساب رکھتے تھے انہیں اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ چچا غلام محمد کو ایک دن غصہ چڑھا اور چچا ناظم الدین کو ہی بغیر کچھ بتلائے گھر کی ذمہ داریوں سے فارغ کردیا۔ وجہ جاننے کے لیے پوچھ گچھ ابھی جاری ہے۔ باقی سب خیریت ہے! چچا غلام محمد نے چچا محمد علی بوگرہ کو جو اُس وقت امریکہ میں محنت مزدوری کر رہے تھے‘ بلا کر چچا ناظم الدین والی کرسی پر بٹھا دیا۔ چچا محمد علی بوگرہ گھر کی دستور ساز اسمبلی کے ممبر بھی نہیں تھے‘ اس کے باوجود انہیں یہ کرسی دی گئی۔ باقی بزرگوں کی دل آزاری کیوں کی گئی؟… معلوم کرنے کے لیے بحث ابھی جاری ہے۔ باقی سب خیریت ہے! بعدازاں بچوں کی چھیڑ چھاڑ اور شرارتوں سے تنگ آ کر چچا بوگرہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور چچا چودھری محمد علی اُن کی کرسی پر جا بیٹھے۔ چچا غلام محمد جن کو فالج ہو چکا تھا اور بیماری کی وجہ سے ٹھیک طرح بیٹھ نہیں پا رہے تھے‘ انہیں اٹھا کر بستر پر لٹا دیا گیا اور ان کی کرسی چچا سکندر مرزا نے لے لی۔ چچا سکندر مرزا نے کرسی پر بیٹھتے ہی چند بزرگوں کے ساتھ ایسا گٹھ جوڑ قائم کیا کہ چچا چودھری محمد علی کرسی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ چچا سکندر اور دوسرے طاقتور بزرگوں نے مل کر یہ کرسی چچا ابراہیم اسماعیل کو دے دی۔ مگر انتالیس دن کے بعد جب کہ چچا ابراہیم اسماعیل نے اپنے نوزائیدہ اقتدار کا ’’چھِلّہ‘‘ بھی نہیں نہایا تھا کہ بزرگوں کی اکثریت نے مل کر اُن سے کرسی چھین لی‘ یہ سب کیوں ہوا؟… جاننے کے لیے گفتگو ابھی جاری ہے۔ باقی سب خیریت ہے! گھر کے افراد نے ہی چچا ابراہیم اسماعیل والی کرسی چچا حسین شہید سہروردی کو دے دی۔ پھر ایک سال بعد انہی افراد نے چچا سکندر مرزا کا ساتھ دیتے ہوئے چچا سہروردی کو کرسی سے محروم کردیا اور چچا فیروز خان نون کو کرسی نشین ہونے کے لیے کہا۔ گھر کے حالات بگڑتے گئے اور نظم و نسق کرسی نشین چچائوں کے ہاتھ سے نکلنے لگا۔ بوکھلا کر چچا سکندر مرزا نے امّاں جمہوریت سے مشورہ لینے کی بجائے محافظ چچا ایوب خان کو جو کہ رعب‘ دبدبہ اور اچھی صحت کے مالک تھے‘ گھر میں سختی کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے عجب سختی کی کہ چچا سکندر سے ہی کرسی چھین کر اُس پر بیٹھ گئے۔ محافظ چچا نے ایسا کیوں کیا؟… بات چیت جاری ہے‘ باقی سب خیریت ہے! گو ایوب خان نے گھر کی دیکھ بھال شروع کردی لیکن ان کے خوف سے امّاں جمہوریت بیمار پڑ گئیں۔ کئی سال ایسے ہی گزرے۔ بالآخر گھر کے افراد نے شور مچانا شروع کیا اور ماحول خراب ہو گیا۔ محافظ چچا یحییٰ خان جنہیں پہلے چچا ایوب نے گھر کی حفاظت کے لیے اپنی بندوق تھما دی تھی‘ کے سپرد گھر کا نظم و نسق بھی کر دیا۔ چچا یحییٰ موج مستی والے آدمی تھے۔ انہوں نے گھر کی باگ ڈور کمزور اور لاغر امّاں جمہوریت کو تھما کر اپنی جان چھڑانا چاہی۔ امّاں جمہوریت کے دو بیٹے‘ چچا بھٹو اور چچا مجیب اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے میدان میں تھے۔ کرسی پر بیٹھنے کی خاطر گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا۔ کھینچا تانی… گھریلو فساد… آپس میں بچے ناراض… بزرگ سمجھانے کی بجائے پارٹی بازی میں پڑے ہوئے… افراد ایک جگہ بیٹھ کر گھر کی بہتری سوچنے کی بجائے اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے… محلے دار نے فائدہ اٹھایا… ایک چیخ… گھر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا… خوف کے مارے ایک دوسرے کے چہروں پر جمی ہوئی نظریں جب حرکت میں آئیں تو دیکھا کہ کرسی پر چچا بھٹو براجمان تھے۔ یہ سب کیوں ہوا؟ چھان بین کے لیے پنچایت بٹھائی گئی لیکن تاحال نتائج مطلوب ہیں۔ باقی سب خیریت ہے! چچا بھٹو نے ہر فرد کو کھانا‘ نئے کپڑے اور گھر میں ہر ایک کا کمرہ تعمیر کروانے کی خوشخبری سنائی… سب خوش ہو گئے۔ چچا جان گھر سے نکل کر محلے کے معاملات میں بھی حصہ لینے لگے۔ ابھی گھریلو حالات ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ زوردار بیرونی دعوے اور اعلانات شروع کربیٹھے۔ پنڈ کے چودھری کو غصہ چڑھ گیا۔ بس پھر کیا تھا… چچا بھٹو نے جسے تابعدار اور سیدھا سادہ سمجھ کر گھر کا محافظ مقرر کیا تھا اُسی نے چچا بھٹو کی کرسی اُلٹا دی۔ یہی نہیں بلکہ محافظ چچا ضیاء نے چچا بھٹو کو پنکھے کے ساتھ بھی لٹکا دیا… بھئی کس جرم کی ایسی خوفناک سزا؟… فیصلہ ابھی ہونا ہے‘ باقی سب خیریت ہے! چچا ضیاء مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ گیارہ سال کرسی پر ’’ٹِکے‘‘ رہے۔ چچا جونیجو کو خود ہی دوسری کرسی پر بٹھایا اور پھر اُٹھایا جو کسی کی سمجھ میں نہ آیا… …ہائے ری قسمت… ایک دن چچا ضیاء‘ گھر کے کچھ افراد اور چودھریوں کے ایک لڑکے کے ساتھ چھت پر چڑھے ہوئے تھے کہ نیچے آ گرے۔ دھکا کس نے دیا؟ تفتیش ابھی جاری ہے۔ باقی سب خیریت ہے! اب چچا غلام اسحاق خان کرسی پر بٹھائے گئے۔ والد کی سزا سے ناراض اور چچا ضیاء کے خوف سے گھر چھوڑ جانے والی باجی بے نظیر واپس آ گئیں۔ امّاں جمہوریت کی خواہش اور گھر کے افراد کی رائے سے انہیں دوسری کرسی دے دی گئی۔ دوسری کرسی پر باجی بے نظیر نے چچا فاروق لغاری بٹھائے اور پھر چچا فاروق لغاری نے ہی اُن کی کرسی اُلٹائی۔ پھر کبھی بھائی جان نواز شریف اور کبھی باجی بے نظیر… اس دوران تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے چچا معین الدین‘ چچا جتوئی اور چچا معراج خالد نے بھی کرسی نشینی کا مزہ چکھا۔ ایک بار پھر امّاں جمہوریت کے لختِ جگر بھائی جان نوازشریف اور چچا رفیق تارڑ کرسیوں پر موجود تھے کہ محافظ چچا پرویز مشرف نے بندوق تان لی۔ بھائی جان نوازشریف کو کرسی سے اٹھا کر کمرے میں بند کر دیا۔ نانی امّاں اُن کے لیے فکر مند ہوئیں اور ماموں کو بھیج کر انہیں اپنے گھر بلا لیا۔ چچا پرویز کے خوف سے نو سال امّاں جمہوریت کا کوئی بچہ گھر میں نہ گُھس سکا۔ ایک دفعہ پھر بچوں کا شوروغوغا… آخر کار چچا پرویز مشرف نے بندوق چچا کیانی کے ہاتھ میں تھما دی۔ اللہ اللہ کر کے نکالے گئے افراد گھر واپس لوٹے اور پھر امّاں جمہوریت کی صحت کے لیے فکر مند ہوئے۔ اسی دوران کوئی دشمن گھر میں گھسا اور باجی بے نظیر کو گولی کا نشانہ بنا گیا۔ پھر خوف… ناامیدی… پھر جمہوریت کی سانس اکھڑنے لگی… مگر چچا کیانی اُس کے ’’دوا دارو‘‘ کا فیصلہ کر چکے تھے۔ گھر کے افراد کی رائے مانگی گئی اور باہمی مشورے سے جیجا جی زرداری کو کرسی پر بٹھایا گیا۔ زرداری بھائی کو پورے پانچ سال دیئے گئے مگر انہوں نے ہمارے ساتھ وہی کیا جو بہنوں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بہنوئی کیا کرتے ہیں… گھر کے تمام افراد نے ہاتھ ملتے ملتے پانچ سال گزارے۔ دوبارہ صلاح مشورہ کیا۔ اب بھائی جان نوازشریف کرسی پر ہیں… اور گھریلو حالات کے لیے فکر مند… بہرحال! کرسیوں کے ساتھ زور آزمائی کرنے اور بار بار اٹھنے بیٹھنے سے گھر کا فرنیچر خراب ہو چکا ہے۔ بزرگوں کے آپس میں لڑنے جھگڑنے سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ بچے اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اکثر الماری سے پیسے نکال لیتے ہیں۔ کام کاج پر کم ہی جاتے ہیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ گھر کے یوٹیلٹی بلز کیسے ادا ہوں گے۔ اس اندرونی خلفشار کو دیکھتے ہوئے اکثر محلے دار ہمارے گھر میں گھس کر خون خرابہ کر جاتے ہیں۔ گائوں کے چودھری سے کچھ پیسے اُدھار لیے ہوئے ہیں جن کی واپسی نہیں ہو رہی۔ جس کی وجہ سے چودھری ہمارے گھریلو معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ ہم آپ کے لیے دعا کریں مگر ہمارے گھریلو حالات کے پیشِ نظر میری استدعا ہے کہ آپ اللہ پاک کی رحمتوں کے سائے میں تشریف فرما ہیں اس لیے آپ ہی ہمارے لیے دعا کریں کہ ہمارے گھریلو حالات ویسے ہو جائیں جیسا آپ چاہتے تھے اور اللہ پاک ہمیں ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم اور یقین محکم عطا فرمائیں! آمین والسلام آپ کی بیٹی غریب قوم